ان دنوں ملک میں چین سے نہ بیٹھنے کا موسم آیا ہوا ہے ۔ دو وزرائے اعلی اور ''حاکم بالا‘‘ تینوں کا فرمان ہے کہ جب تک سیلاب زدگان کو ان کے پیروں پر کھڑا نہیں کردیتے، چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔ اس چکر میں یہ شخصیات سیلاب زدگان کو روزانہ ان کے پیروں پر کھڑا کرتی ہیں ۔ دورہ ہوتو سیلاب زدگان اور علاقہ افسران سب اپنے پیروں پر کھڑے رہتے ہیں ۔ کام خاک نہیں ہوتا ۔ ہیلی کاپٹر آتا ہے ۔ آنسوؤں اور پانی میں ڈوبے ہوئے لوگوں پر خاک ڈالتا ہے ۔ ہیلی کاپٹر میں بے چین بیٹھی شخصیت ایک لینڈ کروزر میں آکر بے چین بیٹھتی ہے اور پھر یہاں وہاں پڑے بے آسرا لوگوں کے درمیان بے چین کھڑی ہوجاتی ہے اور اپنے عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مکمل پہناوے سے محروم لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا رکھتی ہے ۔ اپنی بے چینی کا حال سناتی ہے ۔ وعدے کرتی ہے ۔ وہ شخصیت کیمروں کو اپنے رخ روشن کا دیدار کراکے چلی جاتی ہے اور لوگ اپنے پیروں پر کھڑے رہ جاتے ہیں۔
چین سے نہ بیٹھنے کا موسم پاکستان میں کم از کم 2010ء سے سالانہ بنیادوں پر آرہا ہے ۔ ہر برس سیلاب آتا ہے ۔ ہر برس لوگ مرتے ہیں۔ ہر برس بے چین شخصیات انہیں ان کے پیروں پر کھڑا
کرتی ہیں ۔ کبھی راشن کی لائن میں کھڑا کرتی ہیں اور لاٹھیوں سے پیٹ بھرتی ہیں۔ہیلی کاپٹر میں پسندیدہ کیمرہ ٹیم کے ساتھ بے چین شخصیت اپنے مزاج سے کہیں کم اونچائی پر فضا میں اڑتی ہے ۔امداد کا پیکٹ پھینکا جاتا ہے اور نیچے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کیے، بھوکے مفلس لپکنے کو تیار، اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ کبھی انکم سپورٹ پروگرام کی بھیک کی قطار میں یہ بے چین شخصیات انہیں ان کے پیروں پر کھڑا کرتی ہیں اور وعدے کے نلکے سے بوندیں ٹپکتی ہیں ،کبھی پوری دھار نہیں نکلتی اور جونہی نظر چُوکے یہ نلکاہوا دینے لگتا ہے ۔ کبھی یہ تخمینے کی لائن میں کھڑا کرتی ہیں۔ بے چین افسران دفتروں کو چھوڑ کر شامیانوں میں میز کرسیاں لگا کر بیٹھتے ہیں ۔ یقینا بے چین ہی بیٹھتے ہوں گے اور تخمینہ لگانے والے افسر کو یہ بتانے کے لیے کہ میری بکری مر گئی ، میری گائے بہہ گئی، میرا بچہ بیماری سے مرگیا یا میرا سہاگ ڈوب کے مرگیا، غریب اپنے پیروں پر کھڑا ہوجاتا ہے ۔پھر بغیر چیک اینڈ بیلنس کے
چیک کی تقسیم کا وقت آتا ہے اور غریب اپنے پیروں پر قطار میں کھڑا ہوجاتا ہے ۔ چیک کیش کرانے کے لیے غریب بینکوں اور دفتروں کے چکر پہ چکر لگاتا ہے اور اپنے پیروں پر کھڑا رہتا ہے ۔ جس کا چیک کیش نہ ہو اسے ،رپورٹر برادری اپنے پیروں پر کھڑا کرتی ہے ۔ ہاتھ فضا میں بلند کرواکے شوٹ کرتی ہے اور پورا ملک دیکھتا ہے کہ غریب اپنے پیروں پر کھڑا ہے ۔
وطن عزیز میں چین سے نہ بیٹھنے اور اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا موسم کئی بار بے موسم برسات کی طرح بھی آتا ہے ۔کبھی کسی فیکٹری میں آتشزدگی کی صورت میں تو کبھی ماڈل ٹاؤن میں چودہ لاشوں کی صورت میں ، کبھی تھر تھرا جاتا ہے تو کبھی خسرہ خطرہ بن کر جانیں لیتا ہے ۔دعویٰ کیاجاتا ہے کہ ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے اور غریب ہسپتالوں سے قبرستانوں تک اپنے پیروں پر کھڑے کا کھڑا رہ جاتا ہے۔ بلوچستان میں زلزلہ آتا ہے اور صوبہ'' اپنے مالک ‘‘کو ڈھونڈتا رہ جاتا ہے ۔ خیبر پختونخوا میںموت بارش کے بعد رقصاں رہتی ہے اورہمیں دکھائی دیتا ہے کہ کوئی ہے جو کنٹینر کے اوپراسی حالت میں ہے اور چین سے نہیں بیٹھا ہوا ۔
ادویہ کا گھوٹالا ہو یا کھانسی کے شربت سے ہر درد سے ملنے والی مکمل نجات ۔ ہسپتالوں میں بچوں کو چوہے کاٹ لیں یا کسی ادارے کی اپنی ہی خلاف قانون بنی عمارت میں لوگ جل مریں یا کھڑکیوں سے کود کر جان دے دیں ، لوگ اپنے پیروں پر کھڑے کف افسوس ملیں اور حکمران چین سے نہ بیٹھیں ،یہ تماشا جاری و ساری ہے۔
کیونکہ ،ساحر سے معذرت کے ساتھ
غریب کی بات ہی کیا غریب کی اوقات ہی کیا
غریب بس غریب ہے آغاز سے انجام تلک
موج آبی میں مرے یا مرے بیماری میں
آگ سے جل کے مرے یا مرے ناداری میں
غریب بس غریب ہے ،بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
غریب مٹ جاتا ہے غربت نہیں مٹتی ۔ مظلوم گھٹ جاتا ہے ظلمت نہیں گھٹتی ۔ چین سے نہ بیٹھنے والوں سے عرض صرف اتنی ہے کہ گر آپ ایک بار چین سے بیٹھ جائیں ، کوئی منصوبہ بندی کرلیں ،کچھ کام حقیقتاًکرلیں اور ہر بار لاشوں پر چیک جاری کرنے کی بجائے زندوں کو بچانے پر خرچ کریں تو لوگوں کو واقعی اپنے پیروں پر کھڑا کرسکیں گے ،ورنہ آپ کا چین سے نہ بیٹھنا اور تعزیراً مجبور کا اپنے پیروں پر کھڑے رہنا وہ تماشا ہے جو سدا جاری نہیں رہے گا ۔ آپ جھنگ پہنچے ،مفلسوں کے واسطے امداد پہنچی ،لیکن جن کو کئی دنوں سے کچھ نہ ملا تھا انہوں نے اپنے لیے آئی امداد کو لوٹ لیا ۔ کراچی میں جہاز کے اندر چین سے نہ بیٹھنے والوں کے ساتھ جو ہوئی ، اسے دنیا اب روشن مثال مان رہی ہے ۔ عوام نے اپنے نمائندے اور اپنا غصہ دونوں اتاردیے ۔ اس لیے ایک بارآپ سب چین سے بیٹھ جائیں ورنہ لوگ واقعی اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں گے اور پھر آپ چین سے بیٹھ نہیں پائیں گے۔