اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹوری (ICT) کا رقبہ 2,25,000 ایکڑ پر مشتمل ہے اور اسے زوننگ ریگولیشن 1992ء کے تحت 5 زونز میں تقسیم ہے‘ جبکہ زون I سیکٹورل زون کہلاتا ہے جو 56 سیکٹرز پر مشتمل ہے اور کشمیر ہائی وے کے دونوں اطراف واقع ہے۔ سی ڈی اے زوننگ ریگولیشن کے مطابق اس تمام رقبہ کو ایکوائر کرکے منظور شدہ ماسٹر اور سیکٹورل پلان کے تحت منظم انداز میں لینڈ یوز پلان کے مطابق ڈویلپ کرنا مقصود تھا اور قانون کے تحت اس ایریا میں پراپرٹی کی خریدوفروخت، لینڈ یوز کی تبدیلی، تعمیرات اور ہائوسنگ سکیم وغیرہ کی اجازت نہیں ہے۔ مگر تقریباً 60 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک 70 ہزار ایکڑ زمین ایکوائر کی جا سکی ہے جبکہ بقایا 1,55,000 ایکڑ رقبہ ابھی تک پرائیویٹ لوگوں کی ملکیت اور قبضے میں ہے۔ ان سیکٹرز میں G اور H سیریز کے سیکٹرز کشمیر ہائی وے‘ جس کی چوڑائی1200 فٹ ہے‘ پر واقع ہیں۔ اسلام آباد ماسٹر پلان کے مطابق 600 فٹ کے کشادہ ایونیو اور خیابان ہر سیکٹر کے چاروں اطراف میں دیئے گئے ہیں اور مرکز کے ارد گرد 150 فٹ چوڑی سڑکیں دی گئی ہیں‘ مگر جامع منصوبہ بندی اور مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے سی ڈی اے ابھی تک 11ویں سیریز تک کی زمین ایکوائر کرکے پلان اور ڈویلپ کر سکا ہے جبکہ اس سے اگلے سیکٹرز کا ابھی تک ایکوائر اور قبضہ حاصل نہیںکیا جا سکا‘ جبکہ سیکٹر G/12 اور F/12 کا ایوارڈ جاری ہونے کے باوجود بھی پچھلے 36 سال سے اس زمین کا قبصہ حاصل نہیں کیا جا سکا‘ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ زمین ایکوائر کرنے کے عوض جو معاوضہ مالکان کو دیا جاتا ہے‘ وہ مارکیٹ ویلیو سے بہت کم ہونے کی وجہ سے زمین مالکان کے لئے قابل قبول نہیں ہوتا اور وہ مختلف عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے قبضہ حاصل کرنے کا معاملہ کھٹائی میں پڑ جاتا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر ان دونوں سیکٹرز کے زمین مالکان نے بھی سی ڈی اے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ 2004ء میں ہائی کورٹ نے اس کیس کو مناسب فیصلے کے لئے سی ڈی اے کو بھجوایا مگر کئی سال گزرے کے باوجود اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا‘ جبکہ موقع پر غیر قانونی تعمیرات تیزی سے جاری ہیں۔ یہی حال دوسرے سیکٹرزE/14, D/16, D/15, D/14 اور E/15 H/13 تا H/17 کا ہے جن کی زمین کو بھی ابھی تک ایکوائر ہی نہیں کیا جا سکا‘ جس کی وجہ سے ہائی وے پر واقع H سیریز کے سیکٹرز ماسٹر پلان کے مطابق گرین بفر زون اور انسٹیٹیوشنل (Institutional) مقاصد کے لئے مخصوص کیے گئے تھے‘ مگر زمین مالکان نے ماسٹر پلان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلند و بالا اپارٹمنٹ‘ بلڈنگز وغیرہ تعمیر کر لی ہیں اور اس کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ ان غیر قانونی تعمیرات نے سیکٹرز میں مختص کردہ 600 فٹ اور 150 فٹ چوڑی سڑکوں کو بھی انکروچ کر لیا ہے‘ جس کی وجہ سے ماسٹر پلان کی افادیت اور اس کی اتھارٹی بھی وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی جا رہی ہے‘ جو ٹریفک کے نظام اور شہری سہولیات کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔ اس طرح خوبصورت اور منصوبہ بندی کے ساتھ بننے والے اسلام آباد کے ساتھ ساتھ شہر کا ایک بڑا حصہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے ڈویلپ ہونے کی وجہ سے Slum میں تبدیل ہو رہا ہے۔ ان سیکٹرز میں یہ غیر قانونی تعمیرات تقریباً 30 تا 50 فیصد رقبہ پر پھیل چکی ہیں۔ اس ایریا کی ایکوزیشن نہ ہونے کی وجہ سے ریونیو ریکارڈ میں زمین کی ملکیت ابھی تک پرائیویٹ لوگوں کے نام ہے‘ جس کی وجہ سے وہ عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کر لیتے اور اس کی آڑ میں اپنی تعمیرات کو مکمل کر لیتے ہیں۔ اسی طرح H/16 کی زمین 2008ء میں 8 لاکھ روپے کے حساب سے ایکوائر کر لی گئی تھی‘ مگر زمین کی قیمت مالکوں کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے ابھی تک پوری زمین کا قبضہ حاصل نہیں کیا جا سکا جس کی وجہ سے اس اہم سیکٹر کی ڈویلپمنٹ کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔
سی ڈی اے انتظامیہ کو اس اہم مسئلہ پر فوری توجہ دینی چاہیے اور شہر کو مزید تباہی سے بچانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر ایکشن پلان تیار کرنا چاہیے۔ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ سی ڈی اے کے پاس اتنے مالی وسائل نہیں کہ وہ فوری طور پر ان تمام سیکٹرز کی زمین کو ایکوائر کرے۔ اس لئے بہتر ہو گا پہلے فیز میں ان سیکٹرز میں واقع روڈ نیٹ ورک کیلئے مخصوص 600 فٹ اور 150 فٹ چوڑی سڑکوںکے لئے مالکان کو معاوضہ ادا کیا جائے‘ اس زمین کو ایکوائر کرکے قبصہ حاصل کر لے تاکہ ماسٹر پلان کے بنیادی ڈھانچے اور ٹریفک کے نظام کو مزید مفلوج ہونے سے بچایا جا سکے۔ ان غیر قانونی تعمیرات کی اس روڈ نیٹ ورک پر موجودگی کی صورت میں ان کو ہر حالت میں گرایا جائے گا۔ ان معاملات کے لئے ایک سپیشل لیگل ٹیم تشکیل دی جائے جو مختلف عدالتوں سے جاری حکم امتناعی کو خارج کروانے کے لئے سی ڈی اے کی معاونت کرے‘ جبکہ فیزII میں سیکٹورل پلان میں دیئے گئے رہائشی علاقہ کا کچھ حصہ اوپن آکشن کے ذریعے پرائیویٹ سیکٹر کو بیچ کر حاصل شدہ رقم زمین مالکان کو بطور معاوضہ ادا کر دی جائے جو مناسب اور مارکیٹ ریٹ سے بھی مطابقت رکھتی ہو‘ جسے مالکان خوشی سے قبول کر لیں اور بغیر قانونی پیچیدگیوں کے زمین کو سی ڈی اے کے حوالے کر دیں۔ اس طرح محکمہ کو زمین کی قیمت ادا کرنے کے لئے اپنے مالی وسائل کی ضرورت نہیں ہو گی اور شہر کا پھیلائو ایک منظم اور پلاننگ کے ساتھ ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ کمرشل، پبلک بلڈنگز اور بقایا رہائشی پلاٹوں کی فروخت سے سی ڈی اے کے انتظامی اخراجات پورے کرنے کے ساتھ ساتھ شہر کی ڈویلپمنٹ کرنے کے لئے بھی فنڈز میسر ہوں گے جن کو عوام کی فلاح و بہبود اور 50 لاکھ گھروں کے منصوبوں پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح ماضی میں ماسٹر پلان میں مخصوص کردہ مشرق اور جنوب میں واقع اسلام آباد پارک اور اس سے منسلک دیہی رقبہ کو زون 4 اور 5 کا نام دے دیا گیا جبکہ زون 4 کو مزید چار سب زونز A, B, C, D میں تقسیم کر دیا گیا۔ ان دونوں زونز میں ہائوسنگ سکیمز اور تعمیرات کی اجازت دے دی گئی ہے۔ مگر اجازت دینے سے قبل ان دونوں زونز کا کوئی ڈویلپمنٹ‘ انفراسٹرکچر اور روڈ نیٹ ورک پلان نہیں بنایا گیا‘ جس کی وجہ سے اس وسیع رقبے پر ہائوسنگ سکیمز اور دوسری تعمیرات بغیر کسی پلاننگ کے بے ہنگم انداز میں تیزی سے بنتی جا رہیں جس کی وجہ سے یہ علاقہ بھی Slums میں تبدیل ہو رہا ہے۔ اس لئے مناسب ہو گا کہ اس ایریا کے فوری طور پر ڈویلپمنٹ اور لینڈ یوز پلان تیار کیے جائیں اور کسی بھی ہائوسنگ سکیم/ تعمیرات کی اجازت اس کی روشنی میں دی جائے۔ جب تک ڈویلپمنٹ پلان کی تیاری اور منظوری نہیں ہو جاتی اس وقت تک اس علاقے میں کسی بھی ہائوسنگ سکیم اور تعمیرات پر پابندی عائد کر دی جائے۔ اس منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے شہر دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے‘ جس کی وجہ سے ڈویلپڈ سیکٹورل ایریا اور ان زونز میں زمین کی قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہو گیا ہے۔ اگر وقت پر منصوبہ بندی کر لی ہوتی تو آج شہر کا یہ حصہ بھی اسلام آبادکے سیکٹورل ایریا کی طرح ہوتا جس میں زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں میسر ہوتیں اور پلاٹوں کی آکشن سے سی ڈی اے اربوں روپے کما کر ترقیاتی کاموں پر خرچ کر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ سی ڈی اے نے 2015ء میں پارک انکلیو فیزII کا بھی آغاز کیا اور پلاٹوں کی آکشن کرکے اربوں روپے وصول کیے۔ مگر بدقسمتی سے تقریباً 4 سال گزر جانے کے باوجود نہ تو اس زمین کا قبضہ حاصل کیا جا سکا اور نہ ہی ڈویلپمنٹ کا آغاز ہو سکا۔ اور لوگ اس انتظار میں ہیں کہ سی ڈی اے کب ان تمام معاملات کو حل کرکے پلاٹوں کا قبضہ ان کو د ے گا۔ جبکہ اسٹیٹ مافیا اس تاخیر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں سے پلاٹ اونے پونے خرید رہا ہے جس کی وجہ سے سی ڈی اے کا اعتماد عوام میں مجروح ہو رہا ہے۔ سی ڈی اے کی موجودہ انتظامیہ اس معاملے میں سنجیدگی سے غور کرے اور جلد از جلد فیزII کی ڈویلپمنٹ کا آغاز کرکے لوگوں کے اعتماد کو بحال کرے۔ حال ہی میں موجودہ حکومت نے 1960ء میں بننے والے ماسٹر پلان کو Review کرنے کیلئے کمیشن تشکیل دیا ہے جس کو ان تمام معاملات کو ہنگامی بنیادوں پر دیکھنا ہو گا تاکہ اسلام آباد شہر کو مزید تباہی سے بچایا جا سکے۔