گہوارئہ علم کے نگہبان

ترقی یافتہ اقوام کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو طلبہ نے اس قوم کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا لیکن اس کے برعکس پاکستان میں قیادت تعلیمی میدانوں سے آنے کے بجائے مراعات یافتہ طبقے کے گھر سے زبردستی برآمد کی گئی۔ باپ وزیر اعظم تھا تو بیٹے کا وزیر اعظم بننا حق ٹھہرا۔ کہیں باپ وزیر اعظم ہے تو بھائی وزیراعلیٰ اور دیگر خاندان کے افراد بھی اقتدار پر براجمان کرنے کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں۔ یہ سلسلہ پاکستان کے حکمران طبقے کے ایک یا دو خاندانوں سے جڑا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ بیشتر خاندانوں کی میراث ہے کہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ قیادت ان کے گھر میں رہے اور یوں قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان میں موروثی قیادت موجود ہے جبکہ طلبہ تنظیمیں جو بنیادی طور پر تربیت یافتہ افرادی قوت فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ ہوتی ہے، اسے محدود رکھا گیا۔ اسے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ نوجوانی میں جوش و جذبات عروج پر ہوتے ہیں اور انہیں استعمال کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے اس طاقت کو اپنے اقتدا رکو دوام دینے کے لیے استعمال کیا اور وہ حقیقی کردار ادا کرنے سے انہیں دور رکھا جو بنیادی طور پر ملک کے نوجوان طلبہ و طالبات کا ہوتا ہے۔ اس پر آشوب دور میں آج سے 36برس قبل ایک نظرئیے نے اس سوچ اور جمود کے خاتمے کے لیے ایک وسیع نظرئیے کی بنیاد پر ایک طلبہ تنظیم کی بنیاد ڈالی ۔ اسے بھی اسی موروثی 
سیاست کا سامنا کرنا پڑا اوریہ طبقہ اسے مسلسل آڑے ہاتھوں لے رہا تھا۔ فروری 1981ء میں ہتھیار بند تنظیموں کے دہشت گردوں نے تعلیمی اداروں سے اس سوچ کو باہر نکالنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش بھی ان کے خلاف ثابت ہوئی اور جب انہیں جامعہ کراچی سے باہر نکالا گیا تو یہ کراچی ، سندھ اور پاکستان کے طول و عرض میں اس سوچ کو لے کر پھیل گئے اور سب سے پہلے انہی کی سیاسی دکان بند کی جنہوں نے انہیں جامعہ کراچی سے نکلنے پر مجبور کیا۔ 
آج 35سال کے بعد یہ نظریہ ، یہ سوچ اپنی عوامی حمایت اور مینڈیٹ کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سوچ ، نظرئیے اور قیادت نے پاکستان میں رائج فرسودہ نظام کے برعکس اقدامات کیے۔ اس نے بھائی، بہن، بیٹوں، بھتیجوں کے بجائے ان طلبہ و طالبات کو آگے بڑھایا جو ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے تھے اور انہی نوجوانوں کو ملک کے اعلیٰ ترین ایوانوں میں بھیج کر نئی روایت کو جنم دیا۔ اب کیونکہ یہ پاکستان میں رائج جاگیردارانہ، وڈیرانہ اور موروثی نظام کے خلاف ایک مؤثر جماعت بن گئی تھی، تو اس کا راستہ روکاگیا۔ کبھی سازشوں کے ذریعے، کبھی فوجی اور پولیس آپریشنز کے ذریعے ، لیکن قربانیوں کی
لازوال تاریخ رقم ہو گئی۔ اس سوچ کا راستہ نہیں روکا جاسکا جو بنیادی طور پر گہوارئہ علم سے برآمد ہوئی اور آج بھی وہ اس کی نگہبانی کے فرائض پوری تندہی سے انجام دے رہے ہیں۔ 
قائد تحریک الطاف حسین نے 11جون 1978ء کو اس طلبہ تنظیم کی بنیاد ڈالی جو آج اپنا 36واں یوم تاسیس منا رہی ہے جسے ہم APMSOکے نام سے جانتے ہیں۔ ان کا ہمیشہ یہ درس رہا ہے کہ علم کو اپنا ہتھیار بنائو۔ والدین اور اساتذہ کا احترام، ترقی کو اپنی منزل بناتے ہوئے آگے کی جانب بڑھو۔ انہوں نے اپنے ہر لیکچر، خطاب اور نشست میں طلبہ و طالبات کو بالخصوص مخاطب کرتے ہوئے یہ صلاح دی کہ نقل کے رجحان کو ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرو۔ علم کے ذریعے اپنی کردار سازی کرو ۔ اس کے برعکس پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتیں جو موروثیت کے سمندر میں غرق ہیں، وہ اس رجحان کے آگے بڑھنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ کیونکہ اگر پڑھی لکھی متوسط طبقے قیادت آگئی تو اسمبلیوں میں پاکستان کے 2فیصد مراعات یافتہ طبقے کی آمد اور ان کے خاندانی افراد کی نمائندگی کا راستہ بھی بند ہوجائے گا۔ یہ وہ جنگ ہے جو روزِ اوّل سے قائد تحریک الطاف حسین لڑ رہے ہیں۔ اس سفر میں ہزاروں کارکنان نے اپنی جانیں نچھاور کیں۔ اسیری، جلاوطنی ان کا مقدر بنا دی گئی۔ ا س کے باوجود جو پودا آج سے 36برس پہلے لگایا گیا تھا، آج ایک تناور اور سایہ دار درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے اور وہ پاکستان بھر کے حقوق سے محروم عوام کے لیے ایک امید کی کرن ہے اور وہ اس جدوجہد سے حوصلہ حاصل کرکے اپنے آپ کو بھی اس فرسودہ نظام کے خلاف صف آرا کرسکتے ہیں۔
آج کے اس مشکل ترین دور میں APMSOکے کارکنان کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں کہ وہ گہوارئہ علم کی حفاظت کی ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں کیونکہ بانی و قائد تحریک الطاف حسین نے اسی مقصد کے لیے یہ پلیٹ فارم عوام کو فراہم کیا ہے۔ اتنا وقت گزر جانے کے باوجود بھی اس تحریک کا حوصلہ جواں ہے اور مسلسل گرم خون کی فراہمی اس امر کی غماز ہے کہ یہ نظریہ اور سوچ بتدریج نئی نسل میں منتقل ہو رہی ہے۔ 25مئی 2014ء کو قائد تحریک الطاف حسین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے جو ملین مارچ تبت سینٹر سے مزارِ قائد اور اس کے اطراف کی سڑکوں پر منعقد کیا گیا، اس میں ان نوجوانوں کی تعداد ان کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے جو نوجوانوں کی ترجمانی کے دعویدار ہیں کیونکہ اس لاکھوں کے مجمعے میں نوجوانوں کی تعداد یہ فیصلہ سنا رہی تھی کہ نوجوانوں کا قائد کوئی نہیں صرف الطاف حسین ہے۔ نوجوانوں کا مستقبل الطاف حسین کی سوچ اور فکر کی کامیابی سے وابستہ ہے۔ اگر یہ فکر کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے تو ملک میں حکمرانی غریب اور متوسط طبقے کی ہوگی اور قیادت تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوگی۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب کارکنان APMSOاپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے علم کے زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کریں۔ معاشرتی برائیوں سے دور رہتے ہوئے انہیں معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کریں۔ نقل سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے آپ کو مستقبل کی قیادت کی نرسری بنائیں۔ اس کے لیے قائد تحریک الطاف حسین کی تعلیمات ہمارے لیے رہنما اصول بنتی ہے۔ آج کے اس تاریخی دن کے موقعے پر ہم تمام کارکنان کو اس عہد کی تجدید کرنا ہوگی کہ وہ تنظیم کے نظم و ضبط کی پابندی کرتے ہوئے اس مشن اور مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پوری کوششیں کریں گے جس کے لیے قائد تحریک نے اس عظیم جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں