جناب وزیر اعظم نے پانچ سال میں 50 لاکھ گھر مہیا کرنے کا جو ہدف مقرر کیا ہے اس پر وفاقی اور صوبائی سطحوں پر کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں چھوٹے بڑے شہروں میں کم آمدنی والے لوگوں کے لئے گھر یا فلیٹ مہیا کرنے کے سلسلے میں دستیاب حکومتی زمین کا لینڈ بینک تیار کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بلند و بالا فلیٹس‘ بلڈنگز بنانے اور سکیموں میں 3 مرلہ اور 5 مرلہ کے پلاٹوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے بلڈنگ بائی لاز میں بھی ترمیم کی جا رہی ہے۔ ان ترامیم کے تحت ہائوسنگ سکیمز میں کم از کم 20 فی صد رقبہ پر چھوٹے پلاٹس اور فلیٹس بنانے کی پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ موجودہ سرکاری زمین پر مشتمل لینڈ بینک وزیر اعظم کی طرف سے دیا گیا ہدف پورا کرنے کے حوالے سے نا کافی ہو گا اس لئے پرائیویٹ انویسٹرز کے ساتھ بھی Joint Venture کے معاملات زیر غور ہیں تاکہ اس بڑے منصوبے میں پرائیویٹ سکیٹرز کی بھرپور شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ ہمارے موجودہ مالیاتی ادارے یعنی بینک، ایچ بی ایف سی وغیرہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اتنے بڑے عوامی منصوبے کو فنانس کر سکیں‘ لہٰذا ہائوسنگ کی مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے پرائیویٹ سکیٹر میں پاکستان ہائوسنگ فنانس کارپوریشنز کے نام سے مالیاتی ادارے بنانے کی اجازت دی جا رہی ہے‘ جو لوگوں کو بینکوں اور ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی طرز پر گھر بنانے کے لئے آسان اقساط پر قرضے مہیا کریں گے۔ یہ ادارے سٹیٹ بینک آف پاکستان اور سکیورٹی ایکس چینج آف پاکستان کے ساتھ با قاعدہ رجسٹرڈ ہوں گے‘ جن کو حکومتی سرپرستی حاصل ہو گی۔ ان تمام اقدامات کے باوجود حکومت کے لئے 5 سال میں پچاس لاکھ گھر بنانے یعنی 10 لاکھ گھر ہر سال مہیا کرنے کا ہدف حاصل کرنا ممکن نہ ہو گا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں بننے والی ہائوسنگ سکیمز کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں۔
کوئی بھی پرائیویٹ ہائوسنگ سکیم بنانے کا سب سے مشکل مرحلہ زمین کو اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لئے کئی کئی سال درکار ہوتے ہیں۔ اگر کوئی عام ڈویلپر سکیم کے لئے کچھ زمین خریدنے میں کامیاب ہو جائے تو بھی سکیم کے لئے درکار مناسب رقبہ حاصل کرنے کے سلسلے میں اس کو بے شمار دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے‘ کیونکہ منسلک زمین کے مالکان سمجھ جاتے ہیں کہ اب زمین خریدنا ڈویلپر کی مجبوری ہے‘ لہٰذا وہ بلیک میل کرتے ہیں اور مارکیٹ سے بہت زیادہ قیمت مانگتے ہیں جس کو ادا کرنا ڈویلپر کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے سکیم کئی سالوں تک التوا کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ موقع پر زمین کے قبضے کا حصول اور مختلف سول عدالتوں سے جاری حکم امتناعی وغیرہ جیسے اہم معاملات شامل ہیں‘ جس کو حل کرنا کسی عام ڈویلپر کے بس کی بات نہیں ہوتی‘ لہٰذا اب ایسے لوگوں کے سامنے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں کہ یا تو وہ کسی بڑے گروپ کے ساتھ الحاق کریں جو بد معاشوں، انتظامی اقدامات یا پولیس کی مدد سے ان تمام معاملات کو حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں یا پھر وہ یہ زمین کسی بڑی شخصیت کو بیچ کر اس کام سے باہر نکل جائیں۔ ان مشکلات کی وجہ سے ہائوسنگ سکیمز کا کام صرف چند مخصوص گروپس تک محدود ہو کر رہ گیا ہے اور عام ڈویلپر اور انویسٹر اس کام میں ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں کرتا جس کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر ہائوسنگ سکیمز بنانے کے سلسلے میں حکومت کے ساتھ پوری طرح اپنا رول ادا نہیں کر پا رہا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کے اس عظیم منصوبے کو کچھ مخصوص لوگوں کے ہاتھوں سے نکال کر عام انویسٹرز کو بھی اس عمل کا حصہ کیسے بنایا جا سکتا ہے‘ جو کسی بڑے گروپ کے ساتھ شراکت اور بڑی شخصیت کی مدد کے بغیر ہائوسنگ سکیم بنا سکیں۔ اس کا بہتریں حل یہ ہے کہ کسی شہر کے ماسٹر پلان میں متعین کردہ برائون ایریا کو‘ جہاں ہائوسنگ سکیمز بنانے کی اجازت ہو‘ حکومت مختلف سائز کے رقبوں میں تقسیم کر کے ان کو ہائوسنگ سکیم بنانے کے لئے اوپن آکشن کے ذریعے Highest Bidder کو فروخت کر دے۔ اس وصول شدہ آکشن کی رقم سے 10-15 فی صد محکمانہ اخراجات رکھ کر بقایا حاصل شدہ رقم کو زمین مالکان میں تقسیم کر دیا جائے۔ چونکہ یہ رقم حقیقی مارکیٹ ویلیو کے مطابق ہو گی‘ اس لئے زمین مالکان کو یہ رقم وصول کرنے میں کوئی اعتراض نہ ہو گا‘ اور وہ بخوشی بغیر کسی قانونی پیچیدگیوں کے زمین محکمہ کے حوالے کر دیں گے۔ جبکہ موجودہ پالیسی کے تحت مالکان کو دی جانے والی زمین کی قیمت ڈسٹرکٹ کلکٹر کے نوٹی فکیشن کے مطابق بہت کم ہوتی ہے اور وہ زمینی حقائق سے مطابقت بھی نہیں رکھتی‘ جس کی وجہ سے لوگ عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کر لیتے ہیں اور ہائوسنگ سکیمز کی تکمیل التوا کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہ مسئلہ صرف پرائیویٹ ہائوسنگ سکیمز تک ہی محدود نہیں بلکہ حکومتی سطح پر بنائی جانے والی ہائوسنگ سکیمز میں بھی زمین کا معاوضہ مارکیٹ کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے زمین کے مالکان کو قابل قبول نہیں ہوتا‘ جس کی وجہ سے وہ سول عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کر لیتے ہیں۔ اگر لاہور کی مثال لی جائے تو تقر یباً 18 سال قبل ایل ڈی اے ایونیو ون کے نام سے ہائوسنگ سکیم شروع کی گئی تھی مگر زمین کا معاوضہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے مالکان کو قابل قبول نہ تھا جس کی وجہ سے لوگ عدالتوں میں چلے گئے اور یہ سکیم ابھی تک مکمل نہیں ہو سکی ہے۔ آکشن کے بعد زمین پلاٹوں کی ٹرانسفر کی طرز پر نئے مالکان کے نام ٹرانسفر کر دی جائے‘ تو حکومت کو کروڑوں روپے کی ٹرانسفر فیس بھی ملے گی۔ زمین کی قیمت وصول کرنے کے بعد محکمہ اس زمین کا موقع پر قبضہ نئے مالکان کو دینے کا پابند ہو گا اور کسی بھی نوعیت کی قانونی پیچیدگی یا کوئی مسئلہ پیدا ہونے کی صورت میں محکمہ اس کو حل کرنے کا پابند ہو گا۔ اس طرح ڈویلپر/ انویسٹر بغیر کسی کی سیاسی سرپرستی کے ہائوسنگ سکیم بنا کر ہائوسنگ کی مشکلات کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہ رقبہ چونکہ تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد ماسٹر پلان کی روشنی میں آکشن کیا جائے گا‘ اس لئے بہتر ہے کہ پلاننگ پرمیشن کی شرط کو بھی ختم کر دیا جائے‘ جس کو حاصل کرنے کے لئے کئی ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے تاکہ سکیم کی منظوری کم سے کم عرصے میں ہو سکے۔ زمین کی منتقلی کے بعد سکیم کا نقشہ جمع کروانے کی صورت میں متعلقہ محکمہ تمام قانونی تقاضے پورے ہونے کی صورت میں ایک ماہ کے اندر اندر سکیم پلان کو منظور کرنے کا پابند ہو تاکہ ڈویلپر جلد از جلد اپنی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھا سکے۔ اس نئے طریقہ کار سے اپنے ملکیتی رقبے سے زائد پلاٹ/ فائل بیچنے کا رجحان بھی ختم ہو جائے گا‘ جس سے لوگوں کی سرمایہ کاری کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے اور ان کا ہائوسنگ سیکٹر پر اعتماد بحال ہو سکے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ شہر کو مختلف لینڈ یوز زونز میں تقسیم کر کے اسلام آباد کی طرز پر مختلف سیکٹرز کی شکل دی جا سکتی ہے تاکہ شہر کا پھیلائو پلاننگ کے ساتھ منظم انداز میں ہو سکے۔ ڈویلپر اس رقبے کی پلاننگ کرتے وقت اس امر کو یقینی بنائے گا کہ وہ ماسٹر پلان کے مطابق قانونی تقاضوں اور سٹرکچر پلان میں دیئے گئے روڈ نیٹ ورک پر عمل درآمد کرنے کا پابند رہے۔ اگر حکومت اس پالیسی کو پورے پاکستان میں نافذالعمل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس سے ہائوسنگ کے شعبے کو فروغ ملے گا اور کروڑوں ڈالرز کی ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری ممکن ہو سکے گی‘ جبکہ موجودہ سسٹم میں عام انویسٹر ان پیچیدگیوں سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ان لوگوں کی شمولیت سے وزیر اعظم کا 50 لاکھ گھروں کا ہدف بھی حاصل کرنے میں مدد ملے گی‘ اور اس سے منسلک انڈسٹری بھی ترقی کی طرف گامزن ہو گی‘ جس سے ملک کے معاشی گروتھ ریٹ میں اضافہ ہو گا اور ملازمتوں کے بے شمار مواقع پیدا ہوں گے۔