"ZFC" (space) message & send to 7575

تیرے آزاد بندوں کی…

پچھلے سال سوشل میڈیا پر مجھے ایک سکھ لڑکی گور مہرکور کی ویڈیو دیکھنے کا موقع ملا۔ اس میں دیے گئے انوکھے اور دلچسپ پیغام نے چونکا دیا۔ لڑکی خوش شکل تھی اور نوجوان بھی مگر اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔ زبان سے کچھ کہے بغیر اس نے ایک طرف رکھے ہوئے پلے کارڈز کو باری باری دکھایا۔ بیان کی گئی کہانی کے مطابق اس کی عمر دو سال تھی جب کارگل کی جنگ کے دوران اس کے والد ہلاک ہوئے۔ والد کی محبت کے بغیر گزرے ہوئے بچپن میں وہ پاکستان اور دوسرے مسلمانوں کو اپنی یتیمی کا ذمہ دار ٹھہراتی تھی۔ چھ سال کی عمر میں اس نے ایک برقعہ پوش عورت کو دشمن گردانتے ہوئے چھری گھونپنے کی کوشش کی۔ اس کی والدہ نے سمجھایا کہ اس کے والد کی ہلاکت کا ذمہ دار پاکستان نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان لڑی جانے والی جنگ ہے۔ آخر میں اس لڑکی نے اپنے آپ کو ایک سپاہی کے طور پر پیش کیا جواب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن قائم کرنے کی جنگ لڑ رہی ہے۔ مجھے اس ویڈیو میں بیان کی گئی کہانی اور لڑکی کی شخصیت کے بارے میں شبہ ہی رہا۔ ممکن تھا کہ یہ ویڈیو صرف توجہ حاصل کرنے کے لیے بنائی گئی ہو۔
گور مہر کی دلچسپ کہانی چند مہینوں کے بعد دوبارہ میرے علم میں آئی لیکن اس دفعہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی میں طلباء تنظیموں کے درمیان ایک مستقل کشا کش کے حوالے سے کشمیر میں مستقل جاری رہنے والی ہڑتال اور مظاہروں کی بازگشت دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی پہنچی تو طلباء کے ایک سیمینار میں کچھ تقریروں کو ملک دشمنی پر محمول کیا گیا۔ طلباء میں ہنگامہ آرائی ہوئی۔ میڈیا نے بھی نوٹس لیا۔ حکمران جماعت بی جے پی بہت سیخ پا ہوئی۔ راشٹریہ 
سیوک سنگھ کی حمایت یافتہ طلبا تنظیم ABVPنے قومی نقطہ نظر کی ترجمانی کرتے ہوئے ہندوستان کے ایک جہازی سائز جھنڈے کو اٹھا کر ''ترنگا مارچ‘‘ کیا ۔انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ کسی طالب علم کو یہ حق نہیں دیا جائے گا کہ وہ یونیورسٹی میں ایسے نظریات کا اظہار کرے جو ان کے مطابق ہندوستان کے ''قومی مفاد‘‘ سے متصادم ہوں۔ اگلے روز یکم مارچ کو طلباء کی ان تنظیموں نے آزادی رائے کے حق میں ایک مارچ کا اہتمام کیا اس موقع پر دونوں فریقین کے درمیان تنائو بڑھ گیا۔ اسی روز مجھے سوشل میڈیا پر گور مہر کور‘ دوبارہ دکھائی دی۔ پتا چلا کہ یہ لڑکی بھی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طالبہ ہے اور RSSکی ذیلی طلبا تنظیم ABVPکو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ جس ویڈیو میں وہ دونوں متحارب ملکوں کے درمیان ان کی سپاہی بنی تھی اس پیغام کا ایک جملہ ہندوستان کے شدت پسند ذہنوں پر ہتھوڑے کی طرح لگا۔ اس نے کہا تھا، میرے والد کو پاکستان نے نہیں مارا بلکہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی جنگ کا شکار بنے۔اس جملے پر پھبتیاں کسی گئیں اور سوشل میڈیا پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے بلے باز وریندر سہواگ کی تصویر نظر آئی جس میں وہ بھی گور مہر کی طرح ایک پلے کارڈ اٹھائے ہوئے ہیں اور اس پلے کارڈ پر لکھا ہے کہ میں نے دو ٹرپل سنچریاں نہیں بنائیں بلکہ میرے بیٹ نے بنائی تھیں۔ سہواگ کی یہ تصویر میڈیا نے اچک لی اور گور مہر کا بے تحاشا مذاق اڑایا گیا۔ ہندوستان کے وزیر مملکت برائے امور داخلہ کرن راجی نے بیان دیا کہ کون ہے جو اس لڑکی کو گمراہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ شہید کی بیٹی سہی مگر پاکستان کو اپنے والد کی ہلاکت سے بری الذمہ قرار دینے پر اس کے والد بھی بے چین ہو کر اپنی قبر میں کروٹیں بدل رہے ہوں گے۔ اس مرحلے پر گور مہر کور کے دادا نے اپنی پوتی کے نقطہ نظر کی برسر عام حمایت کی۔ سوشل میڈیا پر رائے دینے والے لوگوں میں سے کچھ نے کرن راجی جیو کو یاد دلایا کہ اگر گور مہر گمراہ ہے تو اس کی ذمہ دار کوئی اور نہیں صرف اس کی ماں ہے جس نے اسے پاکستان اور مسلمانوں کے ساتھ نفرت کرنے سے روکا ۔اس نے ہی اپنی بیٹی کو بتایا تھا کہ اس کے یتیم ہونے کی ذمہ دار وہ جنگ ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان لڑی گئی۔
روشن خیال طلباء تنظیموں کے مارچ میں گور مہر کور نے بھی شرکت کرنا تھی اور ہندوستان کا سارا میڈیا اس مارچ کوفلمانے کے لیے بے تاب تھا۔ ایک دن پہلے گور مہر کور نے یونیورسٹی کے احاطے میں میڈیا کو مخاطب کر کے انکشاف کیا کہ اسے خوفزدہ کیا جا رہا ہے اور انتہا پسند طلباء تنظیم ABVPکے رکن اس سے زبردستی (Rape) کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اس دھمکی سے محسوس ہوا کہ ہندوستان میں انتہا پسندی کا اثرو رسوخ کتنا گہرا ہو چکا ہے۔ طلباء جن سے حصول علم کی نسبت روشن دماغی کی توقع ہے وہ بھی انتہا پسند مذہبی رجحانات کا شکار ہو کر اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتے۔
شام کے وقت گور مہر کور نے ایک اور ٹویٹ کی۔ اس نے دھمکیوں کے پیش نظر اس مارچ سے علیحدگی اختیار کر لی جس میں وہ ایک سٹار کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔ اس نے کہا کہ میرا بیس سالہ وجود اتنا ہی برداشت کر سکتا تھا۔
گور مہر کور نے سپر ڈال دی ۔وہ دہلی یونیورسٹی سے دور اپنی ماں کے پاس جالندھر اپنے گھر کی پناہ گاہ میں محفوظ ہو گئی۔ طلباء تنظیموں کے درمیان جاری کشا کش سے فرار شاید خیالات کی جنگ میں اس کی مستقل پسپائی نہ بنے۔ وہ دوبارہ میدان عمل میں آ جائے اور اپنے امن پسندخیالات کی ترویج کرے مگر حالیہ واقعات سے ثابت ہوا کہ گور مہر کور کی لڑائی بھی اپنے والد کی جنگ سے کم مشکل نہیں۔ ریاست کے مقبول عام ''رزمیہ بیانیے‘‘ سے ذہنی آزادی حاصل کرنا ایک جاں گسل مرحلہ ہوتا ہے، گور مہر کور کی کہانی میں بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔
صرف خیالات سے اختلاف کی بناء پر دلیل کا جواب دشنام سے دینا جائز نہیں، اشتعال کبھی بھی استدلال کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ اگر ہندوستان کے اپنے شہید فوجی کپتان کی بیٹی جنگ سے نفرت کرتے ہوئے امن کی داعی ہے تو اسے کم از کم یہ حق تو ہونا چاہیے کہ اس کی بات کو سنا جائے ''قومی سلامتی کے پاسبانوں‘‘ کا ظرف اگر چھوٹا ہو گا تو نئے نظریات کی نشو و نما ناممکن ہو جائے گی۔ ایک بیس سالہ نہتی لڑکی کو خاموش کرنے کے لیے آبروریزی کی دھمکی ایک خالصتاً حیوانی ردعمل ہے اور منہ بند کروانے کے لیے جسم کو رگیدنے کا عمل انسانیت کی روح سے بلادکاری کا مترادف۔ طلباء تنظیم کی طرف سے اس قسم کا جوابی عمل تب ہی اتنا سفاک ہو سکتا ہے جب انتہا پسندی کے رجحان میں مذہبی جنونیت بھی شامل ہو۔ طالب علم اگر روشن دماغ نہ رہے تو حصول علم کے راستے بند ہو جاتے ہیں اس کا ذہن تو ہر حال میں کھلا رہنا چاہیے۔ درسگاہوں میں تازہ افکار کا داخلہ ممنوع ہو جائے تو سوچ متعفن ہو جاتی ہے۔ ان حالات میں غنڈہ گردی پھلتی پھولتی ہے۔دہلی یونیورسٹی میں RSSکی ذیلی طلباء تنظیمABVPکی دھمکی کا ماخذ مذہبی تنگ نظری کے چشموں سے پھوٹتا ہوا قومی سلامتی کابیانیہ ہے۔ بد قسمتی سے اس طرز فکر پر دہلی یونیورسٹی کا اجارہ نہیں۔ اس باد سموم کے جھونکے کسی بھی درسگاہ میں تازہ افکار کی باد صبا کو برداشت نہیں کرتے۔
ہندوستان میں ''امن کی سپاہی‘‘ سے جوسلوک ہو رہا ہے وہ اس ملک کا مسئلہ ہے مگر امن کا سفید جھنڈا کسی بھی رزم گاہ میں بے رنگ نظر آتا ہے۔ جنونی سوچ کے لیے اس میں کوئی دلکشی نہیں۔ اس بارے میں سوچتے ہوئے بہت سے نئے خیال ذہن میں آئے ۔ ذرا سوچیے اگر گور مہر کور اپنا امن پیغام لیے پاکستان چلی آئے تو ہمارا ردعمل کیا ہو گا؟
خیالات کے سر پٹ دوڑتے ہوئے گھوڑے اپنی ٹاپوں کی آواز سے کئی دفعہ سوچ کی نئی دھنیں ترتیب دیتے ہیں مگر آج تو ذہن میں ہمارے قومی مفکر علامہ اقبال کا ایک مصرع ہی گونج رہا ہے ۔ نوع انسانی کا وہی پرانا المیہ ع 
تیرے آزاد بندوں کی...

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں