آئی ایم ایف کی پیش گوئی ہے کہ مالی سال 2016-17ء میں بھارتی معیشت کی شرح نمو 7.4 رہے گی۔ یوں بھارت دنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت بن جائے گا ۔ بھارت نے ہمارے ساتھ ہی برطانوی راج سے آزادی حاصل کی تھی۔ آزادی کے بعد بھارتی معیشت کمیونزم سے متاثر رہی جس کی بڑی وجہ مہاتما گاندھی کا بھارتی دیہات کے لئے ایک خودکفیل کمیون سسٹم کا تصور تھا ۔1990 ء تک بھارتی معیشت پر ریاستی اثرو رسوخ کا غلبہ رہا ، کھلی منڈی کی بین الاقوامی تجارت ناپسندیدہ رہی اور آزاد مارکیٹ کی معیشت کو گناہ سمجھا جاتا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ قیام بھارت کے بعد تاجروں کی ایک میٹنگ تھی جس کی صدارت جواہر لعل نہرو کر رہے تھے۔ ایک تاجر نے شرح منافع کی بات کی تو جواہر لعل نہرو کو انتہائی ناگوار گزرا اور وہ گویا ہوئے۔ ''مجھ سے نفع کی بات نہ کرو ، یہ ایک گندا لفظ ہے ‘‘۔
جب تک بھارت کی معیشت روایتی اور ریاستی جبر کے ماتحت رہی ، غربت کی شرح میں بھی اضافہ رہا اور شرح نمو بھی کم رہی ۔ بھارت کی سست ترین شرح نمو کو پوری دنیا میں ہندو گروتھ ریٹ کہا جاتا تھا۔ 1991ء میں پوری بھارتی معیشت بحران کی لپیٹ میں تھی اور حکومت دیوالیہ ہونے کے قریب تھی۔ تب بھارت نے بین الاقوامی فنانشل مارکیٹ کی طرف رجوع کیا اور اپنی مارکیٹ کو اوپن کیا ۔ پالیسی میں اس تبدیلی کا کریڈٹ من موہن سنگھ کو جاتا ہے جو اس وقت وزیر خزانہ تھے ۔
انیس سو اکانوے بھارت کے لئے انویسٹمنٹ اور تجارت کے اعتبار سے نئے عہد کا آغاز ہے۔ 1991ء میں غربت کی شرح 45 فیصد تھی جو دو ہزار بارہ میں 22 فیصد اور دو ہزار پندرہ میں MMRP شماریاتی طریقہ کار کے مطابق 12.4 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ غربت میں کمی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور بھارت پرامید ہے کہ وہ جلد ہی کم سے کم غربت کی شرح پر ہو گا۔ 1991ء کے بعد کا عہد بھارت کے لئے صنعتی انقلاب کا عہد ہے جس نے اس کی معیشت سیاست اور ثقافت کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہ بھارت کے لئے ناگزیر تھا ورنہ بڑھتی ہوئی آبادی بھارتی سماج کو مزید پسماندگی کی طرف دھکیل جاتی۔ اس سے مزید محرومیوں کو جنم ملتا اور ملکی اتحاد قائم نہ رہ پاتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ 1991 ء کے بعد بھارتی وفاق پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا ہے اور بھارت کے پوری دنیا میں اثرورسوخ میں اضافہ ہوا ہے ۔
پاکستان کی طرف آئیے ۔ ہماری اس وقت آبادی 195 ملین ہے (پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے )۔ بچوں کی شرح پیدائش حیران کن طور پر 3.8 فیصد ہے جو بہت ہی زیادہ ہے ۔ اگر آبادی میں اسی شرح پیدائش سے اضافہ ہوتا رہا تو پاکستان آبادی کے اعتبار سے 2050 ء تک دوسرا چین بن جائے گا ۔ اس وقت بھی فکر کی جو بات ہے وہ یہ کہ ہماری کل آبادی کا نصف سے بھی زائدحصہ تیس سال سے کم عمر کے بچوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں نوجوان نسل کی معیشت یعنی روزگار کا ہم کیسے انتظام کر پائیں گے ؟ یہ وہ سوال ہے جسے ہماری قومی پالیسی کی ترجیحات میں ہونا چاہئے ۔
اس سلسلے میں ایک بنیادی بات سمجھنا ضروری ہے وہ یہ کہ روزگار کے مواقع صرف اور صرف مارکیٹ میں پیدا ہوتے ہیں۔ پوری دنیا میں معیشت کا ایک بھی کامیاب ماڈل ایسا نہیں جہاں حکومت نے شہریوں کو روزگار مہیا کیا ہو ۔ تمام ترقی یافتہ ممالک کی معیشت اور روزگار پرائیویٹ سیکٹر یعنی مارکیٹ پر انحصار کرتا ہے۔ یہی کہانی ہمارے پڑوسی ممالک چین اور بھارت کی ہے ۔ جب مارکیٹ کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے تو نہ صرف کل معیشت کے پھیلنے پھولنے سے حکومت کو ٹیکسز زیادہ اکٹھے ہوتے ہیں جس سے وہ عوامی بہبود کے کام کر سکتی ہے تو دوسری طرف روزگار اور مزید کاروبار کے اسباب پیدا ہوتے ہیں ۔ پاکستان کی اس بہت زیادہ پھیلتی ہوئی آبادی کے روزگار کے لئے ہمیں مارکیٹ سرگرمیوں میں سات فیصد سالانہ سے زائد شرح نمو کی اشد ضرورت ہے جس کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک میں صنعتی انقلاب برپا کریں ۔ گزشتہ سال ہماری قومی پیداوار میں 4.7 فیصد کا اضافہ ہوا جو کہ دو ہزار آٹھ سے دو ہزار پندرہ تک کی بڑی شرح ہے مگر یہ ناکافی ہے ۔ بھارت اس سلسلے میں ہمارے لئے ایک بہترین کیس اسٹڈی ثابت ہو سکتا ہے جس کے زمینی حقائق ہم سے تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے ملتے جلتے ہیں۔
ہمیں اپنی معیشت میں صنعتوں کے حجم میں اضافہ کرنا ہو گا۔ صنعت کاری کا ملکی معیشت میں سب سے اہم کردار ہے۔ غور کیجئے کہ پاکستان میں زرعی شعبہ سب سے زیادہ افرادی قوت (42.3 فیصد ) کھینچے ہوئے ہے مگر ملک کی کل پیداوار میں اس کا حصہ سب سے کم یعنی 19.82 فیصد ہے ۔ صنعتوں میں سب سے کم افرادی قوت خرچ ہو رہی ہے مگر ملک کی کل پیداوار کو سب سے زیادہ ویلیو اسی شعبہ سے مل رہی ہے اور باقاعدہ ٹیکس کی بنیاد پر سب سے زیادہ ریونیو حکومت اسی شعبے سے حاصل کرتی ہے جب کہ اس کے مقابلے میں زرعی شعبہ نہ صرف ٹیکسز کی مد میں کوئی ریونیو نہیں دے رہا بلکہ الٹا سبسڈی پر پل رہا ہے ۔ جدید علم و ثقافت کی طلب صنعتی شعبے کو ہے جبکہ زرعی شعبہ ہنوز روایتی اور عہد حاضر کے تناظر میں غیر متمدن ہے۔
پاکستان میں صنعتی انقلاب کی واحد صورت یہ ہے کہ کاروبار میں کارجوئی یعنی Entrepreneurship کے لئے سازگار ماحول پیدا کیا جائے ۔ نئے کاروبار پیدا ہوں ، پھلے پھولیں ، ہماری کل پیداوار بڑھائیں اور روزگار کے اسباب پیدا کریں ۔ اس کے لئے آزاد اور اوپن مارکیٹ اشد ضروری ہے جس میں اجارہ داریاں، کارٹل اور ضرورت سے زائد حکومتی مداخلت نہ ہو۔ اس وقت پاکستانی مینوفیکچرنگ سیکٹر میں چھوٹے اور درمیانے بزنسز کا حصہ محض 6.7 فیصد اور 13.12 فیصد بالترتیب ہے۔ (پاکستان اکنامک سروے 2015-16ء اس کا مطلب ہے کہ نئے کاروبار پیدا ہی کم ہو رہے ہیں جو ترقی پا کر بڑے کاروبار بن سکیں ۔ اس کی وجہ نئے کاروبار میں بہت ساری غیر ضروری سرکاری رکاوٹیں ہیں ۔ آئی سی سی کے اوپن مارکیٹ انڈیکس میں پاکستان سے متعلق اشارے اسے ایک پسماندہ اور بند مارکیٹ کے طور پر ظاہر کرتے ہیں ۔
اس سب کچھ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت اپنی انتظامی ذمہ داریوں کی طرف مکمل توجہ دے اور معاشی سرگرمیاں مارکیٹ کے حوالے کر دے ۔ خبر ہے کہ گزشتہ ماہ حکومت نے 786 ارب کا قرض اسٹیٹ بنک سے حاصل کیا ۔ سال 2015ء میں کل 1,364 ارب روپے کا قرض حکومت نے مقامی مارکیٹ سے لیا ۔ دوسری طرف گورنمنٹ یہ دعویٰ بھی کر رہی ہے کہ وہ اب آئی ایم ایف سے کوئی قرض نہیں لے گی اور اسے ایک بڑی سیاسی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کا مقامی بنکوں سے لیا گیا قرض دراصل پرائیویٹ سیکٹر کو آسان قرض سے محروم رکھنے کے مترادف ہے اور یہ پالیسی ایک عرصے سے چلی آ رہی ہے کہ حکومت کو جب بھی پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور بین الاقوامی ادارے قرض دینے پر تیار نہیں ہوتے تو حکومت مقامی بنکوں سے یا اسٹیٹ بنک سے نوٹ چھاپ کر اپنی ضرورت پوری کرتی ہے جس کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے لئے قرض حاصل کرنا مشکل اور مہنگا ہو جاتا ہے تو دوسری طرف مارکیٹ میں زیادہ پیسہ آ جانے سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ حکومت کو یہ پالیسی فی الفور بدلنی ہو گی ، اپنے اخراجات انتہائی حد تک کم کرنے ہوں گے اور معاشی سرگرمیاں کھلی مارکیٹ کے حوالے کرنی ہوں گی ۔
دنیا میں کوئی بھی ایسا معاشرہ نہیں جو چیلنجز کا سامنا نہ کر رہا ہو۔ انسانوں کے معاشرہ میں چیلنجز اور امکانات یقینی ہیں ۔ معاشروں کا امتحان یہ ہوتا ہے کہ وہ ان مسائل کو کیسے رسپانس کرتے ہیں مثبت رسپانس مثبت نتائج پیدا کرتے ہیں اور منفی ردعمل کے نقصان دہ نتائج ہوتے ہیں ۔ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے مسائل کی شناخت اور تجزیہ کریں اور ان کے حل میں جامع منصوبہ بندی کی جائے ۔ ہمیں طے کرنا ہو گا کہ ہم اسی طرح پسماندہ رہنا چاہتے ہیں یا خوشحال و ترقی یافتہ بننا چاہتے ہیں ؟ اگر جواب خوشحالی ہے تو ہمیں غربت کے نوحے پڑھنے کے بجائے خوشحالی کی سائنس کو سمجھنا ہو گا ۔ ترقی یافتہ دنیا سے سیکھنا ہو گا ،اپنے رویوں پر نظرثانی کرنی ہو گی اور امن و سلامتی کی خوشبو میں شہریت کے اس سفر کو کامیاب کرنا ہو گا ۔ مشکل مرحلہ اپنا محاسبہ ہوتا ہے اس کے بعد غلطیوں کی ضد سے احتراز اور بہترین ردعمل سے کامیاب مستقبل کی طرف مستقل مزاجی سے گامزن رہنا ہے ۔ یقین ہے کہ ہم سب بھی دنیا میں باوقار ہوں گے کیونکہ نہ ہماری ثقافت بنجر ہے اور نہ امکانات سے یہ دھرتی محروم ہے۔ ہمارا فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔