"ZFC" (space) message & send to 7575

سلیم جاوید اورآنند بابو کا سیاسی اثاثہ

سلیم خان اور جاوید اختر کی فلمی جوڑی نے سلیم جاوید کے نام سے 1975ء میں فلم دیوار لکھی۔ اِس جوڑی کا تعارف کرواتا چلوں۔ سلیم خان ایک اداکار تھے۔ مشہور اداکار سلمان خان اور ارباز خان اُنہی کے بیٹے ہیں۔انہیں فلمی سکرپٹ لکھنے کا شوق تھا۔ جاوید اختر اور ان کے والد جاں نثار اختر بھی بلند پایہ شاعر ہیں۔ اُن کی والدہ صفیہ، اسرارالحق مجاز کی بہن اور ''زیرِ لب‘‘ کی مصنفہ ہیں۔ شبانہ اعظمی اُن کی دوسری بیوی اور ملکھا سنگھ کا ٹائٹل رول کرنے والے،فرحان اخترپہلی بیوی سے اُن کی اولاد ہیں۔
فلم'' دیوار ‘‘ میں امیتابھ بچن اور ششی کپور، ایک کردار، آنند بابو کے بیٹے ہیں جو کوئلے کی کان کے مزدوروں کا لیڈر ہے۔ فلم کے ابتدائی مناظر میں مالک اپنے حواریوں کے ساتھ آنند بابو کی تقریر سن رہا ہے۔ ایک ساتھی تجویز کرتا ہے کہ چونکہ آنند بابو کو خریدا نہیں جا سکتا،لہٰذا اُسے قتل کر دینا چاہیے۔ مالک کہتا ہے۔ ''لیڈر کی صحیح موقع پر موت ہو جائے تو وہ امر ہو جاتا ہے۔‘‘ (صحیح موقع یہاں لیڈر کے نقطۂ نظر سے ہے) وہ آنند بابو کی سیاسی ساکھ کو ختم کرنے کی سکیم بناتے ہیں جو کامیاب ہوتی ہے۔ آنند بابو مزدوروں میں غیر مقبول ہو جاتا ہے۔ جان چھڑکنے والے مزدور اُس کے خلاف جلوس نکال کر نعرہ لگاتے ہیں۔ ''گلی گلی میں شور ہے، آنند بابو چور ہے۔‘‘ سلیم جاوید کی جوڑی کا تخلیق کیا ہوا یہ نعرہ آج بھی ہندوستان اور پاکستان کے سیاست دانوں میں مقبول ہے مگر ہر ایک کا اپنا آنند بابو ہے جو مختلف ناموں سے اس نعرے میں جلوہ گر ہوتا رہتا ہے۔
یہاں آپ کو فلم کی کہانی سنانا مقصود نہیں بلکہ اِس موضوع پر غور کرنا ہے کہ کسی ایک سیاست دان یا سیاست دانوں کی بحیثیت جماعت، سیاسی ساکھ کو ختم کرنے کا کھیل کیسے کھیلا جاتا ہے۔ 
پاکستان بننے کے بعد گیارہ سال تک الیکشن نہ ہوئے۔ جب فوج نے مارشل لاء لگا کر حکومت سنبھالی تو لوگوں نے بخوشی قبول کیا۔ ایوب خان کئی سال سے فوج کے سربراہ ہونے کے ساتھ کابینہ میں وزیر دفاع بھی تھے۔ مارشل لاء کو عوامی تائید ملنے کے باوجود اُنہوں نے سیاست دانوں کی سیاہ کاریوں کو ڈھونڈ کر انہیں بدنام کرنے کی پوری کوشش کی۔ مارشل لاء کا جواز بنانے اور اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے اخبارات اور رسائل میں سیاست دانوں پر کیچڑ اچھالا گیا۔ درسی کتب میں سیاست دانوں کے خلاف مضمون لکھوائے گئے۔
اِس زمانے میں قدرت اللہ شہاب اُن کے سیکرٹری تھے۔ وہ اپنی آپ بیتی ''شہاب نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ''ایوب خان کو یہ چسکا تھا کہ ایبڈو کی زد میں آئے ہوئے مشہور و معروف سیاست دانوں کی بداعمالیوں اور بدعنوانیوں کی تفصیلات اُن کے اپنے علم میں بھی آئیں۔ اِس مقصد کیلئے اُنہوں نے باسٹھ ناموں کا انتخاب کیا اور مجھے حکم دیا کہ ایبڈو کے تحت مقدمات سماعت کرنے والی خصوصی عدالتوں (Tribunals) میں سے اُن سب کا مکمل ریکارڈ حاصل کروں اور ہر ایک کی بداعمالیوں اور بدعنوانیوں کا خلاصہ تیار کر کے اُن کے ملاحظہ کیلئے پیش کروں۔ ایبڈو کے ان باسٹھ بلندوبالا پہاڑوں کو جب کھود کھود کر دیکھا تو اُن میں بداعمالیوں اور بدعنوانیوں کی ایسی چھوٹی چھوٹی چوہیاں برآمد ہوئیں جو آج کے ماحول میں انتہائی بے وقعت اور بے ضرر نظر آئیں۔ باسٹھ چیدہ چیدہ سیاستدانوں کیخلاف صدر ایوب نے اس قسم کی بے مزہ، پھیکی اور پھسپھسی سی فردِ جرم پڑھی تو بے حد حیران ہوئے۔ اُنہوں نے تعجب سے کئی بار یہ سوال دھرایا۔ بس اتنا کچھ ہی ہے۔‘‘
یہ الگ بات ہے کہ اتنی دہشت پھیلا دی گئی تھی کہ بیشتر سیاست دانوں نے خصوصی عدالتوں کے دھکے کھانے کی بجائے ایبڈو کے قانون کے تحت سیاست سے مخصوص مدت تک رضاکارانہ کنارہ کشی کو ترجیح دے کر اپنی جان چھڑائی۔ ایک لحاظ سے یہ انتظام ہماری سیاسی تاریخ میں فوجی حکمران کی جانب سے پہلا قانونی این آر او تھا۔ پھر چشمِ فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ چند سال بعد ایوب خان خود بھی کنونشن مسلم لیگ بنا کر سیاست دانوں میں شامل ہوئے۔ جب اُنہوں نے اپنے جواں سال بیٹے کو فوج کی کپتانی چھڑوا کر جنرل موٹرز کا اسمبلی پلانٹ دلوایا تو اُن کی مبینہ بدعنوانی زبان خلق پر اتنی عام ہوئی کہ اُن کی اچھی حکمرانی کی میراث ضائع اور سیاست دانوں کی ساکھ بحال ہو گئی۔
ہمیشہ یہ خیال آتا ہے کہ ہم بھول کر بھی ملک فیروز خان نون کا ذکر نہیں کرتے۔ ملک صاحب آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ اور جب مارشل لاء لگا، اُس وقت پاکستان کے وزیراعظم تھے۔ فوج کے حکومت سنبھالنے سے صرف چند ہفتے پہلے انہوں نے کامیاب مذاکرات کے ذریعے گوادر کے علاقے کو سلطنت عمان سے حاصل کر کے پاکستان کے نقشے میں شامل کیا تھا۔ گوادر کا معاہدہ ہونے پر اُنہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ملکوں سے دوسرے مسائل بھی پرامن طریقے سے طے کرے گا،شاید اُن کا یہی عزم اُن کے آڑے آیا ۔ اُن کے اس کارنامے کاذکر ایوب خان نے کبھی نہیں کیا۔ اگر گوادر پاکستان کا حصہ نہ ہوتا تو آج سی پیک منصوبہ بھی نہ بنتا۔
جب سے پاکستان بنا ہے سیاست دانوں کی ساکھ ختم کرنے کا سامان ہو رہا ہے۔ یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات نوابزادہ شیر علی خان اِس کام میں مصروف رہے۔ ضیاء الحق کا دور آیا تو بھٹو کے زمانہ اقتدار کے بارے میں، ٹی وی ظلم کی داستانیں سناتا رہا اور بھٹو حکومت کی سیاہ کاریوں پر قرطاس ابیض شائع ہوا۔ مگر بات نہ بنی۔ بھٹو کی عوامی حمایت میں اضافہ ہوا تو چند سال پہلے درج کی ہوئی ایف آئی آر کو کام میں لایا گیا۔ بھٹو کو پھانسی کی سزا ہو گئی۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے فیصلے میں بھٹو کو صرف نام کا مسلمان لکھا۔ غیر جانبدار ماہرین قانون کے مطابق صرف اسی بات پر اپیل منظور ہو جانا چاہیے تھی، کیوں منظور نہ ہوئی اِس کا آج تک جواب نہیں ملا۔ مگر ایپلیٹ بنچ میں بھٹو کی سزا بحال رکھنے والے ایک جج نسیم حسن شاہ نے ٹیلی وژن پر اپنے ہی فیصلے کی صحت پر شبہات کو جنم دیا۔
اِس کیس پر اب تک تبصرے ہو رہے ہیں۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں صفحات لکھے جا چکے ہیں مگر ایک بلیغ تبصرہ ایک دیہاتی نے ہائیکورٹ میں جج کے سامنے کیا۔ ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے خلاف اپیل زیر غور تھی۔ ایف آئی آر کے مطابق ملزم موقع واردات پر بیٹوں کو للکار کر قتل کرنے پر اکسا رہا تھا۔ جج صاحب نے ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے کہا۔ ''ملزم قاتل تو نہیں، اُس نے تو صرف للکارا تھا۔‘‘ جج صاحب کی بات سننے کے بعد مقتول کے بوڑھے دیہاتی باپ نے کہا ۔ ''جج صاحب! بھٹو کو تو آپ نے پھانسی لگا دی، جس نے للکارا بھی نہیں تھا۔‘‘ قصہ مختصر، نہ قانونی طور پر اس فیصلے کو مانا گیا نہ عوامی سطح پر اس کو تسلیم کیا گیا۔ عوام کی عدالت نے اسے نامنظور کرتے ہوئے مسترد کر دیا۔ بھٹو صاحب پھانسی پر جھول گئے مگر اُن کے سیاسی اثاثے کی قدر اوپر چلی گئی۔ اسی سیاسی اثاثے نے دو دفعہ بے نظیر بھٹو کو وزیر اعظم بنوایا اور بعد ازاں آصف زرداری کو ایوان صدر پہنچا دیا۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سیاست دانوں کے سیاسی اثاثے ختم کرنا اتنا مشکل ہے توکیا فلم '' دیوار‘‘ میں سلیم جاوید کی سکیم سے مدد لی جا سکتی ہے کہ ہماری سیاست کے چیدہ چیدہ کردار عوام میں غیر مقبول ہو کر آنند بابو کی طرح ہیرو سے زیرو ہو جائیں؟ فلم میں سلیم جاوید نے یہ طریقہ اپنایا کہ آنند بابو جسے اپنے خاندان سے محبت تھی، اس کے بیوی بچوں کا اغوا کر کے قتل کرنے کی دھمکی دی جائے۔ فلم میں یہ دھمکی کام کر گئی۔ آنند بابو نے اپنے خاندان کی زندگی بچانے کے لئے نہ صرف معاہدے پر دستخط کر دیئے بلکہ مزدوروں کے سامنے اعتراف گناہ بھی کر لیا۔
کسی بھی لیڈر کا سیاسی اثاثہ ختم کرنے کیلئے اسی قسم کی سکیم ہی مؤثر ہو سکتی ہے۔ مگر قارئین جانتے ہیں کہ حقیقی زندگی اور ایک فلم کی کہانی میں بہت فرق ہوتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں