ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

عالمی وبائیں ناگزیر نہیں

تحریر: جیسی پنو

بنی نوع انسان کا وجود دو لاکھ سال قدیم ہے۔ محض پانچ سو سال پہلے تک انسان کی روزمرہ زندگی کو متعدی امراض سے شدید خطرات لاحق تھے۔ محض کھانا کھانا یا پانی کا ایک گلاس پینا بھی خطرے سے خالی نہیں تھا۔ جب انسان شہروں کی اِن ڈور زندگی کی طرف شفٹ ہوا تو متعد ی بیماریاں اور وبائوں نے بھی باقاعدگی سے سوسائٹی کا رخ کر لیا۔ ایک وقت تھا کہ ہر تیس سال بعد انگلینڈ میں بڑ ی وبا پھیلتی تھی جس میں لندن کی آبادی کا پانچواں یا اس سے بھی زائد حصہ موت کے منہ میں چلا جاتا تھا۔ گالف کے بال کے سائز کی کالی گلٹیوں نے ملکہ ایلزبتھ اول کو اتنا خوف زدہ کر دیا تھا کہ وہ لندن چھوڑ کر اپنے دربار سمیت ونڈسر منتقل ہو گئی تھیں اور حکم جاری کر دیا کہ ان کے پیچھے آنے والے کو سزائے موت دے دی جائے گی۔ پوری انیسویں صدی کے دوران ہر ایک یا دو عشروں بعد ہیضے کی وبا پھوٹتی رہی۔ چیچک کے وجود کے آخری ایک سو سال کے دوران اس سے پچاس کروڑ افراد ہلاک ہو گئے۔

محض ایک صدی قبل ماہرین نے پیش گوئی کی تھی کہ بیماریوںکے ناگزیر پھیلائو کی وجہ سے ایسے شہروں میں زندگی برقرار رکھنا ممکن ہو گا جن کی آبادیاں لاکھوں میں ہیں؛ تاہم ٹیکنالوجیکل تبدیلیوں کی بدولت ترقی یافتہ دنیا میں وبائوں کی روک تھام ممکن ہو گئی ہے۔ ویکسین اور ادویات ہی نئی ایجادات ہیں جن پر ہم نے بیماریوں کی روک تھام کے لیے انحصار کیا ہے۔ اب تو شاید ہم صابن، ٹوائلٹ فلشنگ، صاف پانی کو بیماریوں کی روک تھام کرنے والی ٹیکنالوجی سمجھتے ہی نہیں ہیں مگر حقیقت وہ میں ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں وہ سستی اور وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔ یہ تمام ٹیکنالوجیز ان تمام بیماریوں کے خلاف لڑتی ہیں جن کے جراثیموں کے نام بھی ہمیں نہیں آتے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہیضہ جیسی بیماریاں آج بھی پھیلتی ہیں مگر ان کے پھیلائو کے پیچھے ٹیکنالوجی کے بجائے سیاسی عزم کا فقدان ہے۔

عالمی وبائوں کی روک تھام کی جدید ترین ٹیکنالوجیز ہماری دہلیز پر موجود ہیں اور ہماری ماحولیات میں ان ٹولز کے استعمال سے کووڈ 19 کو دنیا کی آخری وبا بنایا جا سکتا ہے۔ مگر ایسے مرحلے پر پہنچنے کے لیے ہمیں عالمی وبائوں کی روک تھا م کو اسی طرح اپنی سیاسی ترجیح بنانے کی ضرورت ہے جس کا مظاہرہ ہم نے کووڈ کے دوران کیا تھا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ SARS CoV-2 ہوا کے ذریعے ہمارے نظام تنفس میں داخل ہوتا تھا، عالمی وبا لوگوں میں علامات کے ظہور سے پہلے بھی پھیل سکتی ہے۔ ہمارے اِن ڈور لائف سٹائل کی وجہ سے ایسا ماحول بن گیا ہے جس کے ذریعے کوئی بھی وبا ہمارے نظام تنفس پر حملہ آور ہو سکتی ہے۔ صاف پانی اور صاف ہاتھ وائرس کو ہوائی جہازوں پر سیر کرنے سے یا پُرہجوم میوزک کنسرٹ، کلب یا ریستوران میں پھیلنے سے نہیں روک سکتے۔

ماضی کی طرح ہمیں ایسی ٹیکنالوجیز ایجاد کرنا پڑیں گی جو بنیادی طور پر ہمارے ماحول کو تبدیل کر دیں۔ اگرچہ آخری بڑی آتشزدگی کو عرصہ بیت چکا ہے مگر اب امریکہ میں تمام نئی بلڈنگز آتشزدگی کے امکان کو پیش نظر رکھتے ہوئے تعمیر کی جاتی ہیں۔ ہم ان میں پائپ کے ذریعے پانی اور سیوریج سسٹم مہیا کرتے ہیں۔ ان میں پانی گرم کرنے، فریج میں کھانا محفوظ کرنے کے لیے بجلی فراہم کی جاتی ہے اور کیڑے مکوڑوں سے بچائو کے لیے کھڑکیوں میں سکرین کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اب ہمارا ہدف یہ ہونا چاہئے کہ نظام تنفس کے ذریعے داخل ہونے والے وائرس کو بہر صورت اپنی میز سے دور رکھا جائے۔ اس کام کا آغاز صاف ہوا سے کرنا ہو گا۔ اِن ڈور ہوا کو صاف کرنے والی ٹیکنالوجی بہت تیزی سے خسرے جیسے جراثیموں کو روک سکے گی اور یہ ٹیکنالوجی اتنی سستی ہو گی کہ اسے ایسی جگہوں پر بہ آسانی استعمال کیا جا سکے گا جہاں زیادہ لوگ جمع ہوتے یا گزرتے ہیں۔ اس کام کی تکمیل کے لیے ہمیں بہتر وینٹی لیشن اور ہوا کی فلٹریشن سے ہٹ کر کوئی جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنا ہو گی۔ اس کے لیے لائٹ بلب استعمال کیے جا سکتے ہیں جو ایسی جراثیم کش ویو لینتھ (Wavelength) خارج کریں جو انسانوں کے لیے مضر نہ ہوں۔ اس طرح کی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے وائرس کا پھیلائو روکا جا سکتا ہے۔

بائیڈن حکومت نے وینٹی لیشن میں بہتری لانے کو اپنی ترجیح قرار دیا ہے؛ تاہم ایک پرانی وضع کے سسٹم کو بہتر بنانے سے عالمی وبائوں کو روکنا ممکن نہیں ہو گا۔ وبائوں سے لڑنے کے لیے ریسرچرز نے جدید ٹیکنالوجیز کی ایجاد میں کافی ترقی کر لی ہے۔ اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ کسی بھی متاثرہ شخص سے سیمپل لے کر اس میں موجود کسی بھی مائیکرو آرگنزم کے جینوم یعنی بیکٹیریا، وائرس یا فنگس کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ ہر طرح کے جراثیموں میں جینوم سے متعلق مواد ہوتا ہے اور اس کی سیکوئنسنگ کر کے اس مواد کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ طریقہ جسے میٹاجینومک سیکوئنسنگ کہا جاتا ہے جراثیم کی نشاندہی میں مددگار ہوتا ہے۔ ابتدا میں یہ ان مریضوں کی مانیٹرنگ کے لیے استعمال ہو گا جن میں موجود جراثیموں کے بارے میں ہمیں معلوم ہوگا یا ایسے کیڑے جنہیں ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔

بلاشبہ ویکسین کسی بھی وبا کی روک تھا م کا بڑا ذریعہ ہے اور mRNA ویکسین کے آنے سے تو ان میں ناقابل یقین بہتری آ گئی ہے۔ اب اس پر کام جاری ہے کہ کسی بھی عالمی وباء کے لیے ایک سو دن کے اندر اندر ویکسین فراہم کر دی جائے۔ اس وقت ایسی ویکسین بنانے پر کام جاری ہے جو کسی وائرس کے ہر گروپ کے خلاف مؤثر ہوگی جیسا کہ کورونا کا ہر طرح کا وائرس وغیرہ؛ تاہم نظام تنفس میں کسی بھی وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسین کو فوری طور پر یا ممکن ہو سکے تو پیشگی استعمال کرنا پڑے گا۔ امریکی حکومت مائیکرو نیڈل ویکسین پٹیوں اور ناک میں سپرے ہونے والی ویکسین کی تیاری پر سرمایہ کاری کر رہی ہے جسے مریض خود ہی استعمال کر سکے گا۔ اسے ہر گھر میں فوری طور پر فراہم کیا جا سکے گا، یوں کسی کلینک یا فارمیسی میںکسی تربیت یافتہ ہیلتھ کیئر ورکر کی ضرورت نہیں ہو گی۔ سائنسدان سمجھتے ہیں کہ جلد پر لگانے والی ویکسین کی پٹیاں یا ناک میں ہونے والا سپرے میوکوسل امیونٹی پیدا کر دے گا جسے اس وقت انجکشن کے ذریعے لگایا جاتا ہے اور زیادہ مؤثر بھی نہیں ہے۔ میو کوسل امیونٹی ہی وائرس کو ناک، منہ یا پھیپھڑوں میں میو کوس جھلی پر ٹھکانہ بنانے سے روکتی ہے جو انفیکشن کا باعث بنتا ہے۔

عالمی وبائوں کی روک تھام اکیسویں صدی کے لیے ایک مشکل اور بڑا چیلنج ثابت ہو گا؛ تاہم تاریخ کو پیش نظر رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے ہم نے کبھی متعدی امراض کے خلاف اتنی مستعدی اور رفتار کے ساتھ کام نہیں کیا جتنا آج کل ہو رہا ہے۔ اس وقت کرۂ ارض پر جتنے لوگ عالمی وبائوں کے خلاف ٹیکنالوجیز کی تیاری اور استعمال کے لیے کام کرنے میں مصروف ہیں‘ پوری انسانی تاریخ میں اتنے بڑے پیمانے پر اس شعبے میں اس سے پہلے کام نہیں ہوا۔ یہ حالیہ پیش رفت جس میں کووڈ کی وجہ سے بہت زیادہ تیزی آ گئی ہے اب اپنے نقطۂ عروج کی طرف جا رہی ہے۔ انقلاب پذیر (ٹرانسفرمیٹو) ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کرکے‘ جیسے ہم صحت عامہ پر کئی نسلوں سے کرتے آ رہے ہیں‘ ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ کووڈ 19 کو آخری عالمی وبا بنا سکیں۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement