طلوعِ پاکستان سے پہلے کا انڈیا ٹی ہائوس 1948ء میں سراج صاحب کو الاٹ ہوا تھا اور ٹی ہائوس کے نام سے پکارا گیا۔ تاہم حلقۂ ارباب ذوق کی مجلس عاملہ کے اجلاس، جو ہفتے میں دومرتبہ ہوا کرتے تھے، کی کارروائی کے شروع میں انڈیا ٹی ہائوس لکھتے لکھتے پہلی مرتبہ پاکستان ٹی ہائوس 28مئی 1950ء کی کارروائی میں لکھا گیا اور پھر اس کو پاک ٹی ہائوس کے نام سے یاد رکھا گیا۔ پاک ٹی ہائوس بین الاقوامی سطح پر بھی ادب اور ادیبوں کے مرکز کے طورپر اپنا تشخص قائم کرچکا تھا۔ ہرسطح کے لکھاری کے لیے یہ شوق اور اضطراب کا ایسا مرکزی دائرہ بن گیا کہ دنیا کے کسی بھی کونے سے لاہور وارد ہونے والا قلمکار اس میں ضرور جھانکتا ۔ اہلِ قلم سے ملاقات لازمی ہوجاتی۔ یہی پاک ٹی ہائوس کا امتیاز تھا۔ مگر یہ مرکز زوال پذیر ہوتا ہوا کومے میں چلا گیا اور پھر اس میں پرانے ٹائروں کو ڈھیر کردیا گیا۔ یہ ایک المناک صورتِ حال تھی جسے ہر صاحبِ دل ادیب نے دل پہ لیا۔ مگر کچھ دوستوں نے اس کے لیے سنجیدگی سے سوچا۔ اہل ِاقتدار کو متوجہ کیا۔ پنجاب حکومت کی کاوشیں جگانے میں لاہور آرٹس کونسل کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین عطا الحق قاسمی کی مساعی بھی قابلِ ستائش ہیں‘ لیکن پنجاب حکومت کے سنجیدہ اور عملی اقدامات سے 8مارچ 2013ء کو یہ مرحوم مرکز زندہ ہوگیا ہے۔ اس کی تزئین و آرائش پر لاکھوں خرچ کرکے لاہور کے نوادرات میں ایک اور اضافہ کرکے حکومت پنجاب نے بھی عزت کمائی اور نواز شریف نے اس کا افتتاح کرکے بھی چیدہ اور چنیدہ لوگوں سے مل کر ان کے ساتھ چائے پی اور مجھے تحیر میں چھوڑ کر رخصت ہوگئے۔ میں سوچتا ہوں‘ پاک ٹی ہائوس جن توانا آوازوں سے چہکتا اور جن کے لہجوں سے مہکتا تھا وہ سب کہاں ہیں؟ مترنم قہقہوں اور غنائی اشعار کا سحر کہاں گم ہے؟ پہلی میز پر حبیب جالبؔ کی ترنم ریزیاں اور احمد مشتاق کی چھیڑ خانیاں‘ ساتھ میں انجم رومانی المعروف استاد بریک‘ انتظار حسین، سجاد باقر رضوی، اور حلقے کے اجلاس کے خاتمے پر چندے کی چائے میں اعجاز حسین بٹالوی کی شگفتہ گفتگو۔ اس سے آگے عباس اطہر ، افتخار جالب اور عزیزالحق کی محفل‘ جس میں کبھی کبھی عارف امان بھی ہوتا تھا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا‘ کوئی نہ تھا۔ ایک میز پر محمد صفدر میر اور صلاح الدین محمود کسی نکتے پر الجھے ہوئے ہیں۔ سامنے‘ جہاں قائداعظم کی تصویر آویزاں تھی‘ اس کے بالکل نیچے سید اسرار زیدی گم صم بیٹھے ہیں۔ ان کے بالکل سامنے قتیل شفائی بیٹھے ہیں۔ شروع کی چھوٹی میز پر اصغر سلیم اکیلا بیٹھا ہے جس کی غزل کے بانکپن کو فیض صاحب بھی مانتے تھے ۔ اکیلے بیٹھے والوں میں احمد راہی نظر پڑا‘ نہ انیس ناگی، نہ ہی اشفاق احمد دکھائی دے رہے ہیں‘ نہ مظفر علی سید‘ نہ میرا جی‘ نہ قیوم نظر‘ نہ ناصر کاظمی‘ نہ منیر نیازی اور نہ ہی سہیل احمد خاں۔ حتیٰ کہ سلیم شاہد بھی نہیں، احمد بشیر بھی نہیں، یوسف کامران بھی نہیں۔ جاوید شاہین بھی نہیں اور امانت علی خاں بھی نہیں، موسیقار حسن لطیف ملک بھی نہیں‘ نہ ظہیر کاشمیری، نہ ہی شاکر علی صاحب آئے ہیں اور نہ ہی شکیب جلالی جو مجھے سب سے پہلے ٹی ہائوس میں اپنی مخصوص مسکراہٹ سمیت ملے تھے اور ایک ہی شعر سناکر مجھے لوٹ لیا تھا۔ تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ، مجھے ڈوبتا بھی دیکھ یہ سب غزل کی اٹھان والے، لہجوں کی کھنک اور ترنم کی مٹھاس سے گرمیِ بازار پیدا کرنے والے نابغہ لوگ کدھر چلے گئے ہیں؟ جنہیں دیکھنے کو نئی نسل کشاں کشاں ٹی ہائوس میں داخل ہوتی اور واپسی کا راستہ بھول جاتی۔ جن صورتوں سے ٹی ہائوس جگمگا تا اور جن آوازوں سے ہمہماتا اور لہو گرماتا تھا جو ٹی ہائوس کی زندگی اورزیورتھے جن کی ذات ہی پاک ٹی ہائوس تھی‘ جو نئے آنے والوں کی امید تھے‘ خوابوں سے جھولیاں بھر بھر لٹانے والے یہ سب کیا ہوئے؟ کہاں گئے؟ جو کچھ زندہ ہیں‘ وہ بھی گم ہوگئے۔ مصروفیت نے اور پھر دل نے بیٹھنے نہ دیا عمر بھر کہیں۔ رہ بھی راستہ بھول گئے۔ نذیر ناجی‘ ظفراقبال‘ لاہور میں ہونے کے باوجود اور احمد مشتاق امریکہ چلے جانے پر اوجھل ہوگئے۔ ان کی میزیں برسوں خالی تڑپتی رہیں۔ یہی لوگ وطن عزیز کے سنگھار کے لیے نئے سے نیا تجزیہ پیش کرتے تھے اور انہوں نے نئی نسل کی تہذیب کی ذمہ داری خود اٹھا رکھی تھی۔ لالچ تھا نہ ستائش کی تمنا… بس آنے والے اندیشوں سے آگاہی دوسروں تک پہنچانا ہی ان کا فخر تھا۔ سو پاک ٹی ہائوس ایک ایسا بیرومیٹر تھا جہاں آ کر دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جاتا۔گویا تمام مسائل اور اعراض کے لیے ٹی ہائوس کی نبض پہ ہاتھ رکھنا لازمی تھا۔ یہ گویا صبح سفر کا دروازہ تھا‘ ٹی ہائوس نہ تھا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ اس بستی میں آنے والے واپسی کا راستہ نہ پاتے تھے کہ فنون لطیفہ کی کوئی نہ کوئی آنچ ان کے لہو کو گرما دیتی تھی۔ بس آج سب کچھ ہے… ایک وہ ہی نہیں ہے… خوبصورت در و دیوار ہیں، حسین ماحول ہے، دلکش تصویریں ہیں… مگر وہ شجر سایہ دار جیسے، دکھائی نہیں دے رہے جن کے دم سے ٹی ہائوس لبالب رہتا تھا… رات بارہ بجے بعد تک کہ آخری بس، بقول انتظار حسین ایک بجے لکشمی چوک سے نکلتی تھی۔ ہر علاقے کے لیے الگ الگ۔ امن و امان ایسا کہ پیدل بھی جا سکتے تھے۔ بقول میر افقؔ سونا اچھالتے ہوئے… تب بھی کوئی نہ پوچھتا… نہ منہ سونگھتا۔ پاک ٹی ہائوس کے اندر کا حسن اپنی جگہ… باہر، بے امانی کا راج ہے… بے امانی کا خوف جینے نہیں دے رہا۔ لارنس گارڈن نو بجے بند کر دیا جاتا ہے جہاں ہم لوگ پہاڑی کی چوٹی پہ بیٹھ کر رات بارہ بجے کے بعد تک چاندنی راتوں میں سہگلؔ کی گائی غزلیں گایا کرتے تھے۔ ان بچھڑنے والے پیارے لوگوں کا بھی عجب دور تھا… محبت تھی، سکون تھا، قناعت بھی تھی، دھن تھی تو بس ایک کہ اگلا ادب پارہ، غزل، افسانہ، ڈرامہ… کس کے قلم سے نکلے گا اور کب حلقہ ارباب ذوق سے سند لے گا اور کیا کیا گل کھلائے گا۔ کلیجہ منہ کو آنے کی بڑی وجہ یہی ہے۔ مرحومین کی تقاریر کے درمیان میں بیٹھا آدمی ناسٹلجیا کا شکار نہ ہو تو کیا کرے؟ تاہم مجھے قوی امید ہے کوئی بڑی آواز، بڑا لہجہ، بڑا فنکار، آرٹسٹ، ڈرامہ نگار، شاعر اس صدی میں اگر برآمد ہوگا تو اسی آماجگاہ سے… اسی مرکز سے… جسے برسوں کی ریاضت کے بعد فروزاں کیا گیا ہے۔