ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ڈی این اے کی دریافت پر نئی بحث …(2)

تحریر: ایمیلی انتھیس

مالیکیولر بیالوجسٹ میکس پیروٹز کیمرج یونیورسٹی میں ڈاکٹر جیمز واٹسن اور ڈاکٹر کرِک کے سپروائزر تھے۔ دسمبر 1952ء میں وہ ایک سرکاری وزٹ پر کنگز کالج لندن گئے تو انہیں وہاں سے ایک رپورٹ ملی جو ڈاکٹر روزالنڈ فرینکلن کی ڈی این اے پر ریسرچ کے ان نتائج سے متعلق تھی جو ابھی تک کسی جرنل میں بھی شائع نہیں ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر پیروٹز نے یہ رپورٹ ڈاکٹر کرک اور ڈاکٹر واٹسن کو دے دی۔ ڈاکٹر کاب اور ڈاکٹر کمفرٹ کو ایک خط ملا جس سے انہیں یہ معلوم ہو ا کہ ڈاکٹر روزی کو بھی اس بات کا علم ہو گیا تھا کہ اس کی ریسرچ کے نتائج کیمرج یونیورسٹی پہنچ گئے ہیں۔ اس رپورٹ میں جو ڈیٹا دیا گیا تھا وہ ڈاکٹر واٹسن اور ڈاکٹر کرک کے لیے فوٹوگراف 51 سے بھی زیادہ مفید ثابت ہوا۔ یہ خط جو جنوری 1953ء میں لکھا گیا تھا‘ اس کے مطابق کنگز کالج کی ایک سائنس دان پالین کواَن نے ڈاکٹر کرک کو آنے والے دنوں میں ڈاکٹر روزی اور ان کی سٹوڈنٹ کے ساتھ ایک مذاکرے میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔ ڈاکٹر کواَن نے لکھا ’’مگر ڈاکٹر روزی اور ان کی سٹوڈنٹ کا تو کہنا ہے کہ ڈاکٹر پیرٹوز تو پہلے ہی ان سے زیادہ جانتے ہیں‘ اس لیے ڈاکٹر کرک کے آنے کا کوئی زیادہ فائدہ نہیں ہوگا‘‘۔ ڈاکٹر کاب مزید لکھتے ہیں کہ اس خط سے بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ ڈاکٹر روزالنڈ فرینکلن کو اس بات کا علم تھا کہ کیمرج کے ریسرچرز کو ان کی ڈی این اے پر ریسرچ کے ڈیٹا اورنتائج تک رسائی مل چکی ہے اور ’ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اس بات کو زیادہ مائنڈ بھی نہیں کیا تھا‘۔

ڈاکٹر کاب اور ڈاکٹر کمفرٹ کو ٹائم میگزین کے آرٹیکل کا ایک ایسا ڈرافٹ بھی مل گیا تھا جو کہیں شائع نہیں ہوا تھا اور یہ ڈبل ہیلکس کی دریافت سے متعلق تھا۔ یہ ڈرافٹ ریسرچ میں مسابقت کا باعث نہیں تھا بلکہ یہ دو ٹیموں کی ریسرچ کی پروڈکٹ تھا جو اپنی اپنی جگہ ڈی این اے پر کام کر رہی تھیں اور کبھی کبھی آپس میں رابطے میں بھی رہتی تھیں۔ ڈاکٹر کمفرٹ لکھتے ہیں کہ ’اس سے ڈبل ہیلکس پر ہونے والے کام کی عکاسی ہوتی ہے کہ اس ریسرچ میں چار افراد کا برابر کاحصہ ہے‘۔ اب ہم ا س سوال کی طرف آتے ہیں کہ اس دریافت کا کریڈ ٹ کسے جاتا ہے؟ ایلزپتھ گارمین یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں مالیکیولر بائیو فزیسسٹ ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ وہ ڈاکٹر کمفرٹ اور ڈاکٹرکاب کے نتائج سے اتفاق کرتی ہیں، ان کے الفاظ ہیں کہ ’وہ درست سمجھے ہیں کہ ڈاکٹر روزالنڈ بھی ان کی ریسرچ میں ان کے ساتھ برابر کی حصہ دار تھیں‘۔ لیکن ڈاکٹر پیرٹوز کا ڈاکٹر روزالنڈ کے غیر شائع شدہ ڈیٹا کو ڈاکٹر واٹسن اور ڈاکٹر کرک کے ساتھ شیئر کرنا قدرے اتفاقیہ لگتا ہے۔ (1969ء میں ڈاکٹر پیرٹوز نے لکھا کہ ڈاکٹر روزالنڈ فرینکلن کی ڈیٹا رپورٹ خفیہ نہیں تھی مگر اخلاقیات کا تقاضا تھا کہ اسے شیئر کرنے سے قبل مجھے ان سے اجازت لینی چاہئے تھی)۔

پھر بھی دوسرے سائنسدان اور مورخین کہتے ہیں کہ وہ جرنل ’نیچر‘ کے آرٹیکل میں دیے گئے دلائل پر حیران ہیں۔ رٹگر یونیورسٹی میں سٹرکچرل بیالوجسٹ ہیلن برمن نے اس بات کو ’عجیب‘ قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر روزی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ ڈی این اے کے بارے میں اس دریافت میں برابر کی ممبر تھیں تو میں نہیں سمجھتی کہ ان کے ساتھ کوئی اچھا سلوک کیا گیا ہے‘۔ ڈاکٹر روزی اور ڈاکٹر ولکنز نے بھی اپنی دریافت کے نتائج جرنل نیچر کے اسی شمارے میں شائع کرائے تھے جس شمارے میں ڈاکٹر واٹسن اور ڈاکٹر کرک کی رپورٹ شامل تھی۔ لیکن ڈاکٹر برمن سوال کرتی ہیں کہ تو پھر سائنسدانوں نے کسی ایک صفحے پر بھی اس دریافت کے مشترکہ مصنف ہونے کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ کئی دوسرے سکالر ز کا کہنا تھا کہ ان کا خیال ہو گا کہ نئے مضمون سے کیمبرج ٹیم کی غلط کاری میں کمی آ جائے گی۔ ڈاکٹر کمفرٹ نے کہا کہ وہ اور ڈاکٹر کاب ڈاکٹر واٹسن اور ڈاکٹر کرک کو اس غیر اخلاقی حرکت پر بری الذمہ کرنے کی کوشش نہیں کر رہے جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ڈاکٹر روزی کے ریسرچ ورک اور ڈیٹا کا اعتراف کرنے میں قدرے تساہل سے کام لیا تھا۔ ڈاکٹر کاب کہتے ہیںکہ کیمبرج کے سائنسدانوں کو ڈاکٹر روزی کو بتا دینا چاہئے تھا کہ وہ ان کا ڈیٹااستعمال کر رہے ہیں۔ ان کے الفاظ ہیںکہ ’’انہوں نے اخلاقیات کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انہوں نے اتنے کھلے دل کا مظاہرہ نہیں کیا جتنا کہ انہیں کرنا چاہئے تھا مگر یہ چوری نہیں ہے‘‘۔مورخین کی رائے ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ڈاکٹر روزی کے ساتھ یہ جو کچھ ہوا وہ اس پر رنجیدہ ہوئی ہوں۔ اپنی سینتیس برس کی مختصر سی زندگی کے آخری ایام میں ان کے کیمبرج کے سائنسدانوں کی اس جوڑی کے ساتھ بڑے دوستانہ مراسم تھے۔ ڈاکٹر اوشنسکی کہتے ہیں کہ ’’جہاں تک میں بتا سکتا ہوں ان کے دل میں کوئی برے احساسات نہیں تھے‘‘۔ تاہم کئی دوسرے سکالرز کی رائے ہے کہ اگر ڈاکٹر روزی زندہ ہوتی اور انہیں ’دی ڈبل ہیلکس‘ پڑھنے کا موقع ملتا تو ان کے خیالات ضرور بدل جاتے۔ ڈاکٹر ایلزبتھ گارمین کہتی ہیں کہ ڈاکٹر واٹسن اور ڈاکٹر کرک کی کتاب ’دی ڈبل ہیلکس‘ بہت خوفناک ہے۔ اس میں ڈاکٹر روزی کے بارے میں نامناسب باتیں کی گئی ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ان کا ڈیٹا تو اپنی کتاب میں استعمال کر لیا مگر انہیں وہ کریڈٹ نہیں دیا جس کی وہ مستحق تھیں۔

نلس ہانسن جرمنی کی ہینرک ہین یونیورسٹی ڈسل ڈارف میں میڈیسن کی ہسٹورین ہیں ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر روزی کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہوا کہ وہ سرطان کے مرض میں مبتلا ہو کر بہت جلد انتقال کر گئیں اور اس طرح وہ اس شاندار دریافت پر نوبیل پرائز حاصل نہ کر سکیں؛ تاہم نوبیل اسمبلی اگر چاہتی تو ان کے ریسرچ کارناموں کے اعتراف کے لیے کئی دیگر طریقے بھی استعمال کر سکتی تھی۔ جب ڈاکٹر جیمز واٹسن اور ڈاکٹر کرک نے اپنے اپنے ایوارڈز وصول کیے تو دونوں میں سے کسی نے بھی اس موقع پر ڈاکٹر روزی کا ذکرکرنا مناسب نہ سمجھا؛ تاہم جب ڈاکٹر ولکنز نے اپنا ایوارڈ وصول کیا تو انہوں نے ڈاکٹر روزی کو بھی یاد رکھا اور اپنی ریسرچ میں ان کے شامل ہونے کا بھی ذکر کیا۔ ڈاکٹر ہاورڈ مارکل یونیورسٹی آ ف مشی گن سے وابستہ اور ’دی سیکرٹ آف لائف‘ کے مصنف ہیں، ان کی یہ کتاب ڈبل ہیلکس کے بارے میں ہے۔ ڈاکٹر مارکل کا کہنا ہے کہ ’’ڈاکٹر روزی کے ساتھ انصاف کا سلوک نہیں کیا گیا۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کے کام کا اعتراف کیا جائے اور اسے اس کا کریڈٹ دیا جائے۔ ہر کسی کو چاہئے کہ وہ اپنے کولیگز کے بارے میں سوچے اور اس امرکو یقینی بنائے کہ سب کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے‘‘۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement