ایم کیو ایم… جمود شکن تحریک

آزادی کے بعد وطن عزیزایسے طالع آزمائوں کے ہاتھوں میں چلا گیا جو عوام کے حقوق سے کھیلتے رہے اور تقسیم کرو اور حکومت کرو کے فارمولے پرعمل پیرا رہے ۔ ان کے کردار نے وطن عزیز پر جمود سا طاری کر دیا۔ یوں مملکت خداداد پر چند سو خاندانوں کے اقتدار کا تسلط قائم ہوگیا۔ عوام اسی میں اپنی عافیت سمجھ رہے تھے کہ وہ زندہ رہیں اور سانس لیتے رہیں۔ حقوق کا مطالبہ اور زندہ رہنے کا حق مانگنا جرم بنا دیا گیا۔ پاکستان کے عوام جمود کا شکار ہو گئے۔ کوئی بھی نظریہ اور کوشش اس لیے کارگر نہ ہوئی کہ یا تو ایسی تحریکیں چلانے والے صاف نیت نہ تھے یا پھر انہیں استعماری طاقتوں نے راستے سے ہٹا دیا۔ ملک میں طالع آزمائوں کی حکومتیں مضبوط ہوتی چلی گئیں اور عوام کا نظریاتی تشخص ابھی بننے بھی نہ پایا تھا کہ بکھر گیا۔ قوم کئی نسلوں ، کئی زبانوں، کئی فرقوں اور کئی مذاہب میں تقسیم ہو گئی۔ 
اجتماعی طور پر بنیادی حقوق کا تصور مٹ گیا۔ اس جمود زدہ معاشرے کے ٹھہرے ہوئے پانی میں 18مارچ 1984ء کو قائد تحریک الطاف حسین نے ایم کیو ایم کی بنیاد ڈال کر پہلا پتھرپھینکا۔ وہ نظریہ جس نے کراچی کی مادرِ علمی میں جنم لیا، دیکھتے ہی دیکھتے شہر کراچی ،صوبہ سندھ اور پاکستان کے طول و عرض میں پھیلنے لگا۔ آج گلگت ، بلتستان اور کشمیر سمیت سندھ کے ساحلوں سے لے کر خیبر پختونخوا کی وادیوں تک یہ نظریہ آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچائی اور عملیت پسندی کے تقاضوں پر پورا اترنے والا نظریہ ہی تمام تر مشکلات، مصائب اور تکالیف کے باوجود فروغ پاتا ہے۔ لاکھ پہرے لگائے جائیں لیکن یہ نظریہ انسانوں کے ذہنوں کو منور کرتا چلا جاتا ہے اور اس نظریے کے خالق قائد کو دلوں کا حکمراں بنادیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے ساتھ ہوا۔ ان کے ہزاروں کارکنان نے اپنی جانیں نچھاور کیں۔ سینکڑوں جلاوطنی پر مجبور ہوئے۔ اسیری، تشدد ایم کیو ایم کے کارکنان کا مقدر بنا دیا گیا۔ اس کے باوجود یہ سفر نہ رک سکا۔ یہ استقامت صرف ا س حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ عوام کے حقوق اور زندہ رہنے کے لیے ضروریات کا حصول اس نظرئیے کے تحت آنے والے نظام میں نظر آتا ہے۔ اسی لیے الطاف حسین کے نظریہ سیاست نے اس تبدیلی کو ممکن کردکھایا جسے ہم جمود میں رہتے ہوئے شناخت نہیں کر پا رہے تھے۔ یوں قائد تحریک الطا ف حسین کی شخصیت اور ایم کیو ایم تبدیلی کی علامت اور سرزمین پاکستان کے نظام پر قائم جمود کو توڑنے کا ذریعہ بنے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج پورے ملک میں عوامی نمائندوں کا احتساب ان کی کارکردگی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ گو کہ آج بھی موروثی نظام ، جاگیرداریت، وڈیرہ شاہی اور سرداریت بدستور قائم ہے، لیکن اس حقیقت میں دو رائے نہیں کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی محنت نے اس مضبوط نظام میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ اب یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ملک کو حقیقی جمہوری راستے پر ڈالنے کے لیے اپنی جدوجہد تیز کریں اور اگر ملک کے نظام اور جغرافیہ کے خلاف کوئی قوت اٹھتی ہے تو اس کے خلاف ہر ممکن طاقت کو استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہئے۔ اس کے لیے اگر فوج کو آگے آنا پڑے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
پاکستان میں ایم کیوا یم کے قائد الطاف حسین کی آواز ان ظالموں کے خلاف 2001ء میں ہی بلند ہو گئی تھی اور وہ مسلسل اس قوت کو پاکستان کی سا لمیت کے لیے خطرہ سمجھتے تھے اورمسلسل آگاہ کر رہے تھے لیکن پاکستان کے ناعاقبت اندیش سیاسی اکابرین اور حکمران ان کا تمسخر اڑاتے رہے لیکن وقت نے ثابت کیا کہ آج وہی عناصر ریاست پاکستان کی تباہی کے خواہاں ہیں۔ طاقت کے ذریعے وہ ریاست سے اپنے ناجائز مطالبات منوانے کے لیے کوشاں ہیں۔ نقصانات کے ازالے کے نام پر بھاری رقوم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ایک بار پھر یہ پیسہ ریاست پاکستان کے خلاف ہی استعمال ہوگا۔ اسی سلسلے میں ایم کیوا یم کے زیر اہتمام پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں صوفیائے کرام کانفرنس منعقد کی گئی جو اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب رہی۔ خاکم بدہن اگر مستقبل میں ملک کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو ایم کیو ایم اور الطا ف حسین بری الذمہ ہوں گے کیونکہ وہ ان خطرات سے مسلسل آگاہ کر رہے ہیں جو طالبان کی جانب سے پاکستان کو درپیش ہیں۔ ملک میں روشن خیال جمہوری نظام کے لیے سب کو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ تمام سیاسی جماعتیں ایک صف میں کھڑی ہو کر ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا بیڑہ اٹھائیں تو اس کے بعد ہی ممکن ہو گا کہ افواج پاکستان وطن عزیز کے جغرافیے کے تحفظ کا فریضہ حوصلے سے سرانجام دیں سکیں۔ انہیں یقین ہوگا کہ قوم ان کی پشت پر ہے۔ یہ اس سیاسی جماعت کی تاریخ اور کارکردگی ہے جس کے منتخب نمائندوں نے کراچی، حیدر آباد، میر پور خاص، نواب شاہ اور سکھر میں بلدیاتی نظام کے ذریعے ایسی مثالیں قائم کیں جنہیں دیکھ کر ملک کے دیگر حصوں کے عوام نے بھی اپنے منتخب سیاسی نمائندوں سے نہ صرف سوال کیے بلکہ ان کا احتساب بھی کارکردگی کی بنیاد پر کیا۔الطاف حسین کے نظریے کی سچائی اور کامیابی یہ ہے کہ اب جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ، وڈیرانہ نظام کے خلاف آواز بلند ہو رہی ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ اس نظام کے خونی پنجوں نے ملک کو اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے اور اسی سبب 16 دسمبر 1971ء کو وطن عزیز دو لخت ہو گیا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بانیان ِ پاکستان بالخصوص قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات اور تصورات کے مطابق پاکستان کی تشکیل نو کریں اور ان تحفظات کو ختم کریں جو پاکستانی قوم کی تشکیل کی راہ میں حائل ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے معاشی وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت جو معاملات صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں، وہ اختیارات خواہ وہ مالی ہوں یا انتظامی، اسی جذبے کے ساتھ ضلع اور ڈویژنوںکو منتقل کیے جائیں تاکہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کیے جائیں۔ ماضی کی طرح آج بھی قائد الطاف حسین اور ایم کیو ایم تنقید کی زد پر ہیں۔ یاد رہنا چاہیے کہ گزشتہ 35برسوں میں جتنی تنقید ایم کیو ایم اور جناب الطاف حسین پر کی گئی، اس کی نظیر نہیں ملتی لیکن وقت نے ہر تنقید اور الزام کو بے بنیاد اور جھوٹا ثابت کر دیا ۔ اس مشکل ترین دور میں بھی ایم کیو ایم کے کارکنان اپنے قائد جناب الطاف حسین کی قیادت میں نہ صر ف متحد ہیں بلکہ ان کا یہ عزم صمیم ہے کہ وہ ان کی قیادت میں منزل پر ضرور پہنچیں گے اور ملک سے جبر کا نظام ختم کرکے انصاف کا نظام قائم کریں گے۔وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائیں گے۔ عوام کو ان کے حقوق دلا کر با اختیار بنائیں گے۔ آج کا دن تجدید عہد کا دن بھی ہے۔ اس عہد کی تجدید کا دن جسے ہم نے تحریک میں شمولیت کے وقت اختیار کیا۔ آج کا دن ہم کارکنوں کے لیے انفرادی احتساب کا دن بھی ہے کہ آیا ہم اپنے فرائض منصبی احساسِ ذمہ داری کے ساتھ انجام دے رہے ہیں یا نہیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ پاکستان میں رائج جمود جو اب شکستہ ہورہا ہے، وہ ختم ہوگا اور وطن عزیز اس عظیم ریاست کی شکل اختیار کرے گا جس کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے عظیم جدوجہد کی۔ لاکھوں جانوں کا نذرانہ دیا اور تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت بھی اسی تقسیم کی بنیاد پر برپا ہوئی۔ ہم سب مل کر نہ صرف ان قربانیوں کا تحفظ کریں گے بلکہ قیام پاکستان کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں گے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں