بارہ سال خودکش بمباروں کی ’’ خبراہٹ ‘‘ کے ساتھ

کہتے ہیںبری خبر ایک بم کی طرح گرتی ہے ۔ ہمارے جیسے ملکوں میں ہر خبر ہی بم کی طرح سماعتوں پہ گرتی ہے۔ اس لحاظ سے بطور نیوز اینکر میں ایک بمبار ہوں ۔ 28جولائی کو مجھے ٹی وی پر یہ بمباری کرتے بارہ برس ہوچکے ۔ ریڈیو کا ڈیڑھ برس اس کے علاوہ ہے ۔ آج سوچتا ہوں تو کل کی بات لگتی ہے ۔ 22مئی 2008ء کو میں 'دنیا‘ میں آگیا تھا۔ 28جولائی 2002ء کو میں نے بمباری کا یہ سفر پاکستان کے پہلے نجی ٹی وی چینل سے شروع کیا تھا۔ میں غضنفر صاحب کے چینل کی بات کررہا ہوں‘ آپ کوئی اور ادارہ نہ سمجھ لیجیے گا ۔ 
عزیز عزمی مرحوم نیوز روم کے مالک تھے اور پورے نیوز روم کو وہ کرایہ دار سمجھتے تھے ۔ ایک انگلش زدہ ماحول تھا اور اردو بولنے والے اسی طرح مختلف نظر آتے تھے جس طرح مولانا فضل الرحمن کی پارٹی میں جان اچکزئی مختلف محسوس ہوتے ہیں۔ اس انگلش زدہ ماحول میں ایک بار عزمی صاحب نے قومی اسمبلی کی خبر میں رکنِ اسمبلی کے الفاظ لکھے اور نیوز اینکر اسے بغیر '' زیر ‘‘ کے رکن اسمبلی پڑھ گئے ۔ بلیٹن کے بعد عزمی صاحب نے اینکر کو طلب کیا اور دریافت فرمایا کہ آپ نے ''رکن ِ ‘‘ اسمبلی کو رکن اسمبلی کیوں پڑھا ؟ اینکر نے جواب دیا کہ پرومپٹر پہ رکنِ اسمبلی غلط لکھا تھا ۔ یہ سن کر عزمی صاحب نے خلافِ معمول تحمل کا مظاہرہ کیا اور اس '' برگر ‘‘ اینکر سے پوچھا: ''بتا ئیے کیسے لکھتے ہیں ؟ اینکر نے قلم تھا ما اور ایک کاغذ پر لکھا ''رکنے اسمبلی‘‘ اور فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ عزمی صاحب کی طرف دیکھا ۔عزمی صاحب نے خاموشی سے ان کی شکل چند لمحے دیکھی اور کمرے سے نکل کر سگریٹ کے دھوئیں میں '' رکنے ‘‘ کو رکنے سے روکا ۔ ایک بار یہ ہوا کہ ہمارے ایک بہت ہونہار دوست نے‘ جو چینل کے مالک کی طرف سے نیوز روم کے لیے '' تحفہ ‘‘ تھے‘ اسپورٹس کی خبر میں لکھا کہ مقابلے کو ہیوی ویٹ باکسر کے ماما پاپا نے بھی دیکھا ۔ عزمی صاحب ان کے سر پر پہنچے اور پوچھا یہ کیا لکھا ہے ؟ 'ماماپاپا نے دیکھا‘ تو انہوں نے جواب دیا ''آپ لوگوں نے ہی کہا ہے کہ عام زبان لکھیں ‘‘ ۔ عزمی صاحب نے کہا ماما پاپا آپ کے گھر کی زبان ہے‘ عام زبان نہیں‘ مہربانی فرماکر اسے تبدیل کیجیے ۔ انہوں نے حکم کی تعمیل کی اور لکھ مارا کہ مقابلے کو باکسر کے امی ابو نے بھی دیکھا ۔ بعد میں عزمی صاحب نے لاعلاج اسپورٹس رائٹر سے معافی چاہتے ہوئے‘ امی ابو کو والدین سے تبدیل کیا ۔
ایک مرتبہ یہ کمال بھی ہوا کہ ایک بلیٹن کے اختتام پر اینکر نے اجازت کچھ یوں چاہی کہ اس بلیٹن سے فلانے اور فلانی کو ''ہدایت دیجیے ‘‘ اور پھر انہیں ''اوپر سے‘‘ ایسی ہدایت ملی کہ وہ ''اجازت ‘‘ کا لفظ زندگی بھر نہیں بھول پائے ۔
میرے ایک بہت اچھے دوست نے جو اس وقت تک ''مکمل ‘‘ برگر ہی تھے۔ ایک بار براہ راست خبرنامے میں خبر پڑھتے پڑھتے کمال معصومیت اور ایمانداری کا مظاہرہ کیا ۔ خبر پٹرول کے وزیر کی تھی۔انہوں نے پڑھنا شروع کیا ''وقافی وزیر‘‘ اور رک کے لائیو پرومپٹر کو گھورا اور کہا وفاقی وزیر peter william ...پھر حیران ہوکر کیمرے کو گھورا اور دوبارہ کہا وفاقی وزیر peter william...ناگواری کا تاثر ان کے چہرے پر ابھرا۔ اب سوچیے یہ سب کچھ لائیو ہورہا ہے اور پھر خوش ہوکر انہوں نے کہا‘ وفاقی وزیرِ پیٹرولیم! اور پھر باقی کی خبرپڑھی ۔ 
میرے گزشتہ ادارے میں بھی بڑے بڑے کمالات ہوئے ۔ میرے ایک دوست نے بسکٹ فیکٹری میں لگنے والی آگ کی خبر پر رپورٹر سے یوں پوچھا :بتائیے '' بسکُٹ ‘‘ فیکٹری میں آگ کیسے لگی ؟ بسکُٹ کا پیش بہت زور سے ادا کیا گیا۔ بلیٹن کے بعد نیوز روم انچارج نے ان کو بتایا کہ آگ شارٹ سرکُٹ سے لگی ۔ اب کی بار بھی سرکُٹ کا پیش بہت شدت سے ادا کیا گیا ۔پرویز مشرف کے دنوں میں ان کے مخالفین بار بار انہیں '' باوردی ‘‘ صدر ہونے کا طعنہ دیتے تھے ۔ مخالفین کی اس جلن کو ایک فی میل اینکر نے کم کیا اور باوردی صدر کو ''بارودی ‘‘ صدر بنادیا ۔ کراچی کے مبینہ ٹاؤن تھانے کو اکثر مبیّنہ دہشتگرد کے انداز میں مبیّنہ ٹاؤن تھانہ پڑھنا تو چھوٹی سی بات ہے ۔ 
پرومپٹر پر لکھی خبر کے الفاظ اینکر پڑھتا نہیں بلکہ امیج نظر آتی ہے اور میکینکل انداز میں اینکر امیج کو زبان سے ادا کردیتا ہے ۔ ایسے میں ملتی جلتی امیجز غلطی بھی کروادیتی ہیں ۔ 'زنجیر زنی‘ ہم نے 'رینجر زنی‘ ہوتے دیکھی ہے اور روڈ 'بلاک‘ کی جگہ 'ہلاک‘ ہوا ہے ۔ پرویز اشرف‘ پرویز مشرف بنے ہیں اور انیس شیخ کو انیس(19)بھی ادا کیا جاچکا ہے ۔ ایسے اکثر اینکرز خودکش بمبار ثابت ہوئے ہیں اور اپنا کیا انہوں نے خود بھگتا بھی ہے ۔ لیکن ایک بار ایک خود کش بمبار نے تو اتنا بڑا کمال کیا کہ دھماکے کی براہ راست کوریج میں رپورٹر سے پوچھا کہ کیا خودکش بمبار بھی جاں بحق ہوگیا ہے؟ کمال دیکھیے کہ وہ سر پھر ا جس کی کمر سے بارود کا ڈھیر بندھا تھا‘ اس کی زندگی کی فکر‘ اور فکر بھی اتنی کہ
اس ہلاکت کی جگہ اس کے جاں بحق ہو نے کا سوال ہے ۔ ایک بار ایک اینکر نے مجھے کچھ کم برا جان کر پوچھا کہ یہ حر کیا ہوتے ہیں ؟ میں نے کہا ایک قبیلہ ہے ۔ ان کے لیے اتنا جواب علمی پیاس بجھانے کو ناکافی تھا۔ کہنے لگیں ان کا نام حر ہی کیوں ہے ؟ میں جل بھن گیا مگر میں نے ظاہر کیے بنا کہا کہ دراصل یہ لوگ کبوتر پالتے ہیں اور ان کو اڑانے اور واپس بلانے کے لیے حر حر کی آوازیں لگاتے ہیں ،اسی بنا پر یہ نام پڑ گیا ۔ انہوں نے جواب پاکر شکریہ عنایت کیا اور میں نے خاموشی سے قبول کرلیا ۔ انتہا تب ہوئی جب موصوفہ نے ایک صاحب علم شخص کو یہ تعریف اپنی علمیت کا رعب جھاڑنے کو سنا ڈالی۔ انہوں نے پوچھا ،یہ آپ کو کس نے بتایا اور انہوں نے اس ناچیز کا نام لے دیا۔ مجھے جان چھڑانا مشکل ہوگیا ۔ ایسا ہی ایک کمال ابھی فٹبال ورلڈ کپ فائنل کے موقع پر ہوا ،جب اردو میں لکھا ''گولڈن بوٹ‘‘، Golden Boat میں تبدیل ہوگیا ۔یہ تھے میرے کچھ خودکش بمبار دوستوں کے دھماکے مگر اب میں نے اپنے تئیں کالم نگاری کی کاوش کی ابتدا کردی ہے تو مجھے لگتا ہے کہ یہاں میں اکثر اپنی قلمی بدتمیزیوں کی وجہ سے انچارج ایڈیٹوریل سیکشن کو خودکش بمبار ہی محسوس ہوتا ہوں۔ آپ دعا کیجیے کہ میں سدھر جاؤں جیسے میں دعا کرتا ہوں کہ میرے خودکش بمبار ساتھی سدھر جائیں ۔ لیکن جانتا ہوں ع 
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں