وہ دن نائن الیون کے نام سے مشہور ہوا جب ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دونوں ٹاور زمین بوس ہوئے۔ میں اُن دنوں سٹاف کالج میں گریڈ بیس سے اکیس میں ترقی پانے کے لیے تربیتی کورس میں شریک تھا۔ چند دن یہی واقعہ زیر غور رہا۔ تمام شرکا متفق تھے کہ امریکہ کا رد عمل بہت شدید ہو گا۔ خطرہ تھا کہ کوئی پاکستانی ملوث نہ ہو۔ چند دن بعد امریکہ نے القاعدہ کو ذمہ دار ٹھہرایا اور افغانستان سے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا۔ افغان حکومت نے انکار کر دیا۔ پاکستان کے لیے مشکل وقت تھا۔ ایک طرف معاشی مشکلات اور دوسری طرف ہندوستان‘ جو امریکہ کو ہر قسم کی سہولت دینے کے لیے تیار تھا۔ کورس کے شرکا کا خیال تھا کہ غیر نمائندہ فوجی حکومت کے لیے امریکہ کو انکار کرنا تو درکنار، سودا کاری کی گنجائش بھی بہت کم ہے۔ امریکی دھمکی کام کر گئی۔ امریکی بحری بیڑہ بحیرہ عرب پہنچا‘ اور پاکستان اس جنگ میں امریکہ کا حلیف بن گیا۔ بحیرہ عرب کے پانیوں پر سنسناتے ہوئے امریکی میزائل، ہماری فضائوں سے گزر کر افغانستان میں تباہی مچانے لگے۔
نائن الیون سے پہلے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مثالی نہیں تھے۔ بہت سے مشکل دور آئے۔ پیچیدگیاں پیدا ہوتی رہیں۔ 1999ء کے دوران پنجاب میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے کئی واقعات ہوئے۔ ایک واقعے میں پولیس نے رپورٹ دی کہ حملہ آور کارروائی کے بعد افغانستان چلے گئے ہیں۔ میں اتفاقاً اُس میٹنگ میں موجود تھا۔ شہباز شریف نے غصے میں طالبان پر الزام لگایا کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو افغانستان میں محفوظ ٹھکانے فراہم ہوتے ہیں۔ ایک طبقہ طالبان کا حامی تھا۔ اس بیان پر شہباز شریف کے خلاف طوفان اُٹھا۔ حقیقت کیا تھی، وہ ہمیں کورس میں شریک فارن آفس کے ایک افسر نے بتائی۔ اُن کے مطابق جب کبھی ہمارا وفد طالبان سے فرقہ وارانہ دہشت گردی کے ملزمان کی حوالگی کا مطالبہ کرتا تو رسمی طور پر طالبان اُنہیں پکڑنے کا وعدہ کرتے، مگر غیر رسمی طور پر سفارت کاروں کو بتاتے کہ پتا نہیں آپ کی حکومت یہ مطالبہ کیوں کرتی ہے، کیونکہ افغان حکومت کی نظر میں تو یہ لوگ ''گنہگار‘‘ ہی نہیں۔
ایک موقعہ پر طالبان نے بدھ مت کے مجسمے کو تباہ کرنے کا ارادہ کیا۔ دُنیا نے پاکستان سے درخواست کی کہ وہ طالبان کو سمجھائیں کہ وہ بامیان کی اس تاریخی یادگار کو تباہ کرنے سے باز رہیں۔ یہ مجسمہ دُنیا کی نظر میں ایک تاریخی ورثہ تھا۔ پاکستانی وفد ملا عمر سے ملا۔ اُنہیں قائل کرنے کے لیے دلیل دی کہ اسلامی تاریخ میں بت شکن کا لقب پانے والا محمود غزنوی بھی علاقے کا حکمران رہا، مگر اُس نے بھی اِس مجسمے کو تباہ نہیں کیا تھا۔ اُن سے درخواست کی گئی کہ آپ بھی درگزر کیجئے۔ ملا عمر نے یہ کہہ کر میٹنگ ختم کر دی کہ محمود غزنوی کے پاس ''بارُود ‘‘ نہیں تھا۔
جب امریکہ نے افغانستان میں بمباری شروع کی تو عام خیال تھا کہ حکومت کو سخت عوامی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مگر چند دن احتجاج ہونے کے بعد حالات معمول پر آ گئے۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ جتنا باور کروایا جاتا تھا‘ طالبان کی حکومت عوام میں اُس قدر مقبول نہ تھی۔ طالبان بہت سے معاملات میں بے لچک رویہ اپناتے تھے۔
اس حوالے سے ایک روز پاکستانی فوج کے سابق سربراہ، جناب جہانگیر کرامت کے خیالات سننے کا موقع ملا۔ سٹاف کالج میں اہم شخصیات کو لیکچر کے لیے دعوت دی جاتی ہے۔ تعلیم کا یہ پہلو کورس کے شرکا کے لیے بہت پرکشش ہوتا ہے۔ جنرل صاحب کے لیکچر کا موضوع قومی سلامتی تھا۔ اُنہوں نے خطے کی صورتِ حال کا ماہرانہ انداز میں احاطہ کیا۔ ہمارے پرنسپل طارق سلطان مرحوم نے افغانستان اور امریکہ کی جنگ کا موازنہ افغانستان میں انگریزوں کی فوج کشی سے کیا۔ اُن کا سوال تھا کہ کیا امریکی جنگ کا انجام مختلف ہو گا یا اُسے بھی برطانوی فوج کی طرح ہزیمت اٹھانا پڑے گی؟ جنرل جہانگیر کرامت نے طارق سلطان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو اِس جنگ سے فوراً نکل جانا چاہئے۔ ایک اور سوال کے جواب میں اُنہوں نے رائے دی کہ طالبان پاکستان کے لیے کبھی بھی اثاثہ نہ تھے۔ اُن کا اقتدار صرف اس لحاظ سے فائدہ مند تھا کہ وہاں امن قائم ہو گیا۔ مگر اُن کے خیال میں اِس بات کا کیا علاج کہ افغانستان، بین الاقوامی برادری میں ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے قبول نہیں کیا گیا۔
جنرل جہانگیر کرامت کے لیکچر میں مسئلہ کشمیر اور ہندوستان سے تعلقات بھی زیر غور آئے۔ اُن دنوں کشمیر میں جہاد کے لیے کھلے بندوں بھرتی ہوتی تھی۔ عوام اِس کارِ خیر میں حصہ ڈالنے کے لیے بیتاب تھے۔ مختلف تنظیمیں مساجد میں پمفلٹ تقسیم کرتی تھیں۔ کئی تنظیمیں اپنے کارناموں کو اجاگر کرنے کے لیے باقاعدہ روڈ شو منعقد کرتیں۔ عوام اُنہیں دل کھول کر عطیات دیتے۔
نائن الیون کے بعد جہاد کا تصور دُنیا کے لیے عموماً اور امریکہ کے لیے خصوصاً ایک ناقابلِ قبول علامت بنا تو القاعدہ کے ساتھ، جہادی تنظیموں کے خلاف تیز و تند بیانات آئے۔ ہندوستان کی قیادت بار بار دُنیا سے یہ شکایت کرتی کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف حلیف کیسے بن سکتا ہے جبکہ اُس کی سرزمین پر دہشت گردی کے اڈے قائم ہوں۔ اِس تناظر میں جنرل جہانگیر کرامت سے ایک تیکھا سوال پوچھا گیا کہ کشمیر میں جہاد کرنے والی تنظیموں کا مستقبل کیا ہو گا۔ جنرل صاحب تھوڑی دیر سوچتے رہے۔ بولے تو محسوس ہوا کہ اُنہیں اپنی معاملہ فہمی پر پورا اعتماد ہے۔ اُنہوں نے کہا، ''اِن تنظیموں کے بارے میں ہمیں اپنی پالیسی تبدیل کرنی پڑے گی۔‘‘ پھر پوچھا گیا کہ اُن کے خیال میں پالیسی تبدیل ہونے کے لیے کتنی مدت درکار ہو گی؟ اُنہوں نے کچھ سوچ کر کہا ''صرف چند سال۔ دُنیا تبدیل ہو گئی ہے۔ اِس سے زیادہ مہلت نہیں ملے گی‘‘۔
اس واقعے کے پندرہ سال بعد 2016ء میں جنرل جہانگیر کرامت سے ملاقات ہوئی۔ ایک بین الاقوامی کمپنی کے سالانہ عشائیے میں جنرل علی قلی اور جنرل جہانگیر کرامت اکٹھے بیٹھے تھے۔ دونوں شخصیات بہت قابل احترام ہیں۔ جنرل علی قلی خان سے پرانی نیازمندی ہے۔ جب وہ سیالکوٹ میں میجر جنرل تھے تو میں وہاں ڈپٹی کمشنر تھا۔ اُن سے ملاقات کرنے کے بعد میں نے جنرل جہانگیر کرامت کو سٹاف کالج میں 2001ء کا لیکچر یاد دلایا۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ دُنیا ہمیں چند سال سے زیادہ مہلت نہیں دے گی۔ جنرل جہانگیر کرامت کو لیکچر یاد تھا۔ وہ تھوڑی دیر میری طرف دیکھتے رہے، پھر کہنے لگے ''پالیسی تو زائدالمیعاد ہو چکی ہے‘‘۔ اُن کا انداز ایسا تھا کہ اس موضوع پر مزید گفتگو کی گنجائش باقی نہ رہی۔
گزشتہ سالوں میں، ہیلری کلنٹن پاکستان آتی تو ہمیں ایک ساس کی طرح طعنے دیتی۔ اُس کے مطابق ہم گھر کے پچھواڑے میں سانپ پالتے ہیں۔ وہ میڈیا پر برملا کہتی کہ یہ سانپ دشمن کے علاوہ آپ کو بھی ڈس سکتے ہیں۔ ہندوستان ہر بین الاقوامی فورم پر پاکستان کو دہشت گردی کا منبع قرار دیتا رہا۔ مودی کے حکومت سنبھالنے کے بعد اس مہم میں تیزی آئی۔ ہندوستان کے الزامات کی ہمیں خاص پروا نہ تھی اور نہ اب ہے‘ مگر آہستہ آہستہ دوستوں کی رائے بھی بدل گئی۔ پہلے Heart of Asia Conference میں اس قسم کی بات ہوئی اور آج کل BRICS تنظیم کے اعلامیے پر میڈیا میں بحث ہو رہی ہے۔ چین BRICS تنظیم کا اہم رکن ہے اور ہمیشہ ہمارے مؤقف کی طرف داری کرتا رہا ہے۔ اُس کے رویے میں تبدیلی ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ بدلتے ہوئے بین الاقوامی حالات سے نپٹنے کے لیے وزیرِ خارجہ ،خواجہ آصف نے بیان دیا کہ ہمیں اپنے گھر کی صفائی کرنا ہو گی۔ اُن کے ناقدین نے اس بیان کو وطن دشمنی پر محمول کیا۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے خواجہ آصف کا ساتھ دیا۔ میڈیا میں ہر روز اس بیان پر بحث ہوتی رہی۔ وزارتِ خارجہ کے ایک صاحب علم، دوست سے بات ہوئی۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ جنرل جہانگیر کرامت نے ایک سال پہلے ہماری پالیسی کو زائدالمیعاد قرار دیا تھا۔ اُس دانشور نے میری بات سنی اور پھر ایک جنونی قہقہہ لگا کر کہا ''جس ملک میں جان لیوا زائدالمیعاد دوائیاں کھلے بندوں بک رہی ہوں وہاں پالیسیاں بھی زائدالمیعاد ہونے پر متروک نہیں ہوتیں‘‘۔