انکل سام! یہ تومجھے معلوم ہے کہ آپ ایک علامت کے طور پر امریکہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تصویر میں آپ تاروں بھری اونچی ٹوپی‘ سفید چھوٹی داڑھی اور پرانے زمانے کا کوٹ پتلون پہنے نظر آتے ہیں۔ میرا تعارف آپ کے ساتھ سعادت حسن منٹو کے اُن خطوط کے ذریعے ہوا جو آپ کو 1951ء سے 1954ء کے درمیان لکھے گئے۔ آج انہیں لکھے ہوئے 63 سال ہو چکے ہیں۔ منٹو نے آپ کے ساتھ بہت باتیں کیں۔ اُس نے آپ کو بتایا ''انگریزوں کی حکومت بھی مجھے فحش نگار سمجھتی تھی اور اب میری حکومت کا بھی یہی حال ہے۔ ماتحت عدالت نے مجھے تین ماہ قید بامشقت اور تین سو روپے جرمانہ کی سزا دی تھی۔ سیشن میں اپیل کرنے پر میں بری ہو گیا مگر میری حکومت سمجھتی ہے کہ اُس کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ چنانچہ اُس نے ہائی کورٹ میں اپیل کی ہے کہ سیشن کے فیصلے پر نظرثانی کرے اور مجھے قرار واقعہ سزا دے... دیکھئے عدالت عالیہ کیا فیصلہ دیتی ہے۔‘‘
منٹو نے آپ کو اپنے ذاتی حالات بھی بتائے۔ ''چچا جان ، بیس بائیس کتابوں کا مصنف ہونے کے باوجود میرے پاس رہنے کو اپنا مکان نہیں اور یہ سُن کر تو آپ حیرت میں غرق ہو جائیں گے کہ ... مجھے کہیں جانا ہو تو سائیکل کرائے پر لیتا ہوں۔ اخبار میں اگر کوئی مضمون چھپ جائے تو سات روپے فی کالم کے حساب سے مجھے بیس پچیس روپے مل جاتے ہیں، تانگے پر بیٹھتا ہوں اور اپنے یہاں کی کشید کی ہوئی شراب بھی پیتا ہوں۔‘‘
اُس نے آپ کو لکھا ۔''میرا ملک ہندوستان سے کٹ کر کیوں بنا، کیسے آزاد ہوا... جس پرندے کو پر کاٹ کر آزاد کیا جائے اُس کی آزادی کیسی ہو گی۔ انکل سام منٹو کی دیوانگی میں فرزانگی چھپی ہوئی تھی۔ اس کی زندگی میں کبھی خوش حالی نہ آئی۔ بچپن میں دِق کا مریض، تمام عمر قلم کے ذریعے اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا رہا۔منٹو کی زندگی جب بمبئی کی فلمی دُنیا سے جڑی تو مالی آسودگی کے دن آئے مگر اُنہی دنوں وہ پاکستان آ گیا۔ کیوں آیا؟ اِس راز کو عصمت چغتائی نے منٹو کی موت پر لکھے ہوئے مضمون ، ''منٹو میرا دوست، میرا دشمن‘‘ میں ظاہر کیا۔ یہ وہی محترمہ ہیں جن کے افسانے ''لحاف‘‘ پر بھی فحاشی کا مقدمہ چلا تھا۔ فرماتی ہیں کہ منٹو کا اشوک کے ساتھ اچھا تعلق تھا۔ منٹو کو اُس کی فلم لکھنے کا کہا گیا۔ اِس دوران عصمت چغتائی کی کہانی ''ضدی‘‘ بھی زیرِ غور آئی۔ اشوک کمار نے منٹو کی کہانی عصمت کو اور ''ضدی‘‘ منٹوکو سونپ دی۔اُس نے دونوں کو ایک دوسرے کی کہانی کو فلم کے سکرپٹ میں ڈھالنے کے لئے کہا۔ اس دوران کمال امرہوی بھی آن وارد ہوئے اور اُنہوں نے اپنی کہانی اشوک کمار کو سنائی۔ وہ پہلی دونوں کہانیوں کو چھوڑ کر کمال امرہوی کی لکھی ہوئی فلم ''محل‘‘ بنانے لگا۔ ''محل‘‘ سپرہٹ ثابت ہوئی۔ عصمت چغتائی نے اور ذرائع سے اپنی فلم ''ضدی‘‘ بنائی جس میں گورنمنٹ کالج کے تعلیم یافتہ نوجوان دیوآنند کو ہیرو کا رول ملا۔
منٹو سٹوڈیو کا ملازم تھا۔ اسے باقاعدہ تنخواہ ملتی تھی مگر اُس نے سمجھا کہ وہ بمبئی کی فلمی دُنیا کے لئے بے مصرف ہو گیا ہے۔ حساس شخص تھا، برداشت نہ کر سکا اور پاکستان چلا آیا۔ لاہور میں فلم انڈسٹری اپنے قدموں پرکھڑے ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایک آدھ فلم کے علاوہ اُس کی خدمات سے فائدہ نہ اٹھایا گیا۔ قلم سے روزی کمانا مشکل کام تھا۔ اُن مفلسی کے دنوں میں منٹو نے آپ کو پہلا خط لکھا۔ کیوں کہ اُن دنوں آپ کمیونزم سے بچانے کے لئے ''آزاد دُنیا‘‘ کے قائد تھے۔ اُس آزاد منش شخص کی مالی حالت دیکھ کر آپ کی غیرت جوش میں آئی۔ آپ نے کیا قدم اُٹھایا، اُس کا حال منٹو کی زبانی سنئے۔ ''مکرمی اور محترمی چچا جان، عرصہ ہوا آپ کی خدمت میں ایک خط ارسال کیا تھا... آپ کی طرف سے تو کوئی رسید نہ آئی مگر کچھ دن ہوئے، آپ کے سفارت خانے کے ایک صاحب ... شام کو میرے غریب خانے پر تشریف لائے۔ مجھ سے درخواست کی کہ میں اُن کے لئے ایک افسانہ لکھوں، میں بہت متحیر ہوا۔ میں نے اُن سے عرض کی۔ جناب میں اُردو زبان کا رائٹر ہوں۔ میں انگریزی لکھنا نہیں جانتا۔ اُنہوں نے فرمایا۔ مجھے اُردو میں چاہیے۔ ہمارا ایک پرچہ ہے جو اُردو میں شائع ہوتا ہے۔‘‘
منٹو کے مطابق اُن صاحب نے پوچھا۔ ''آپ ایک افسانے کے کتنے روپے لیں گے؟‘‘ منٹو کو اُن دنوں چالیس پچاس روپے ملتے تھے۔ اُس نے جھوٹ بول کر دو سو روپے بتائے۔ جس پر اُن صاحب نے کہا کہ ایک افسانے کے لئے کم از کم پانچ سو روپے توہونے چاہئیں۔ منٹو نے کہا۔'' نہیں صرف دو سو روپے۔‘‘ دوسرے دن وہی صاحب دوبارہ آئے اور فرمایا۔ ''دو سو روپے چھوڑئے ۔ تین سو لے لیجئے۔‘‘
انکل سام! آپ کو بعد میں پتہ چلا کہ منٹو کی مالی بدحالی اپنی جگہ مگر اُس کی سوچ دوسرے پاکستانیوں سے مختلف تھی۔ وہ ایک سرجن کی طرح معاشرتی ناسوروں کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتا تھا۔ ہمارے عام پڑھے لکھے جُدا سوچ رکھتے ہیں۔ ہمیں اپنی ریاکاری سے پیار ہے۔ ہم اپنے میلے تکئے پر سفید اُجلا غلاف چڑھا کر اپنے احساس کو پاکیزگی عطا کرتے ہیں۔ منٹو نے آپ کے لئے افسانے اس لئے نہیں لکھے کہ اُسے آزادی بہت عزیز تھی۔ اُس کا خیال وہ اُسی جذبے کے ساتھ رکھتا تھا جیسے پاکستانی معاشرے کا کوئی سفید پوش باپ اپنی بیٹی کی حُرمت کے بارے میں بہت حساس ہوتا ہے۔
منٹو کی تعمیر میں اُس کی اَنا کی خرابی تو بحر طور موجود تھی۔ وہی آڑے آ گئی۔ اگر کوئی عام قلم کار ہوتا تو کمیونزم کے خلاف دھڑادھڑ افسانے لکھ کر آپ کی پیش کش سے فائدہ اُٹھاتا۔ مگرمنٹو کا کیا ہو سکتا تھا۔ وہ اپنی مفلسی کو ساتھ لئے آپ کو آخری خط لکھنے کے چند ماہ بعد ہی خالقِ حقیقی سے جا ملا۔
مگر انکل سام! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ 1955ء کا زمانہ مختلف تھا۔ میں کیا پرانے قصے لے کر بیٹھ گیا ہوں۔ آپ کی ترقی کا راز اِسی عادت میں ہے کہ آپ ماضی کو کم اور مستقبل کو زیادہ دیکھتے ہیں۔ آپ کو منٹوکے خط شاید ابھی یاد بھی نہ ہوں مگر آپ کے ملک آتے ہوئے، پی آئی اے کے جہاز میں اور کچھ کرنے کو نہیں تھا۔ منٹو کے خطوط میرے پاس تھے، میں اُنہیں پڑھتا رہا۔
انکل سام! میں کوئی پہلی دفعہ امریکہ نہیں آیا۔ کئی دفعہ آپ کے پاس حاضر ہو چکا ہوں۔ نائن الیون کے سانحے سے پہلے اور بعد میں بھی۔ ایک زمانہ تھا ہم آپ کے ایئر پورٹ پر اعتماد کے ساتھ اُترتے تھے۔ اور آپ کے امیگریشن افسر کو پاسپورٹ دکھاتے ہوئے خوش گپیاں بھی کرتے۔ وہ پاسپورٹ پر مسکرا کر مہر لگاتا تو ہم خوش دلی سے اُس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایئر پورٹ سے باہر آ جاتے۔
مگر اِس دفعہ تو اندیشہ تھا کہ آپ کے نئے صدر کادھیان دوسرے مسلمان ممالک پر پابندی لگاتے ہوئے کہیں پاکستان کی طرف نہ چلا جائے۔ امیگریشن کی لائن میں کھڑے طرح طرح کے خیال ذہن میں آ رہے تھے۔ افسر مجاز کی طرف دیکھا تو شکل و شباہت سے وہ برِصغیر پاک و ہند کا باشندہ معلوم ہوا۔ اُس کے قریب آئے تو سینے پر اگروال کی پٹی دیکھی۔ اگروال قوم کے بارے میں پتہ تھا کہ اُن کی زیادہ آبادی مشرقی پنجاب، ہریانہ اوردہلی میں ہے۔ چند اسلام قبول کر کے پاکستان کے سکونتی ہیں۔ میرے ایک بیچ میٹ کا نام الطاف اگروال تھا۔ خیال آیا کہ بہت قابل لوگ ہوتے ہیں۔ اکبر کے مشہور زمانہ نورتن ٹوڈرمل کا تعلق بھی اسی قوم سے تھا۔ پتہ نہیں اگروال صاحب کا تعلق کس مذہب سے تھا اور وہ کس ملک سے یہاں تشریف لائے تھے مگر اُنہوں نے ایک منٹ میں پاسپورٹ پر مہر لگا دی۔
آج کل آپ کے ملک میں ہوں۔ آپ کی عظمت کو سلام، منٹو کے خطوط میں لکھی ہوئی بہت سی باتیں یاد آ رہی ہوں۔ میں بھی منٹو کی طرح آپ کو خط لکھتا رہوں گا ۔ جواب کی اُمید نہیں مگر یک طرفہ لکھنے کا ایک اپنا مزہ ہے۔