والدِ محترم سیّد علمدار حسین گیلانی کی یاد میں!

ہر سال رمضان المبارک سے پہلے جب مَیں والدِ محترم سیّد علمدار حسین گیلانی کی یاد میں لکھنے بیٹھتا ہوں تو بہت سی باتیں ذہن میں آ جاتی ہیں۔ تو اس کے بعد یادوں کا ایک تسلسل ہوتا ہے جو ہر سال آپ کے سامنے لاتا ہوں۔ والد محترم 12؍دسمبر 1919ء بمطابق آٹھ محرم الحرام اپنے آبائی گھر واقع پاک دروازہ ملتان میں پیدا ہوئے۔ پیدائش کے وقت اُن کا نام سیّد ابوالحسن شاہ رکھا گیا۔ لیکن آٹھ محرم الحرام کی نسبت سے بعد میں علمدار حسین رکھ دیا گیا اور یہی نام معروف ہوا۔ والد نے ابتدائی تعلیم ملتان اور مظفرگڑھ میں حاصل کی کیونکہ دادا اُن دنوں سَب ڈویژنل مجسٹریٹ علی پور، مظفرگڑھ تعینات تھے۔ نوابزادہ نصراﷲ خان والد کے کلاس فیلو تھے۔ والد نے 1941ء میں ایمرسن کالج ملتان سے بی۔اے کا امتحان پاس کیا۔ وہ خاندان کے دوسرے فرد تھے جنہوں نے بی۔اے تک تعلیم حاصل کی۔
والد نے اپنے زمانۂ طالب علمی ہی سے سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا اور مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ جب وہ ایف۔اے کے طالب علم تھے تو انہوں نے اپنے بزرگ سیّد زین العابدین شاہ اور مسلم لیگ ضلع ملتان کے صدر چچا مخدوم غلام نبی شاہ کے ساتھ مل کر مسلم لیگ کے لیے کام کیا۔ایک مرتبہ پردادا پیر صدرالدین شاہ گیلانی 1946ء میں چچا سیّد رحمت حسین کی منگنی کے سلسلے میں مخدوم الملک سیّد غلام میراں شاہ گیلانی کے ہاں جمال الدین والی، ضلع رحیم یار خان گئے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو مخدوم الملک نے خواہش ظاہر کی کہ ان کی والدہ اور دو بیٹیوں سے بیعت لیں۔ اس طرح یہ خواتین پردادا کے ہاتھ پر بیعت ہوئیں اور بعد میں اُن کی بیٹیوں میں سے ایک کی شادی 1948ء میں میرے والد اور دوسری کی شادی اُسی روز چچا رحمت حسین سے ہوئی، یوں اُن کی یہ دونوں بیٹیاں میری والدہ اور خالہ بنیں۔ اُن کی تیسری بیٹی اُس وقت نو عمر تھیں۔ بعد میں اُن کی شادی پیر صاحب پگاڑو سے ہوئی۔ والدہ کو شادی کے بعد آبائی گھر واقع پاک دروازہ میں لایا گیا۔ بڑی پھوپھی (جو بڑی بی بی کے نام سے موسوم تھیں، زُہد و تقویٰ اور پرہیزگاری میں اتنی مشہور تھیں کہ ملتان میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس نے ان سے فیض نہ پایا ہو، ساتھ ہی وہ صاحبِ ثروت بھی تھیں) نے والد اور چچا رحمت حسین کو قائل کیا کہ آپ دونوں کی دُلہنیں بڑے گھرانوں سے ہیں اور انہوں نے محلات میں پرورش پائی ہے لہٰذا انہیں الجیلان روڈ پر واسع گھر 'الجیلان‘ لے جائیں اور وہیں رہائش پذیر ہوں۔ یہ گھر آدھ مربع رقبہ پر محیط پھوپھی کی اپنی ملکیت تھا۔ سو، والد اور چچا رحمت حسین اس گھر میں منتقل ہو گئے۔ تایا ولایت حسین پہلے ہی اُس گھر کے قریب رہائش پذیر تھے جو نئے ڈیزائن کے مطابق تعمیر ہوا تھا اور جس میں ایک تہہ خانہ تھا جو ان دنوں ایک جدت تھی۔
والد صاحب اس گھر 'الجیلان‘ کو خوش بختی اور ملتان کی سیاست کا محور سمجھتے تھے کہ اس گھر میں گورنر جنرل غلام محمد، خواجہ ناظم الدین، وزارئے اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر اور ملک فیروز خان نون کے علاوہ محترمہ فاطمہ جناح اور سردار عبدالرب نشتر اور راجہ غضنفر علی جیسی نامور شخصیات تشریف لا چکی تھیں۔ علاوہ ازیں پیر صاحب اجمیر شریف بھی اس گھر میں تشریف لا چکے تھے۔1951ء کے عام انتخابات میں والد کے نامزد اُمیدواروں کو مسلم لیگ کے ٹکٹ دیئے گئے۔ ان انتخابات کے سلسلے میں مسلم لیگ کا کنونشن ہمارے گھر 'الجیلان‘ ملتان میں ہوا جس کی صدارت وزیر اعظم پاکستان اور صدر مسلم لیگ نوابزادہ لیاقت علی خان نے کی۔ جلسے کے دوران وزیراعظم نے والد، تایا ولایت حسین اور چچا رحمت حسین کے ہاتھ تھام کر کہا:"They are the backbone of the Muslim League"ترجمہ: یہ مسلم لیگ کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔
والد صاحب نے اپنے بھائیوں کے ساتھ ملک کر 'انجمن اسلامیہ‘ ملتان کے بھرپور کام کیا۔ جس کے تحت ان کی زندگی ہی میں کئی سکولوں اور کالجوں کا قیام عمل میں آیا۔ انجمنِ اسلامیہ کی چند تعلیمی یادگاریں گیلانی لاء کالج، ولایت حسین اسلامیہ کالج، علمدار حسین کالج، غلام مصطفی شاہ گرلز کالج، شوکت حسین کے جی سکول، اسلامیہ ہائی سکول حرم گیٹ، اسلامیہ ہائی سکول عام خاص باغ، اسلامیہ ہائی سکول دولت گیٹ اور رضا شاہ پبلک سکول ہیں۔
مَیں نے ہمیشہ والد کو اپنے بھائیوں کے ہمراہ عیدمیلاد النبیؐ کے مرکزی جلوس، دس محرم الحرام اور ہر جمعرات کو دربار حضرت پیر پیراں موسیٰ پاک شہیدؒ پر حاضری دیتے دیکھا۔ وہ جمعرات کو بڑی ہمشیرہ کے پاس جاتے اور رات کا کھانا خاندان کے افراد کے ساتھ مل کر کھاتے، یہیں پر خاندان کے اکثر معاملات اور مسائل پر گفتگو ہوتی۔ یہ سلسلہ خاندان میں اتفاق قائم رکھنے کا موجب تھا۔والد محترم کو لاہور بہت پسند تھا۔ وہ جب بھی لاہور جاتے تو داتا دربار حاضری ضرور دیتے تھے۔ کبھی کبھار دربار میاں میرؒ پر بھی حاضری کے لیے جاتے تھے۔ کئی مرتبہ مَیں بھی ان کے ہمراہ گیا۔ وہاں پر میری ممانی رضیہ حسن محمود کا مزار بھی ہے۔ ممانی رشتہ میں فاروق لغاری کی پھوپھی اور سابق وفاقی وزیر بیگم عفیفہ ممدوٹ کی ہمشیرہ تھیں۔ مجھے زمانۂ طالب علمی ہی سے والد لاہور کے اپنے چیدہ احباب سے روشناس کرواتے رہے جن میں صاحبزادی محمودہ بیگم، ملک محمد اختر، چوہدری یوسف علی اور سیّد شبیر شاہ (ایم این اے میجر (ر) تنویر حسن سیّد کے والد) قابلِ ذکر ہیں۔
والد صاحب ہمیشہ تین رمضان المبارک کو اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کرتے اور کہتے کہ یہ بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے وصال کا دن ہے۔ اُس دن اپنے دوستوں کو مدعو کرتے اور اُن کی خوب تواضع کرتے تھے۔ زندگی بھر انہوں نے اس روایت کو نہایت محبت و شوق سے نبھایا۔ اتفاق ہے کہ وہ اسی دن یعنی تین رمضان المبارک مورخہ 9؍ اگست 1978ء کو نشتر ہسپتال، ملتان میں انتقال کر گئے۔ اِنّا لِلّٰہِ و اِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُون۔
والد باقاعدگی سے ڈائری لکھا کرتے تھے۔ اپنی وفات سے ایک روز قبل انہوں نے ڈائری میں احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر لکھا:
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات ہے دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
آج ان کو ہم سے بچھڑے 39 برس ہو گئے اور ان کے یومِ وفات پر مَیں انہی کی روایات پر عمل کرتے ہوئے 3 رمضان المبارک کو شہر کے دوستوں کو زحمت دیتا ہوں، ان کی افطاری کرواتا ہوں جس موقع پر اُن کے درجات کی بلندی کے لیے دُعا کی جاتی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں