"WKC" (space) message & send to 7575

کمرشلائزیشن اور شہر پر اس کے اثرات

چند دہائیاں قبل لاہور کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو پیش نظر رکھتے ہوئے محسوس کیا گیا کہ مخصوص کردہ کمرشل ایریاز شہر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ کمرشلائزیشن کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک مربوط‘ جامع پالیسی مرتب کی جائے۔ اس ضمن میں پہلی کمرشلائزیشن پالیسی مارچ 1993 میں محکمہ ہائوسنگ اینڈ فزیکل پلاننگ نے Notify کی۔ اس پالیسی کے تحت کمرشلائزیشن صرف ڈکلیئرڈ سڑکوں پر کی جا سکتی تھی۔ اس کے علاوہ پارکنگ کے لیے کم از کم سیٹ بیک ہمسایوں سے این او سی، فیس کی ادائیگی بحساب 25 فیصد آف مارکیٹ ریٹ وغیرہ جیسی شرائط شامل تھیں۔
اس پالیسی کے تحت ایل ڈی اے نے اپنے کنٹرولڈ ایریا میں ابتدائی طور پر 18 عدد سڑکوں کو کمرشل کرنے کے لیے ڈکلیئر کیا‘ جن کی تعداد میں ضرورت کے تحت اضافہ ہوتا گیا۔ اس پالیسی کے تحت شہر کی معاشی گروتھ ریٹ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا‘ اور لوگوں کو روزگار کے بے شمار مواقع فراہم ہوئے۔ لہٰذا بعد ازاں حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس پالیسی میں مزید آسانیاں پیدا کی جائیں۔ 2001 میں نئی کمرشلائزیشن پالیسی کو متعارف کروایا گیا جس میں فیس کو 25 فیصد سے 20 فیصد، فیس کی ادائیگی قسطوں میں، NOCs کی شرائط کا خاتمہ، ایجوکیشن، ہیلتھ اور Information Technology سکیٹرز کی حوصلہ افزائی اور مزید فروغ کے لیے آدھی فیس جیسی سہولیات فراہم کی گئیں۔ اس پالیسی کو بہت پزیرائی حاصل ہوئی اور شہر کی اقتصادی ترقی میں خاطر خواہ اضافے کے ساتھ ساتھ ریونیو جنریشن کے بھی مواقع پیدا ہوئے‘ جن کو شہر کی تعمیر و ترقی پر خرچ کیا جا سکتا تھا۔ ایک طرف اس کے شہر پر اچھے اثرات مرتب ہوئے تو دوسری طرف شہر کئی مسائل کا بھی شکار ہو گیا جن میں ٹریفک، پارکنگ، انفراسٹرکچر پر دبائو وغیرہ جیسے مسائل شامل ہیں۔ ان مسائل کے پیدا ہونے میں بلڈنگ ریگولیشن کا بھی عمل دخل ہے‘ کیونکہ پارکنگ اور سیٹ بیک کا جو فارمولا دیا گیا‘ وہ موقع پر ہونے والی پارکنگ کی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتا تھا‘ جس سے پارکنگ اور ٹریفک کے مسائل پیدا ہوئے اور شہر میں بنیادی ضرورتوں کا فقدان پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس مد میں حاصل شدہ رقم کو انفراسٹرکچر کی اپ گریڈیشن جیسے منصوبوں پر نہیں لگایا گیا بلکہ اس کا زیادہ حصہ غیر ترقیاتی کاموں میں خرچ کر دیا جاتا رہا۔ ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ نے 2007 میں ایل ڈی اے اور حکومت پنجاب کو حکم صادر فرمایا کہ اس پالیسی کو ایل ڈی اے ایکٹ کی روشنی میں مرتب کیا جائے ۔ کسی سڑک یا جگہ کا لینڈ یوز تبدیل کرنا ایل ڈی اے ایکٹ سے متصادم قرار دیاگیا۔ ایل ڈی اے ایکٹ کے تحت کسی جگہ یا سڑک کا لینڈ یوز تبدیل کرنے کیلئے منظور شدہ سکیم پلان کو ریوائز کرنا ضروری ہے اور اس کے لیے تمام قانونی تقاضوں‘ جو کسی بھی سکیم کی منظوری کیلئے درکار ہیں‘ کا پورا ہونا ضروری ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے احکامات کی روشنی میں اربن یونٹ گورنمنٹ آف پنجاب نے لینڈ یوز رولز 2009 تیار کیے‘ جس کے تحت سڑکوں کو ڈکلیئر کرنے کے بجائے سکیم ایریا کو مختلف زونز کی صورت میں رہائشی سے کمرشل اور انسٹی ٹیوشنل زونز میں تبدیل کرنا تجویز کیا گیا‘ جس کو Re-Classification Plan کا نام دیا گیا۔ ان رولز میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ کسی سکیم کا ری کلاسی فکیشن پلان بنائے جانے کے بعد اس ایریا کا ری ڈویلپمنٹ پلان (Re-development Plan) بھی بنانا ضروری ہے تاکہ کمرشلائزیشن کی وجہ سے جو بوجھ انفراسٹرکچر پر پڑتا ہے اس کو بھی Upgrade کیا جا سکے۔
ان رولز کے تحت سب سے پہلے گلبرگ سکیم کو پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر لیا گیا‘ اس کا ری کلاسی فکیشن پلان تیار کیا گیا اور اس کو لینڈ یوز تبدیل کرنے کے لیے کھول دیا گیا۔ مگر ان رولز کے سیکشن(21) کے تحت بنائے جانے والے ری ڈویلپمنٹ پلان کی تیاری اور اس پر عمل درآمد پر کوئی خاطر خواہ کام نہ ہوا‘ اور جوں جوں شہر میں کمرشل سرگرمیاں بڑھتی گئیں‘ موجود انفراسٹرکچر بھی شدید متاثر ہوتا گیا‘ جس کا اثر شہر کی ٹائون پلاننگ پر بھی پڑا۔ ان رولز کے تحت کمشنر لاہور کی سربراہی میں قائم ڈسٹرکٹ پلاننگ اینڈ ڈیزائن کمیٹی کمرشلائزیشن کے کیسز نمٹانے کی پابند تھی۔ اس کمیٹی نے ایل ڈی اے کی حدود میں پہلے سے ڈکلیئرڈ سڑکوں میں سے 46 سڑکوں پر کمرشلائزیشن کی اجازت دے دی اور 18 سڑکوں‘ جہاں پلاننگ کے نقطہ نظر سے مشکلات پیدا ہو سکتی تھی‘ کو منجمدکر دیا۔ علاوہ ازیں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے علاقے میں 147 سڑکوں پر اجازت دی اور 14 سڑکوں کو مزید کمرشلائزیشن کے لیے منجمد کر دیا گیا۔ اس طرح شہر میں گلبرگ سکیم کی حد تک ری کلاسی فکیشن پلان بنا دیا گیا جس کو ٹائون پلاننگ کے نقطہ نظر سے ڈویلپمنٹ پلان کی سپورٹ حاصل ہونی تھی مگر دوسری سکیموں اور علاقوں پر 2001 کی پالیسی کی طرز پر ڈکلیئرڈ سڑکوں پر کمرشلائزیشن کی اجازت دے دی گئی‘ جن کو ڈویلپمنٹ پلان کی سپورٹ حاصل نہ تھی‘ اس طرح شہر میں کمرشلائزیشن کے دو طریقہ کار نافذالعمل ہو گئے۔ بعد ازاںستمبر 2013 کے نوٹیفکیشن کے تحت پورا لاہور ڈویژن ایل ڈی اے کے کنٹرول میں دے دیا گیا‘ جس کے تحت پورے ڈویژن میں ہائوسنگ سکیمز اور کمرشلائزیشن کی منظوری ایل ڈی اے کے دائرہ اختیار میں کر دی گئیں اور ان کی منظوری کا طریقہ کار ایل ڈی اے لینڈ یوز رولز 2014 اور ایل ڈی اے پرائیویٹ ہائوسنگ سکیم رولز 2014 میں دے دیا گیا جو کہ ابھی تک نافذالعمل ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی ستمبر 2018 کے حکم نامے میں اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ مختلف سڑکوں پر کمرشلائزیشن کی اجازت بغیر کسی پلاننگ سپورٹ اور انفراسٹرکچر کی ڈویلپمنٹ کے دی جا رہی ہے‘ جس سے شہر کا ماسٹر پلان‘ تاریخی ورثہ اور شہری سہولیات متاثر ہو رہی ہیں۔ اس حکم نامے میں یہ بھی پوچھا گیا کہ انفراسٹرکچر کی بہتری اور پانی، سیوریج، گیس، بجلی اور سڑکوں کی دستیابی پر ابھی تک کتنی رقم خرچ کی گئی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حالیہ حکم کی روشنی میں مزید کسی سکیم میں کمرشلائزیشن کی اجازت دینے سے پہلے وہاں کے ری ڈویلپمنٹ پلان کی تیاری اور اس پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے‘ لیکن اس کا اطلاق نان ڈکلیئرڈ سڑکوں پر نہیں ہونا چاہیے جہاں پر تعلیمی ادارے یا ہسپتال بنانے مقصود ہوں‘ چونکہ یہ Permissible Use کی کیٹیگری میں آتے ہیں۔ اس لیے ان کی منظوری کے طریقہ کار میں آسانیاں پیدا کی جائیں تاکہ مفاد عامہ کے لیے بنائے جانے والے عوامی سہولیات کے منصوبے متاثر نہ ہوں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ جو رقم جس سکیم ایریا میں کمرشلائزیشن کی مد میں حاصل ہو‘ اس کا کم از کم 50 فیصد حصہ اسی علاقے کی انفراسٹرکچر کی بہتری‘ اور بقایا حصہ شہر کی ڈویلپمنٹ کے لیے خرچ ہونا چاہیے۔ اس کے لیے مخصوص اکائونٹ کھولا جانا چاہیے تاکہ یہ رقم کسی دوسری مد میں استعمال نہ ہو سکے۔ مستقبل میں اس امر کو بھی یقینی بنایا جائے کہ کسی سکیم اور سڑک پر کمرشلائزیشن کھولنے سے پہلے ری ڈویلپمنٹ پلان کے ذریعے کمرشل سیکٹر کی بنیادی سہولتوں مثلاً بجلی، پانی، گیس، سیوریج، پارکنگ اور سڑکیں وغیرہ فراہم کی جائیں اور اس سلسلے میں تمام متعلقہ محکموں سے پورے زون کے لیے این او سی حاصل کرنے چاہئیں‘ جو اس بات کی تصدیق کریں کہ کمرشل سرگرمیوں کے لیے ضروری سہولتیں میسر کر دی گئی ہیں۔ اس کے بعد کمرشل بلڈنگز کی تعمیر کے لیے انفرادی درخواستوں پر انوائرنمنٹ، ٹیپا، واسا وغیرہ کے محکموں سے انفرادی بلڈنگ کی تعمیر کے لیے این او سی حاصل کرنے کی شرائط کو ختم کر دیا جائے۔ اس سے شہر میں تعمیری سرگرمیوں میں تیزی آئے گی کیونکہ این او سی حاصل کرنے کے لیے رشوت کے ساتھ ساتھ بے جا وقت کا بھی زیاں ہوتا تھا۔ اس طرح یہ پالیسی شہر میں منفی اثرات مرتب کرنے کے بجائے شہر کی ترقی میں اہم رول ادا کر سکتی ہے۔ اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بہتر ہو گا کہ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ایل ڈی اے، ٹیپا، واسا، لیسکو، سوئی گیس، ٹیلیفون، لوکل گورنمنٹ، ٹریفک پولیس‘ محکمہ انوائرنمنٹ کے پروفیشنلز پر مشتمل ہو‘ جن کے پاس رولز میں دیئے گئے طریقہ کار کے مطابق ری کلاسی فکیشن اور ری ڈویلپمنٹ پلان تیار کرنے اور اس پر عمل درآمد کروانے کے اختیارات ہوں تاکہ شہر کی ٹائون پلاننگ کمرشلائزیشن کی وجہ سے متاثر نہ ہو اور جن شہری مسائل کی سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے حالیہ حکم میں نشاندہی کی ہے‘ ان کا بروقت سدِ باب کیا جا سکے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں