منّا اور خان صاحب کی وزارت عظمیٰ

کچھ دن پہلے مجھ سے عمر میں نو دس سال بڑے میرے ایک دوست نے ایک نجومی سے انتہائی لجاجت کے ساتھ پوچھا '' میری شادی کب ہوگی ؟‘‘ نجومی نے اس کی شکل ، عمر اور حالت کا جائزہ لینے کے بعد بہت پکے منہ کے ساتھ جواب دیا '' ولیمے سے ایک دو دن پہلے ‘‘ ۔
بالکل اسی طرح میں بھی بتا سکتا ہوں کہ عمران خان صاحب حلف اٹھاتے ہی وزیر اعظم بن جائیں گے ۔ طے شدہ وقت کوئی نہیں لیکن اگر وہ اگلے وزیر اعظم بن پائیں تو زمانہ 2018ء کا بنتا ہے مگرعمران خان صاحب اگست میں مارچ اور 2014ء میں ہی الیکشن لانا چاہتے ہیںجبکہ قادری صاحب کو ستمبر میں '' ستمگر ‘‘ نظر نہیں آرہے ۔
ہر شخص جاننا چاہتا ہے کہ چودہ اگست کو کیا ہوگا ؟۔ میری رائے میں ''جنہیں ‘‘پتہ ہے وہ کسی کو پتہ چلنے نہیں دیں گے اور باقی حکومت سمیت کسی کو نہیں پتہ کہ چودہ اگست کو کیا ہوگا حالانکہ حکومت کو معلوم ہونا چاہیے تھا مگر یہ بے چاری چائنا موبائل جیسی حکومت ہے ۔ چائنا موبائل کیا کرپائے گا ،کوئی نہیں جانتا ...نہ بنانے والا ،نہ بیچنے والا اور خریدنے والا ،اگر بے چارا جانتا ہوتا تو خریدتا ہی کیوں ۔ یہی حال اس وقت عوام کا ہے ۔اگر جمہور بے 
چاری باخبر ہوتی کہ اس کا سوا سال میں سوا ستیا ناس ہوجائے گا تو شیر کو ووٹ ڈالنے کے بجائے خود کو شیر کے آگے ڈال دیتی ۔نہ بجلی ، نہ پانی، نہ گیس ، نہ روزگار ،نہ امن و امان کا کوئی حال اور اس پر روز یہ شور کہ مخالفین سے ترقی کا سفر برداشت نہیں ہورہا ۔ جو حکمرانوں کے نزدیک سفر ہے وہ عوام کی زندگی میں صفر ہے ۔صرف پنجاب میں جرائم کی شرح ایک سو دس فی صد بڑھی ہے ۔ ڈالر نیچے آیا اور عوام مہنگائی اور بجلی کے بل کے نیچے آگئے ۔ ایک بار پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہے ۔عوام کو اس وقت زرداری حکومت پیاری اور مشرف پیارے ترین لگ رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ کسی سازش کے تحت نہیں ہو رہا ۔ جمہور کی زندگی میں جو آگ حکمرانوں کی نااہلی نے لگائی اسی کا دھواں اب حکومت کی سانسیں روک رہا ہے ۔ 
حکومت کو تب پتہ ہوتا کہ چودہ اگست کو کیا ہوگا جب اس نے عوام کے لیے کچھ کیا ہوتا ۔ عوام کو ریلیف دینے والی حکومت ہی مضبوط حکومت ہوا کرتی ہے ۔ایسی حکومت کو پتہ ہوتا ہے کہ کوئی آزادی مارچ لے آئے یا انقلاب مارچ کچھ نہیں ہوگا مگر یہاں حکومت کی بدحواسی صرف بہترین تماشے کا سامان ہے ۔ وزیر اعظم دن میں آدھا درجن مشاورتی ملاقاتیں کررہے ہیں ۔ ملاقات کرنے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنا کردار ادا کریں گے اور کر کچھ نہیں پارہے ۔ وزرا، جو چند دن پہلے تک مخالفین کا ٹی وی پر باقاعدہ مذاق اڑاتے تھے ،اب دن میں دس دس بار مذاکرات کر لیں ، مذاکرات کرلیں کی بین بجارہے ہیں لیکن بھینس اور سیاسی مخالف کے آگے بین بجانے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں ۔ خواجہ سعد رفیق صاحب کے ذمے حکومت نے ایک ماہ طویل آزادی تقریبات کی ذمے داری لگائی انہوں نے پوری منصوبہ بندی کرلی کہ احتجاج کے خلاف جشن آزادی کے پیچھے کیسے چھپنا ہے ۔ ایک ماہ طویل جشن آزادی کو خواجہ صاحب نے حکمت قرار دیا اور کہا تھا کہ حکومت طاقت استعمال نہیں کرے گی ۔ اب پتہ چلا ہے کہ حکمت آرٹیکل دو سو پینتالیس کا نام ہے ۔ ساڑھے آٹھ سو کنٹینرز کا نام بھی حکمت ہے۔ اسلام آباد کے چھوٹے بڑے اینٹری پوائنٹس کو بھی در ِحکمت بنا کر بند کیا جارہا ہے ۔ اسی حکمت کے تحت پولیس نے موٹرسائیکلوں کی پکڑ دھکڑ شروع کردی ہے اور اس سے بھونڈی حکمت یہ کہ رینٹ اے کار مالکان پر دھونس جمائی جارہی ہے کہ لاہور سے باہر کی بکنگ نہ کی جائے ۔ میرے سینئر طاہرسرور میر نے گزشتہ دنوں اپنے کالم بعنوان '' ٹھاہ ‘‘ میں لکھا تھا کہ چودہ اگست کو حکومت کا ٹھاہ نہیں ہوگا بلکہ اس کی دُم پر ایک پٹاخہ بندھ جائے گا جو رک رک کے چلے گا مگر حکومت نے اپنی حرکتو ں سے چودہ اگست سے پہلے ہی اپنی دم پر پٹاخے باندھ لیے ہیں جو دن میں کئی بار چل رہے ہیں ۔چودہ پندرہ ماہ کی جمہوریت کسی چودہ پندرہ ماہ کے بچے کی طرح ہے جو یہ کہتا رہتا ہے ''میں گروں گا تو بالکل بھی نہیں ‘‘! اور جب گرتا ہے تو روتے ہوئے پوچھتا ہے میں کیوں گر گیا، بتاؤ میں کیوں گرگیا ؟ وزرا اتنے ڈرے ہوئے ہیں کہ اب انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ اگر حکومت گری تو عمران خان بھی حکومت نہیں بناسکیں گے۔دونوں جانب سے پورا زور لگایا جارہا ہے ۔پبلسٹی مہم بھی شروع ہوچکی ہے ، عوام اور چندے کا پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے ۔
عوام کی قسمت یہ ہے کہ صوبے میں ناکام حکومت ،ملک میں ناکام حکومت کو چیلنج کررہی ہے ۔ کانے اور اندھے کی بینائی کے مقابلے میں عوام سے روشنیوں کے وعدے ہیں ۔ مجھے دونوں سے کوئی امید نہیں ۔ حکومت کے حمایتی '' قلمی خاص ‘‘ عمران خان کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ وہ اب تک چار حلقوں کے لیے آہیں بھر رہے ہیں اور بے چارے خان صاحب ! ان کی کارکردگی نہ ہونے کے باعث ان کے حامی اگر حمایت کرتے بھی ہیں تو اتنی ڈھیلی کہ ؎
بیٹھ کر چوبارے پر ٹھنڈی آہیں بھرتا ہے 
تم سے لاکھ چنگا ہے کچھ نہ کچھ تو کرتا ہے
محترم خالد مسعود صاحب کی دور اندیشی کا شکریہ کہ انہوں نے اس صورت حال کے لیے برسوں پہلے شعر موزوں کرلیا تھا ۔ لیکن میں حیران ہوں ،حکومت اور حزب اختلاف کے سیاستدانوں کی دور اندیشی پرکہ جنہیں یہ تو نظر آرہا ہے کہ آرٹیکل دوسو پینتالیس منّا مارشل لا ہے لیکن یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ منّا بڑا بھی ہو سکتا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں