اُن دنوں میری تعیناتی سیالکوٹ میں تھی۔ عشرہ محرم کے حساس دنوں میں امن و امان قائم رکھنا ضلعی انتظامیہ کے لیے مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ کئی مہینے پہلے تیاری شروع ہوتی ہے۔ سنی اور شیعہ، رہنمائوں کے ساتھ الگ الگ اور مشترکہ ملاقاتیں اس عمل کا حصہ ہیں۔ ایک بزرگ شیعہ رہنما مجھے ملنے آئے۔ کئی دہائیاں پہلے اُن کے پاس ایک جلوس کا لائسنس تھا۔ اب اُس کے راستے میں نئی آبادیاں حائل ہو چکی تھیں۔ وہ چاہتے تھے کہ جلوس کا نیا راستہ طے ہو۔ دعویٰ کی تائید میں اُنہوں نے 1920ء کی دہائی کے کاغذات پیش کیے۔ میری نظریں ہاتھ سے لکھے، میونسپل کمیٹی کے تین فٹ لمبے اور دو فٹ چوڑے پوسٹر پر مرکوز ہو گئیں۔ اس بوسیدہ پوسٹر میں عشرہ محرم کے انتظام کا پورا حکم نامہ درج تھا۔ مختلف جلوس کہاں سے گزریں گے۔ سکھ، ہندو اور مسلمان، عزاداروں کے لیے کن مخصوص مقامات پر سبیل لگائیں گے۔ چھتوں پر صرف عورتیں اور بچے جائیں گے، مردوں پر پابندی ہو گی۔ پولیس کے جتھے کہاں تعینات ہوں گے۔ کون سے شفا خانے کھلے رہیں گے۔ اِن تمام تفصیلات کے علاوہ ایک حکم میرے لیے دلچسپی کا باعث بنا۔ لکھا تھا کہ نویں اور دسویں محرم کے روز، سیالکوٹ شہر کی میونسپل حدود میں، کنہیا لال، سٹی مجسٹریٹ کے علاوہ اور کوئی شخص گھوڑے پر سوار نہیں ہو گا۔ یہ حکم نامہ اِس لیے مختلف لگا کہ بطور ڈپٹی کمشنر مجھے اپنے احکامات کی عمل داری، کنہیا لال، سٹی مجسٹریٹ کے ستر سال پرانے حکم نامے کے سامنے بہت کمزور دکھائی دی۔
حکومتِ وقت پر منحصر ہے کہ وہ اپنے احکام کی کتنی عزت کرواتی ہے۔ ضیاء الحق کا زمانہ تھا۔ بعض دینی رہنما قانون سے بالاتر تھے۔ لائوڈ سپیکر پر اذان اور خطبے کے علاوہ پابندی تھی‘ مگر انتظامیہ کی مجال نہیں تھی کہ لائوڈ سپیکروں کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے۔ محرم کے زمانے میں ایک مذہبی جماعت کے لوگ فعال ہوتے تو مخالف فرقے کے عمائدین بھی ضلعی انتظامیہ پر بوجھ بن جاتے۔ ہر بات انا کا مسئلہ بنتی۔ مجسٹریٹ اور اسسٹنٹ کمشنر ہر وقت اُن کے درمیان اختلافات حل کروانے کے لیے کوشاں رہتے۔ کبھی کسی سے درخواست اور کبھی کسی کی منت۔ حکومت کے نزدیک انتظامیہ کا یہی چلن مناسب تھا۔
اہلِ علم جانتے ہیں کہ انگریز نے سو سال کی محنتِ شاقہ کے بعد اپنی انتظامیہ کو مؤثر بنایا۔آہستہ آہستہ قانون پر عمل کرنا لوگوں کی عادت بن گئی۔ آزادی کے بعد بھی اثر باقی رہا۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں لوگ سائیکل پر ڈبل سواری نہیں کرتے تھے اور رات کے وقت اگر ڈائینمو خراب ہونے سے سامنے کی بتی نہ جلتی تو سائیکل سڑک پر نہ آتی۔ قانون کے احترام کی عادت ہم نے آہستہ آہستہ ختم کی۔ اب حکومت کی رٹ مستقل طور پر کمزور ہو چکی ہے۔ ذمہ دار سیاسی لیڈر اور گروہ، دھڑلّے سے فیصلہ سناتے ہیں کہ احتجاج ہمارا آئینی حق ہے۔ کوئی سڑک، کوئی چوک محفوظ نہیں۔ مصروف جگہ چنی جاتی ہے۔ ٹریفک رُکی رہے، مسافر خوار ہوں، کاروبار تباہ ہوں، انتظامیہ عام لوگوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کرتی۔ مطالبہ سچا ہو یا جھوٹا، احتجاجی ٹولہ من مانی کرتا ہے۔ انتظامی ڈھانچہ اس خوف میں رہتا ہے کہ قانون پر عمل درآمد سے کوئی مسئلہ کھڑا ہوا تو حکومت پشت پناہی نہیں کرے گی۔
مؤثر انتظامیہ، کاروباری اداروں کے لیے بھی لازم ہے۔ بہت سال پہلے اے بی بی(ABB)‘ ایک بین الاقوامی کمپنی‘ کے سی ای او کا انٹرویو پڑھا۔ موصوف پچھلے چھ سال سے یورپ کے بہترین بزنس مین کا ایوارڈ جیت رہے تھے۔ پوچھا گیا کہ آپ کے بزنس کی کامیابی میں سب سے زیادہ عمل دخل کس عنصر کا ہے؟ کیا آپ کمپنی کی مشن سٹیٹمنٹ پر توجہ دیتے ہیں یا مارکیٹنگ پر؟ کاروباری لاگت کی کمی ذہن میں رہتی ہے یا ملازمین کی ٹریننگ؟ آپ کمپنی کی کاروباری حکمت عملی کتنے سال کے لیے ترتیب دیتے ہیں؟ جواب انوکھا تھا۔ موصوف کے مطابق یہ سب باتیں اہم، مگر پندرہ بیس فیصد تک۔ میری توجہ باقی ماندہ اسّی پچاسی فیصد پر مرکوز ہوتی ہے اور وہ ہے عمل درآمد۔ اگر ہم کوئی فیصلہ کریں مگر اُس پر عمل درآمد نہ ہو تو کسی پالیسی کا فائدہ نہیں۔ عمل درآمد کے لیے کمپنی کو ایک مؤثر انتظامی ڈھانچے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں اُسی پر توجہ دیتا ہوں۔
میڈیا پر بارہا کہا جاتا ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست بننے جا رہا ہے۔ کبھی کسی نے رہنمائی کی ہے کہ ایک کامیاب اور ناکام ریاست میں بنیادی فرق، صرف مؤثر انتظامی ادارے ہیں۔ پارلیمنٹ قانون بنائے، حکومتی عہدے دار اعلانات کرتے رہیں، اگر سرکاری اہلکار، سیاست زدہ، نااہل اور بدعنوان ہوں تو عمل درآمد میں کمزوری رہ جائے گی۔ انتظامی ڈھانچے کو مؤثر بنانے کے لیے حکومت کو کچھ قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ اُسے سیاست سے علیحدہ رکھنا لازم ہے۔ بدعنوانی کی روک تھام کے لیے اچھی تنخواہ اور احتساب کا نظام ضروری۔ سب سے اہم شرط، ریاست کی طرف سے اُس اہل کار کا مکمل دفاع جو راستی پر ہو اور قانون پر بغیر تفریق عمل کرے۔
نظام میں خرابی بتدریج پیدا ہوئی۔ سیاست دانوں پر بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا دبائو ہمیشہ رہتا ہے۔ بلا ضرورت سرکاری نوکریاں بڑھائی گئیں۔ جہاں ایک اہل شخص کی ضرورت تھی وہاں تین چار، نااہل بھرتی ہوئے۔ ہر کسی نے کام کی ذمہ داری دوسرے پر ڈالی۔ سستی، کاہلی اور غیر ذمہ داری کا کلچر فروغ پایا۔ کسی نااہل اور بددیانت اہل کار کو نوکری سے نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک اچھا خاصا محنتی اور لائق شخص جس روز سرکاری نوکری کی حفاظت میں آیا، صلاحیت آدھی رہ گئی۔
سویلین اداروں کی تنزلی ہوئی مگر خوش قسمتی سے فوج کا نظام، شکست و ریخت کے عمل سے محفوظ رہا۔ اگر پاکستان ابھی ناکام ریاست نہیں تو وجہ ہماری فوج ہے۔ اب ہم اِس ادارے کو بھی کمزور کرنے نکلے ہیں۔ ماضی قریب میں سویلین حکومت، سکولوں کے سروے سے واپڈا کے میٹر ریڈر کی نگرانی تک فوج کو ذمہ داری تفویض کرتی رہی ہے۔ آج بھی اُس کے ذیلی ادارے امن و امان کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ انتہا پسندی کا سدِ باب، سیلاب سے بچائو یا مردم شماری کا عمل، ہم فوج کی طرف دیکھتے ہیں۔ یہ صورتِ حال کسی لحاظ سے مستحسن نہیں۔ اہلِ نظر جانتے ہیں کہ فوج کا سویلین معاملات میں ملوث ہونا نامناسب اور ادارے کے لیے مضر ہے۔ قومی دفاع کا آخری ذریعہ، صرف آخری حربے میں استعمال ہونا چاہیے۔
اگر کسی ریاست کا سویلین انتظامی ڈھانچہ مؤثر نہ رہے تو فوج کی ناکامی کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اپنے اِرد گرد وسطی ایشیا میں بہت سی ریاستیں امن اور سکون کھو کر خانہ جنگی کا شکار ہو چکی ہیں۔ مجھے ترکی میں تعیناتی کے زمانے میں ایک دفعہ فٹبال میچ کے دوران تماشائیوں کی ہنگامہ آرائی دیکھنے کا تجربہ ہوا۔ صرف ایک پولیس مین قریب موجود تھا‘ جو گرائونڈ میں داخل ہوا۔ ٹانگیں چوڑی کر کے پورے رُعب داب کے ساتھ ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو انگلی کے اشارے سے طلب کیا۔ یہ اُس سرکاری ملازم کی حکم عدولی کا خوف تھا یا حکومت کی طرف سے اپنی رٹ قائم کرنے کا مصمم ارادہ کہ چند لمحوں میں ایک پولیس مین نے صورتِ حال کنٹرول کر لی۔ اگر آج ترکی، اپنے ہمسایہ ملکوں کے مقابلے میں، فوجی بغاوت اور سیاسی کشاکش کے باوجود، ایک کامیاب ریاست ہے تو اِس کی وجہ مؤثر سویلین انتظامی ادارے ہیں۔
یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے تصور میں ایک طرف ترک پولیس کا وہ سپاہی نظر آتا ہے جس کا حکم مؤثر تھا۔ دوسری طرف کنہیا لال، سٹی مجسٹریٹ کا حکم نامہ یاد آ رہا ہے۔ ''نو اور دس محرم کو کنہیا لال، سٹی مجسٹریٹ کے علاوہ کوئی اور شخص گھوڑے پر سوار نہیں ہو گا۔‘‘ یہ دونوں کردار ایک کامیاب اور مؤثر انتظامی ڈھانچے کی علامت کے طور پر ایک طاقتور ریاست کا چہرہ ہیں۔