"ZFC" (space) message & send to 7575

چچا سام کے نام تیسرا خط

انکل سام! منٹو نے آپ کو خط لکھے مگر اُسے شکایت رہی کہ آپ نے کبھی جواب نہیں دیا۔ مجھے توقع ہی نہیں تھی۔ سوچ لیا تھا کہ میرے خط یک طرفہ ہی رہیں گے۔ امید تھی کہ جو مفید مشورے دیئے جائیں گے، شاید آپ تک رسائی پائیں۔ انکل سام ! دوسرے خط میں آپ کے نئے صدر کی تعریف کی تھی۔ کیونکہ اُنہوں نے محسوس کیا کہ ہمارے خطے کے لوگ اپنے مسئلے طے نہیں کر سکتے۔ اُن کا قابل قدر ارادہ ہے کہ وہ اِن مسائل کا تصفیہ کروانے کے لئے تیار ہیں۔
انکل سام! اِس ضمن میں برِصغیر کو کرۂ ارض کا ''کوچۂ بے عقلاں‘‘ کہا تھا، آپ کو میری بات بری لگی کہ ہمارے خطے میں لوگ عقل کی کمی کا شکار ہیں۔ آپ نے میرے خط کا جواب تو نہیں دیا۔ البتہ میرے خواب میں آئے اور برہمی کا اظہار کیا۔ آپ کا فرمان درست ہے کہ ہندوستان سے آئے ہوئے آٹھ تارکینِ وطن اِس وقت امریکن کمپنیوں کے سربراہ ہیں اور پاکستان سے بھی جو پروفیشنل اور ڈاکٹر یہاں آئے ہیں وہ بھی ذہانت میں کسی سے کم نہیں۔آپ نے ناراضی کا اظہار کیا کہ میں نے بلا سوچے سمجھے برصغیر کے لوگوں کو کم عقل قرار دیا۔
انکل سام! آپ بھی صحیح کہہ رہے ہیں اور میں بھی غلط نہیں۔ جو لوگ پاک و ہند سے امریکہ آئے ہیں وہ اعلیٰ درجے کے طالبِ علم تھے۔ یہاں کی درس گاہوں سے تعلیم حاصل کی اور امریکی معاشرے کا حصہ بن گئے۔ پاکستان سے آنے والے ڈاکٹر بھی طب کی تعلیم میں نمایاں درجہ رکھتے ہیں۔ اپنی صلاحیت کی بنیاد پر سخت امتحان پاس کر کے یہاں پہنچے اور محنت سے نام کمایا۔
مگر انکل سام! ہمارے معاشرے میں لوگ مختلف درجات میں تقسیم ہیں اور اُن کے رہنے کی اپنی اپنی سطح ہے۔ نہ صرف معاشی طور پر بلکہ عقل و فہم کے لحاظ سے بھی ۔انگریز نے ہمیں جمہوریت کے لئے تیار کرنے کے لئے آہستہ آہستہ سیاسی عمل سکھایا۔ معاشرے کے دولت مند طبقوں سے نوجوان طالب علم آکسفورڈ یا کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے ، بیرسٹر بن کر قانون کے میدان میں نام کماتے ۔ ہندوستان میں سیاسی جماعتوں کی قیادت اِن روشن خیال عمائدین کے پاس تھی۔ اِن مٹھی بھر لوگوں کی روشن خیال سیاست نے ہندوستان کے لئے ایک سیکولر آئین بنایا۔ مگر اب ہندوستان بدل گیا ہے۔ آج اُس روشن خیال اور انگلستان سے تعلیم یافتہ قیادت کی جگہ دوسری قسم کے لیڈر لے چکے ہیں۔ گاندھی کے قاتل کی پارٹی ہندوستان کے حکمرانوں کی پشت پناہی کرتی ہے۔ اگر میری بات میں شک کی گنجائش ہے تو اُتر پردیش کے چیف منسٹر کو دیکھ لیں۔ یوگی ادھتیا ناتھ اور ہندوستان کا سیکولر آئین۔ آپ کو ایک مذاق لگے گا۔ وقت اور حالات بدل گئے ہیں۔ اب ہندوستان میں مذہبی رواداری ختم ہو رہی ہے۔ گائے جیسے امن پسند جانور کے نام پر بے گناہ انسانوں کا خون ہوتا ہے۔
انکل سام! ایک اور بات گوش گزار کردوں۔ آپ اُن کی فلموں سے متاثر نہ ہوں۔ امریکہ تو میں پہلے بھی آ چکا ہوں مگر اس دفعہ پتا چلا کہ ہندوستان سے نہ صرف ہندی بلکہ تامل اور تلگو زبان میں بننے والی فلمیں بھی امریکی سینما گھروں میں دکھائی جاتی ہیں۔ فلموں سے ہندوستان نے دنیا میں یہ تاثر دیا ہے کہ وہ امن پسند لوگ ہیں۔ گانے بجانے اور رقص کرنے کے دلدادہ ہیں۔ اُنہیں صرف آئٹم سونگ میں دلچسپی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کل کے ہندوستان کا اصل چہرہ صرف اُس کی اقلیتوں یا ذات پات کے ڈسے لوگوں کو نظر آتا ہے۔
انکل سام! اگر آپ کے ذہن میں ہندوپاک کے لوگوں کے بارے میں کوئی ابہام ہے تو سیاچن کے تنازع کو دیکھ لیں۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں فوجی اور سویلین اپنی جان کھو چکے ہیں۔ دونوں ملک کھربوں روپے خرچ کر چکے۔ مگر ستم ظریفی ہے کہ سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود ہم اِس جنگ کو ختم نہیں کر سکے۔ انکل سام! ہندوستان کی عسکری قیادت نے اس جنونی خیال کی تکمیل میں ایک اور ستم ظریفی کی۔ سیاچن گلیشیئر پر قبضہ کرنے کے لئے جو پلان بنایا، اُس کا عنوان سنسکرت کے مشہور شاعر اور ڈرامہ نگار، کالی داس کی نظم سے لیا گیا۔ یہ وہی کالی داس ہے جس نے ہندوستان کا پہلا ڈرامہ شکنتلا تحریر کیا۔ کالی داس کوئی اسلام دشمن لکھاری نہیں۔ وہ تو ظہورِ اسلام سے پہلے ہی فوت ہو چکا تھا۔ اُس کی ایک مشہور نظم ''بادل کا سندیسہ‘‘ بدلتے موسموں کا خوبصورت اظہار ہے۔ اِس نظم میں بادل کے ذریعے کوہ ہمالیہ کو محبت کا پیغام بھیجنے کا ذکر ہے۔ مگر ہندوستان کی عسکری قیادت نے اِس بے آب و گیاہ گلیشیئر پر گولہ بارود سے لدے فوجی 13 اپریل 1984ء کو بھیجنے شروع کئے اور آپریشن کا نام، اس نظم کے عنوان ''میگھا دوتا‘‘ پر رکھا۔
انکل سام! سیاچن دنیا کا سب سے بلند محاذ جنگ ہے۔ اسے دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔ اسکی بلندی 6700 میٹر ہے اور یہاں درجہ حرارت منفی پچاس سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ یہاں گولہ بارود سے کم اور موسم کی وجہ سے زیادہ، دونوں طرف کے کڑیل جوان ہلاک ہوتے ہیں۔دُنیا کے جنگی ماہرین کی رائے میں ہندوستان کی فوج کو گلیشیئر پر قبضہ کرنے کا کوئی عسکری فائدہ نہیں ہو گا۔ مگر ہندوستان میں آج کل عسکری قیادت اتنی طاقت ور ہے کہ سیاست دانوں پر حاوی ہو چکی ہے۔ انکل سام! آپ کے ہاں ایک اہل علم سٹیفن کوہن نے سیاچن کی جنگ کو ''دو گنجوں کے درمیان ایک کنگھی کی لڑائی‘‘ کہا ہے۔میرے ذاتی خیال میں اِس جنگ پر اس سے زیادہ بلیغ تبصرہ نہیں ہو سکتا۔ انکل سام! آپ خود سوچیے کہ جن ملکوں میں اتنی غربت ہوکہ عوام کے لئے زندگی بوجھ بن جائے وہاں اِس قسم کی مہم جوئی چہ معنی دارد ۔ ہزاروں فوجی اِس بلندی پر ایک دوسرے سے نہیں، موسم سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہندوستان کو ان فوجیوں کے لئے ہر قسم کا سامان پہنچانے کے لئے ہیلی کاپٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔ بہت مہنگا کام ہے مگر ہندوستان کی عسکری قیادت ڈٹی ہوئی ہے۔ وکی لیکس (Wikileaks) کے ذریعے ملی ہوئی معلومات سے پتا چلا کہ ایک دفعہ اس مسئلے پر سمجھوتہ ہونے لگا تھا کہ ہندوستانی فوج کے سپہ سالار جنرل جے جے سنگھ نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ انکل سام! آپ سوچیے کہ کتنے بے گناہ ہندوستانی اور پاکستانی انسانوں کا خون اُس جنرل کی گردن پر ہو گا۔انکل سام! اِس جنگ کے ضمن میں آپ میڈیا کا کردار بھی ملاحظہ کریں۔ 7 اپریل 2012ء کو پاکستانی فوج کے زیرِ قبضہ ''گیاری سیکٹر‘‘ میں لینڈ سلائیڈنگ ہوئی۔ 140 بے گناہ انسان برف میں زندہ دفن ہو گئے۔ پاکستانی فوج کے کمانڈرانچیف جنرل کیانی ہندوستان کی ایک خاتون صحافی کو بھی یہ سانحہ دکھانے ساتھ لے گئے۔ اِس دلیرانہ فیصلے کا مقصد تھا کہ ہندوستان کے میڈیا میں اس انسانی المیے کی تصویر دکھائی جائے۔ اس کا اچھا نتیجہ نکلا۔ ہندوستان میں عوامی رائے کچھ بدل گئی۔ کچھ عرصے بعد سمجھوتا ہونے کی امید بندھی۔ ہندوستان کے وزیر دفاع نے پارلیمنٹ میں بیان دیا کہ حکومت ہند، پاکستان کے ساتھ بامعنی مذاکرات کر رہی ہے۔ انکل سام! غیر جانبدار مبصر لکھتے ہیں کہ اِس خبر سے ہندوستانی فوج کی قیادت میں بے چینی پھیل گئی کہ سیاست دان کوئی سمجھوتا نہ کر لیں۔ اُنہوں نے تمام حربے آزمائے۔ ہندوستان کے آرمی چیف کے خدشات میڈیا میں لیک کئے گئے۔ انگریزی زبان کے ایک مشہور رسالے ''انڈیا ٹو ڈے‘‘ نے اپنی 14 مئی 2012ء کی اشاعت میں لکھا۔ ‘‘کیا پرائم منسٹر پاکستان کو وہ تحفہ دے سکتے ہیں جسے ہندوستانی فوج نے جیتا ہو۔‘‘ قصہ مختصر ہندوستانی میڈیا نے اپنی عسکری قیادت کے ساتھ مل کر تصفیہ نہیں ہونے دیا۔ 
انکل سام! ان حالات میں آپ اپنے صدر ٹرمپ کو کہیے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لئے دونوں ملکوں کی عسکری قیادت کے لئے مذاکرات کا اہتمام کریں۔ یہ مذاکرات دہلی یا اسلام آباد میں نہیں بلکہ سیاچین محاذ کی برفانی چوٹی پر ہوں تو زیادہ مناسب رہے گا۔ صدر ٹرمپ یہ شرط لگائیں کہ جب تک سمجھوتہ نہیں ہوتا مذاکراتی ٹیم کے ارکان واپس نہیں آ سکتے۔ اورہاں انکل سام! یہ شرط بھی رکھی جائے کہ جس خیمے کے اندر مذاکرات ہو رہے ہوں اُس کے باہر جنرل (ریٹائرڈ) جے جے سنگھ بھی نیکر پہن کر سمجھوتہ ہونے کا انتظار کرتے رہیں۔ اور اگر جنرل جے جے سنگھ کا اکیلے میں دل گھبرائے تو انڈیا ٹوڈے کے وہ ایڈیٹر جن کی مدد سے سیاچین سمجھوتے کو روکا گیا تھا، اُن کا دل بہلانے کے لئے اُن کے پاس بھجوا دیئے جائیں۔ انکل سام! پاکستان اور ہندوستان کے امن پسند شہری جو دونوں ملکوں کے بہادر فوجیوں کی موسم کے ہاتھوں غیر ضروری ہلاکت دیکھ کر پریشان رہتے ہیں،اِس نیک کام پر آپ کو بہت دعائیں دیں گے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں