"ZFC" (space) message & send to 7575

سیاسی پارٹیاں اور پالیسی سازی

سرینا ہوٹل اسلام آباد کے ٹھنڈے، آرام دہ کمرے میں ایک طرف مسلم لیگ (ن) کے نمائندے تھے۔ اُن میں وفاقی وزیر احسن اقبال، وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، منسٹر فار سٹیٹ برائے ایجوکیشن بلیغ الرحمان، سینیٹرلیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم، سینیٹر پرویز رشید، ایم این اے محسن شاہنواز رانجھا، ایم این اے مہر اشتیاق احمد، ایم این اے دانیال عزیز، ایم این اے شزرہ منصب علی، اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر بیرسٹر ظفراللہ خان اور سپیشل اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر آصف کرمانی شامل تھے۔
دوسری طرف احمد بلال محبوب کے ساتھ پلڈاٹ کی ٹیم میں شاہد حامد سابق گورنر پنجاب، شاہد ملک سابق منسٹر حکومتِ برطانیہ، محمد صادق سابق سفیر اور راقم الحروف شامل تھے۔ اس نشست میں ''سیاسی پارٹیاں اور پالیسی سازی‘‘ کا اہم موضوع زیرِ غور تھا۔ جمہوری نظامِ حکومت میں ایسے قومی امُور بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اسی لیے پلڈاٹ نے ایک غیر ملکی ادارے کی معاونت سے پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ علیحدہ علیحدہ، مختلف دنوں میں اجلاس منعقد کیے۔ اِس سے پہلے نہ کبھی اِس طرح کی نشست کا اہتمام ہوا اور نہ اُس کی ضرورت محسوس کی گئی۔
جمہوریت میں نظام صدارتی ہو یا پارلیمانی، سیاسی پارٹیوں کی ضرورت لازم ہے۔ سیاسی جماعت انتخاب میں حصہ لیتی ہے۔ اُس کا اپنا ایک مخصوص سیاسی ایجنڈا یا پروگرام ہوتا ہے۔ جو لوگ اس پروگرام سے اتفاق کرتے ہیں وہ پارٹی کی رکنیت اختیار کرتے ہیں‘ یا اُس کے حمایتی بن جاتے ہیں۔ مرتب کردہ پروگرام عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اُس پروگرام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ الیکشن کے وقت پارٹی کے منشور کی تشہیر ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کی پالیسیوں پر تنقید کی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتیں پروگرام کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگتی ہیں۔ سیاسی اور غیر سیاسی تجزیہ کار میڈیا کے ذریعے ان پالیسیوں کی افادیت کا اندازہ لگاتے ہیں، تاکہ عوام یہ فیصلہ کر سکیں کہ کس جماعت کی پالیسی بہتر ہے۔ کون اُن کے دیئے ہوئے ٹیکس کی رقم صحیح استعمال کرے گا؟ کس پارٹی کی حکومت بنے تو عوام الناس کو فائدہ ہو گا اور ملک ترقی کرے گا۔
اجلاس کی غرض و غایت احمد بلال محبوب نے بیان کی۔ اُنہوں نے صورتِ حال کا تجزیہ کیا۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں نے پالیسی سازی کی صلاحیت بڑھانے کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ اِس اشد ضرورت کو نظر انداز کرنے کی وجوہ ہماری سیاسی تاریخ میں پوشیدہ ہیں۔ اُن کا کہنا تھا‘ وقت آ چکا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں نہ صرف اپنے پالیسی ساز ادارے بنائیں بلکہ ملک میں موجود دوسرے اداروں کی صلاحیت سے بھی استفادہ کریں۔ چونکہ یہ نشست مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ تھی، اس لیے اُن کے پروگرام اور پالیسی سازی کا عمل زیرِ بحث آیا۔ یہ تجزیہ شاہد حامد صاحب نے کیا۔ وہ 1964ء بیچ کے سی ایس پی آفیسر ہیں۔ نوکری سے مستعفی ہونے کے بعد، وکالت میں نام کمایا۔ بہت سمجھ دار اور زیرک انسان ہیں۔ 2013ء کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) نے جو منشور پیش کیا تھا، اُس کا بغور جائزہ لینے کے بعد، شاہد حامد صاحب نے مسلم لیگ (ن) کے تمام شرکاء کو علیحدہ علیحدہ ایک چارٹ پیش کیا۔ اِس گوشوارے میں ایک طرف 2013ء کے منشور میں کیے گئے وعدے درج تھے تو دوسری طرف خالی جگہ پر شرکاء محفل کو دعوت تھی کہ وہ عمل درآمد کا ازخود جائزہ لیں۔ کوشش تھی کہ سیاسی پارٹی کے عمائدین کو احساس دلایا جائے کہ منشور پر عمل درآمد کرنا انتخابی وعدہ تھا۔ الیکشن کے بعد اُسے بھلانا مناسب نہیں ہو گا بلکہ مستقل طور پر عمل درآمد کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔
شاہد ملک برطانیہ میں رکن پارلیمنٹ تھے۔ وزارتی عہدے پر بھی فائز رہے۔ وہ برطانوی نظامِ جمہوریت کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اُنہوں نے شرکائے محفل کو بتایا کہ برطانیہ کی تمام سیاسی پارٹیاں بہت منظم طریقے سے پالیسی سازی پر محنت کرتی ہیں۔ اگر حکومت میں ہوں تو اپنے پروگرام پر عمل درآمد کا باریک بینی سے جائزہ لیتی ہیں‘ اور اگر اپوزیشن میں ہوں تو حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرکے اُن کی کمزوریاں عوام کے سامنے لاتی ہیں۔ اُنہوں نے مسلم لیگ (ن) کے عمائدین کو ایسا ہی نظام پاکستان میں قائم کرنے کی یاددہانی کرائی۔ اِسی طرح سابق سفیر محمد صادق نے عالمانہ انداز میں پالیسی سازی کے خارجی پہلو اجاگر کیے۔ 
ایک سابق بیوروکریٹ کی حیثیت سے مجھے بھی گفتگو میں شرکت کا موقعہ ملا۔ پالیسی سازی کا جائزہ لینے کے لیے سیاسی پارٹیوں کی موجودہ صورت حال کا ماضی کے ساتھ موازنہ کیا گیا۔ پاکستان بننے کے بعد سیاسی جوڑ توڑ اور پارٹی سازی صرف حکومت حاصل کرنے کے لیے ہوتی رہی۔ منتخب نمائندوں کو حکومتی پارٹی میں شامل ہونے پر روٹ پرمٹ، درآمدی یا برآمدی کوٹہ اور اس قسم کی دوسری مراعات سے نوازا جاتا۔ اس طرح سیاست کو کسی پارٹی پروگرام، منشور یا پالیسی سازی سے علیحدہ کرکے سیاسی سرمایہ کاری کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ 
1947ء سے لے کر 1970ء تک ون مین ون ووٹ کے نظام کے تحت الیکشن نہ ہوئے۔ اِس دوران سیاسی پارٹیوں نے نہ اپنے منشور پر کوئی محنت کی، نہ پالیسی سازی کی طرف کوئی توجہ دی۔ یہ کام بیوروکریسی پر چھوڑ دیا گیا۔ 1970ء کے الیکشن میں پہلی دفعہ ہر پارٹی لیڈر کو موقعہ دیا گیا کہ وہ سرکاری ٹیلی وژن پر اپنا منشور پیش کرے۔ اِسے دلچسپی سے سنا گیا۔ اِس پر میڈیا میں بحث مباحثے ہوئے۔ بدقسمتی سے سیاسی پارٹیوں میں اس صلاحیت کا فقدان تھا کہ وہ اپنے منشور کی صورت میں کوئی جامع دستاویز پیش کرتیں۔ اِس ناتجربہ کاری کی وجہ شاید بار بار کی فوجی مداخلت تھی۔ اُس زمانے میں ہمارا الیکٹرانک میڈیا حکومت کے کنٹرول میں تھا اور پرنٹ میڈیا بھی پوری طرح آزاد نہیں رہا۔ الیکشن میں مربوط پالیسیوں کی بجائے خوشنما نعرے زیادہ استعمال ہوئے۔ بھٹو صاحب نے غریبوں کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی کا تصور پیش کیا۔ مگر اِس پروگرام کی نہ تو کوئی تفصیل تھی اور نہ ہی اُس پر عمل درآمد کے لیے کوئی لائحہ عمل۔ جب 1977ء کا الیکشن آیا تو بھٹو حکومت کی مخالفت میں پارٹیاں جمع ہو گئیں۔ اُنہوں نے بھی نظام مصطفی کا نعرہ استعمال کیا اور اپنے پروگرام اور پالیسی کی تفصیل دینا ضروری نہ سمجھا۔ اِن تمام پارٹیوں کے پاس کوئی مشترکہ پروگرام نہیں تھا، اگر وضع کرنے کی کوشش کی جاتی تو اختلافات پیدا ہوتے۔ مگر دوسری پارٹیوں نے پیپلز پارٹی کی مخالفت میں متبادل نعرہ ''روٹی، کپڑا اور مکان، سب کا ضامن ہے قرآن‘‘، ترتیب دیا۔ یہ کوشش ایک جامع پروگرام مرتب کرنے کی بجائے مذہب کی آڑ لینے کے مترادف تھی۔
آج سیاسی صورتِ حال مختلف ہے۔ بہت سی صحت مند تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ پارٹی بدلنے پر آئینی پابندی ہے۔ فوج کا مارشل لا لگانا ممکن تو ہے مگر نظریہ ضرورت کو سندِ جواز ملنا مشکل۔ میڈیا بھی اب ایک بالغ نظر نقاد بن چکا ہے۔ پہلی دفعہ پاکستان میں جمہوری حکومتیں اپنی مدتِ اقتدار مکمل کر رہی ہیں۔ امید رکھنی چاہیے کہ اب حکومت کی تبدیلی صرف ایک شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کے ذریعے ہی ممکن ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعت کے لیے پارٹی پروگرام، سیاسی منشور اور اس پر عمل درآمد وقت کے ساتھ اہم ہوتا جائے گا۔ آئندہ الیکشن میں خوشنما وعدوں اور جوشیلے نعروں کی بجائے پارٹیوں کی کارکردگی زیرِ بحث آئے گی۔ ہم سیاسی ارتقا کی ایک نئی منزل تک پہنچنے والے ہیں جب عوام الیکشن میں بہتر حکمرانی کی بنیاد پر حکومت کا انتخاب کریں گے۔
بات چیت کے دوران حکومتی نمائندوں نے اپنی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا‘ مگر خوشی کی بات تھی کہ پالیسی سازی کے مختلف پہلو اُن کے لیے دلچسپی کا باعث تھے۔ اُمید رکھنی چاہیے کہ پلڈاٹ کی اِس کوشش کے نتیجے میں سیاسی جماعت کے عمائدین پالیسی سازی کی صلاحیت بڑھانے کی طرف مزید توجہ دیں گے۔

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں