ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

صدر کینیڈی کا قتل: عینی شاہد کے انکشافات …(2)

تحریر: پیٹر بیکر

مسٹر روبنالٹ کہتے ہیںکہ ’’وہ جو کچھ کہہ رہا ہے سچ ہے میں جس پر مکمل یقین کرنے کے لیے بھی تیار ہوں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ دوسرے شوٹر کے بارے میں پھر سے سوالات اٹھیں گے۔ جس گولی کو ہم میجک بُلٹ کہتے ہیں‘ صدر کینیڈی کی پشت میں جا کر رک گئی تھی۔اس کا مطلب ہے کہ وارن رپورٹ میں جو سنگل بُلٹ کی تھیوری پیش کی گئی تھی وہ غلط تھی‘‘۔اگر مسٹر کونلے کو بھی کوئی الگ گولی لگی تھی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اوسوالڈ نے نہیں چلائی تھی‘ وہ اتنی تیز ی سے گولی کو ری لوڈ بھی نہیں کرسکتا تھا۔

مسٹر مر لیٹی نے مسٹر لینڈس کو معروف مورخ اور ڈکسن یونیورسٹی کے صدر مسٹرکین گورملے کی طرف ریفر کر دیاجس نے ان کی کتاب کے لیے کوئی ایجنٹ تلاش کرنے میں مدد کی تھی۔مسٹر گورملے کہتے ہیںکہ مجھے اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ ایک صدمے سے دوچار شخص اتنے برسوں بعد منظر عام پر آئے گا ۔وہ مسٹر لینڈس کے انکشافات کا قانونی کیسز میں نزعی بیان کے ساتھ موازنہ کررہے تھے۔ مسٹرگورملے کا مزید کہنا تھا کہ ’’عمر کے آخری حصے میں لوگ اس طرح کے کام کرتے رہتے ہیں۔ جن لوگوں نے تاریخ سے متعلقہ کوئی بات چھپا رکھی ہو تو ریکار ڈ کی درستی کے لیے وہ  اسے کبھی نہ کبھی سامنے لے آتے ہیں۔ اس کا مقصد توجہ یا دولت حاصل کرنا نہیں ہوتا‘‘۔ مسٹر  لینڈس نے ڈیلیس میں شوٹنگ کے فوراً بعد جو دو تحریری بیان دیے تھے ان کی موجودہ کہانی اُن سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ان بیانات میں مسٹر لینڈس نے دو گولیاں چلنے کی بات کی تھی۔ اسی طرح انہوںنے ٹراما روم میں جانے کا ذکر بھی نہیں کیا تھا جہاں صدر کینیڈی کو لے جایا گیا تھا۔ مسٹر لینڈس کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں نے قتل کے بعد جو رپورٹس جمع کرائی تھیں ان میں غلطیاں ہیں۔ وہ اس وقت صدمے کی کیفیت میں تھے اور اسی پریشانی کے عالم میں پانچ دن تک سو بھی نہیں سکے تھے۔ انہیں2014 ء میں پہلی مرتبہ یہ ادراک ہوا کہ گولی کے بارے میں سرکاری بیان ان کی یادداشت سے مختلف تھا مگر وہ کبھی اس احساس سے سامنے نہیں آئے کہ انہوں نے کسی کو بتائے بغیرگولی کو سٹریچر پر رکھ کر غلطی کی تھی۔ دوسرے سیکرٹ سروس ایجنٹ کلنٹ ہل نے مسٹر لینڈس کی بات کرنے کے بارے میں حوصلہ شکنی کی تھی۔ مسٹر ہل نے 2014ء میں اپنی ای میل میں لکھا کہ ’’اس کہانی میں بڑے موڑ ہیں‘‘۔

مسٹر ہل‘ جنہوںنے اپنا الگ بیان ریکار ڈ کرایا تھا اور انہوں نے مسٹر لینڈس کے نئے بیان سے متعلق خاصے شکوک و شبہات پیدا کردیے ہیں۔ ’’میرے خیال میں ساٹھ سال بعد وہ جو کہانی سنا رہے ہیں اس سے تشویش پیدا ہوتی ہے  کیونکہ یہ اس تحریری بیان سے مختلف ہے جو انہوں نے اس قتل کے فوری بعد دیا تھا‘‘۔ جب جان ایف کینیڈی صدر منتخب ہوئے تو مسڑ لینڈس اور مسٹر ہل کی نئے صدر کے بچوں اور خاتونِ اول جیکولین کینیڈی کی سکیورٹی پر  مامور ہوئے تھے۔ چونکہ جیکولین کینیڈی 1963ء میں اس روز صدر جان ایف کینیڈی کے ہمراہ سفر کر رہی تھیں اس لیے مسٹر لینڈس جو اس وقت اٹھائیس برس کے تھے‘ موٹر کیڈ کا حصہ تھے اور صدارتی لیموزین کے پیچھے جا رہے تھے۔ جب پہلی گولی چلی تو مسٹر لینڈس نے آواز سن کر اپنے  دائیں کندھے کے اوپر سے دیکھا مگر انہیں وہاں کچھ نظر نہ آیا۔ پھر وہ لیموزین کی طرف مڑے تو انہوں نے صدر کینیڈی کو اپنا بازو اوپر اٹھاتے ہوئے دیکھا اور اس پر یقینا گولی لگ چکی تھی۔ مسٹر لینڈس نے دیکھا کہ مسٹر ہل نے فالو اَپ کار کی طرف چھلانگ لگائی اور پھر وہ تیزی سے لیموزین کی طرف بھاگ رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ پھر میں نے دوسرے شاٹ کی آواز سنی اور پھر آخری اور اس مہلک فائر کی آواز آئی جو صدر کینیڈی کے سر میں لگا تھا۔ مسٹر ہل کو فوری طور پر پتہ چل گیا تھا کہ صدر کینیڈی جاں بحق ہو چکے تھے۔ وہ جو لیموزین کے پیچھے تھے‘ واپس مڑے اور اپنے انگوٹھے نیچے کرکے صدر کی موت کی تصدیق کردی۔ جب وہ ہسپتال پہنچ گئے تو مسٹر لینڈس اور مسٹر ہل نے پریشان حال خاتونِ اول جیکولین کینیڈی کو قائل کیا کہ اب وہ اجازت دیں تاکہ ہم انہیں ہسپتال کے اندر لے جائیں۔ جب وہ کار سے باہر نکلے تو مسٹر لینڈس نے نوٹس کیا کہ ایک جگہ خون کے پول میں دو گولیوں  کے ٹکڑے پڑے تھے۔ انہوں نے ایک گولی کو چھوا مگر پھر اپنی انگلی پیچھے ہٹا لی۔ انہوںنے بتایا کہ میں نے وہ گولی اپنی جیب میں ڈال لی اور ہسپتال کے اندر چلا گیا تھا۔ جہاں ان کے ذہن میں یہ منصوبہ چل رہا تھا کہ وہ یہ گولی کسی سپروائزر کے حوالے کر دیں گے مگر ذہنی الجھن اور پریشانی کے عالم میں انہوں نے اسے صدر کینیڈی کے سٹریچر پر رکھ دیا۔ ہسپتال کے سنئیر انجنیئرز کو بعد میں پتہ چلا کہ جب وہ مسٹر کونلے کے سٹریچر کی طرف جارہے تھے جو اس وقت تک خالی تھا اور ہال میں ایک دوسرے سٹریچر کے ساتھ ٹکرا گیا چنانچہ یہ گولی باہر گر گئی۔

وارن کمیشن رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس نے صدر کینیڈی کے سٹریچر کو گولی کا سورس ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ صدر کی ڈیڈ باڈی اس وقت تک سٹریچر پر موجود رہی یہاں تک کہ ان کی میت کو تابوت میں رکھ دیا گیا۔ صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کی تفتیش کرنے والے تفتیش کار کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ گولی اسی رائفل سے چلائی گئی تھی جو ٹیکساس سکول بک ڈیپازیٹر ی کے چھٹے فلور پر ملی تھی۔ انہوںنے یہ نتیجہ اخذ کر لیا تھا کہ یہ گولی صدر کینیڈی کے جسم کے آر پار ہو گئی تھی۔ ان کے جسم سے نکل کر یہی گولی مسٹر کونلے کے دائیں کندھے میں جا لگی۔ ان کی پسلیوں سے جا ٹکرائی وہاںسے وہ گولی سینے کے دائیں طرف سے نکلی پھر ان کی دائیں کلائی کی طرف گئی اور آخر میںان کی بائیں ران میں گھس گئی۔ صدر کینیڈی کا علاج کرنے والے تمام ڈاکٹروں میں اس بات پر مکمل اتفاقِ رائے پایا جاتا تھا کہ ایک ہی گولی اتنا زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے۔ مگر اس گولی کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ ایسی تھی جیسے بالکل ایک نئی گولی ہو جسے کبھی استعمال ہی نہ کیاگیا ہو اور اس کے وزن میں 160یا 161گرینز میں سے صرف ایک یا دو گرینز ہی کم ہوئے تھے جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ شکوک وشبہات پیدا ہو گئے کہ ایسا سب کچھ بھی ہو سکتا تھا جس کے بارے میں کمیشن کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ واقعی میں ہوا ہے۔ تاہم بیلسٹک کے وہ ماہرین جو فارانزک کی جدید تکنیک استعمال کرتے ہیں‘ نے یہ نتیجہ اخذ کر رکھا تھا کہ سنگل بُلٹ والی تھیوری قابلِ فہم لگ رہی ہے۔

 بشکریہ: نیویارک ٹائمز‘ انتخاب: دنیا ریسرچ سیل‘ مترجم: زاہد رامے

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں