ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

چینی صدر کا دورۂ روس …(2)

تحریر: کرس بکلے

صدر شی جن پنگ اور صدر پوتن کے میڈیا پرسنز نے ان کے تعلقات کو برادرانہ بانڈ کے طور پر پیش کیا ہے جنہیں چالیس سے زائد ملاقاتوں کے دوران مشروبات، برتھ ڈے کیک اور آئس کریم کے ذریعے مزید پختہ کیا گیا ہے؛ تاہم صدر شی جن کے روس کے بارے میںخیالات محض جذبات نہیں بلکہ چین کے وسیع تر تزویراتی تصورات پر مبنی ہیں جو مستقل نوعیت کے حامل ہیں‘ یوکرین جنگ کے نتائج خواہ کچھ بھی برآمد ہوں۔ صدر شی نے حال ہی میں اپنے نظریات کو بڑے واشگاف انداز میں بیان کیا ہے وہ یہ کہ امریکہ ہر طریقے سے چین کا محاصرہ کرنے اور اسے دبانے کی پالیسی پر کارفرما ہے اور اس مہم کے دوران وہ چین پر معاشی، تجارتی پابندیوں اور سفارتی دبائو کا استعمال کرے گا‘ جو ان کے بقول‘ چین کے لیے غیر معمولی اور سنگین چیلنجز بن کر سامنے آئیں گے۔ مغربی دبائو سے نبرد آزما ہونے کے لیے چین خواہ یوکرین جنگ میں روس کے ساتھ ملوث نہ ہو مگر صدر شی جن دو طرفہ شراکت کو مضبوط اور محفو ظ کرنے کے لیے صدر پوتن کو ہر طرح کی سیاسی اور معاشی سپورٹ فراہم کریں گے۔

’’نو لمٹس: دی اِن سائیڈ سٹوری آف چائناز وار وِد دی ویسٹ‘‘ کے مصنف اینڈریو سمال کہتے ہیں کہ ’’صدر شی جن پنگ اپنے اس دورے کے ذریعے صدر پوتن کو بھرپور سیاسی سپورٹ کا عندیہ دے رہے ہیں اور یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ان کے باہمی تعلقات ان کٹھن حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں اور وہ مغرب کے توہین آمیز رویے کو بھی برداشت کرنے پر آماد ہ نظر آتے ہیں‘‘۔ چین نے اس امر کا عندیہ بھی دیا ہے کہ صدر شی اپنے اس دور ے کے دوران روس اور یوکرین کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ مغربی ممالک نے چین پر زور دیا ہے کہ وہ جنگ روکنے کے لیے روس پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ جن دنوں صدر شی جن پنگ نے روس کا دورہ کیا‘ عین انہی دنوں جاپان کے وزیراعظم فومیو کشیدا نے یوکرین کو سپور ٹ کرنے کے لیے کیف کا دورہ کیا؛ چنانچہ چین کا یہ خدشہ قوی ہو گیا ہے کہ عالمی محاذ آرائی میں اضافے کے علاوہ اس جنگ کا ایک ہدف چین بھی ہے۔ چونکہ امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات روبہ زوال ہیں اس لیے اب روس کے ساتھ مضبوط تعلقات چین کی ضرور ت بن گئے ہیں۔ اگرچہ صدر شی جن پنگ صدر جو بائیڈن کے ساتھ بھی مضبوط تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں مگر ایک سال میں رونما ہونے والے واقعات نے چینی صدر کو محتاط رویہ اپنانے پر مجبور کر دیا ہے۔ چینی حکام نے جدید سیمی کنڈکٹرز تک چین کی رسائی پر عائد پابندیوں کی نشاندہی کی ہے جن کی چین کو سپر کمپیوٹرز اور اسلحہ کی تیاری میں اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے امریکہ اور برطانیہ کی ان کوششوں کی بھی مذمت کی ہے جو وہ آسٹریلیا کو ایٹمی آبدوزوں کی تیاری میں مدد دینے کے لیے کر رہے ہیں تاکہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا راستہ روکا جا سکے۔

جب صدر شی جن پنگ کا روس کا سرکاری دورہ اپنے اختتام کو پہنچا تو چین کے وزیر خارجہ نے اس دورے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان جاری کیا ہے کہ ’’آج کی دنیا میں جو بڑا تضاد پایا جاتا ہے‘ وہ یہ نہیں کہ جمہوریت اور آمریت کے درمیاں کوئی نام نہاد محاذ آرائی اور کشیدگی پائی جاتی ہے جیسا کہ چند مٹھی بھر ممالک اسے ایسا پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ یہ اصل جنگ ترقی کے حامیوں اور ترقی کی راہ روکنے والوں کے درمیان ہو رہی ہے‘‘۔ واشنگٹن میں قائم سنٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں فری مین چیئر اِن چائنا سٹڈیز کے صدر نشیں جوڈ بلینشٹ کا کہنا ہے کہ ’’بیجنگ اپنے عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ امریکہ چین کی مسلسل جاری ترقی اور عروج کو روکنے کے لیے کثیر جہتی کوششیں کر رہا ہے‘‘۔ صدر شی جن پنگ جو ’’چاروں طرف سے محاصرے‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں‘ دراصل یہ کہنا چاہتے ہیں کہ چین کی ترقی کی رفتار کو سست کرنا، جدید ٹیکنالوجی تک چین کی رسائی کو روکنا اور چین کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو سبوتاژ کرنا‘‘۔ اس نقطۂ نظر کو پیش نظر رکھیں تو یہ لگتا ہے کہ یوکرین روس کی بلا اشتعال جنگ کا نشانہ بننے کے بجائے دراصل امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی روس کے خلاف ایک پراکسی جنگ کا ہدف بنا ہے اور اگر اسے مزید توسیع دے کر دیکھا جائے تو یہ جنگ روس سے بڑھتی ہوئی چین تک چلی جاتی ہے۔ اس جنگ کا واحد مقصد دنیا میں امریکی بالادستی کا دوبارہ نفاذ کرنا ہے۔ چین کے ریاستی اداروں اور پیپلز لبریشن آرمی کے تجزیہ کاروں نے کامیابی سے یہی تجزیہ دنیا میں پھیلایا ہے۔ چین کی نیشنل یونیورسٹی آف ڈیفنس ٹیکنالوجی کے ایک پروفیسر یانگ گوانگ ہائی نے جنگ کی ایک حالیہ سٹڈی میں لکھا ہے کہ ’’روس اور یوکرین کے درمیان جنگ اور کشیدگی کا یوں اچانک پھوٹ پڑنا امریکی حکومت کی ایک طویل مدتی حکمت عملی کا حصہ ہے‘‘۔

کیا صدر شی جن پنگ روس اور یوکرین کے درمیان مصالحت اور سہولت کاری کے لیے آمادہ ہو سکتے ہیں‘ اس امر کا امکان بڑی حد تک محدود ہے کیونکہ صدر شی جن روس اور صدر پوتن کے ساتھ ثابت قدم رہنے کے لیے پُرجوش اور پُرعزم ہیں۔ صدر پوتن کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے بعد صدر شی جن پنگ شاید یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی سے بھی ملنے کے تیار ہو جائیں۔ یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد یہ صدر شی کی صدر زیلنسکی کے ساتھ پہلی بات چیت ہو گی۔ بفرض محال اگر ایسا ہو جاتا ہے تو چین نے اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے جو امن تجاویز تیار کر رکھی ہیں‘ اس بات کا خفیف سا امکان بھی نہیں کہ یوکرین انہیں قبول کرنے پر تیار ہو، کیونکہ ان تجاویز میں نیٹو کے خلاف روس کے گلے شکوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے؛ چنانچہ یوکرین کے دعوے محدود اور کمزور پڑ جائیں گے۔ اپنے مشترکہ اعلامیے میں صدر شی اور صدر پوتن‘ دونوں نے نیٹو کے ایشیا پر ضرورت سے زیادہ توجہ مرکوز کرنے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ دونوں رہنمائوں نے چین اور روس کے باہمی تعلقات کو مغرب کے روایتی ملٹری اتحاد سے کہیں زیادہ مستحکم اور مؤثر قرار دیا ہے کیونکہ یہ زیادہ میچور، مضبوط، آزاد اور لچکدار ہیں۔ چین کی سرکاری نیوز ایجنسی ’’سن ہا‘‘ نے ایک آرٹیکل میں وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دونوں ممالک کیوں کوئی ایسا اتحاد قائم نہیں کرتے جو انہیں جنگ کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کرنے پر مجبور کرے۔ بعض قارئین نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا۔ ایک قاری نے اپنے کمنٹ میں لکھا کہ ’’یہ محض زبانی کلامی بات ہے کہ ہم اتحادی نہیں ہیں‘‘۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement