ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

کووڈکے بعد ہارٹ اٹیک کا خطرہ

تحریر: ڈینا سمتھ

کووڈ آنے کے بعد مارچ 2020ء سے مارچ 2022ء کے دو برسوں کے دوران امریکہ میں ماضی کے مقابلے میں تقریباً 80 ہزار زیادہ اموات ہوئی ہیں اور ان کی بڑی وجہ کارڈیو ویسکولر امراض تھے۔ یہ اموات زیادہ تر عمر رسیدہ افراد میں ہوئیں جن کی عمریں 65 سال سے زیادہ تھیں اور یہ عمر کا وہ گروپ ہے جس میں لوگ سب سے زیادہ امراضِ قلب کا شکار ہوتے ہیں مگر حیران کن پہلو یہ ہے کہ امراضِ قلب کی وجہ سے موت کے منہ میں جانے والوں میں بالغ نوجوان بھی کثرت سے شامل ہیں۔

دراصل ایک سٹڈی سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ اسی مدت میں امراضِ د ل کی وجہ سے جن لوگوں کی اموات ہوئی ہیں ان میں 25 سال سے 44 سال عمر تک کے افراد بھی شامل تھے۔ امراض قلب سے مرنے والوں میں سے کچھ کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کے لیے کووڈ کے عروج کے دنوں میں میڈیکل کیئر کی سہولت تک رسائی مشکل ہو گئی تھی۔ لیکن ڈاکٹروں اور ریسرچرز کو اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان کی موت میں کووڈ بذات خود ایک فیکٹر تھا۔ ایسی پیچیدگیوں کے علاوہ جو کووڈ انفیکشن کے عروج کے دور میں پیدا ہوئی تھیں‘ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ ان کی موت ہارٹ اٹیک، فالج اور کئی دیگر پیچیدگیوں کی وجہ سے ہوئی ہو جو اس انفیکشن کے ایک سال بعد تک پیدا ہوئی ہوں۔ اب ماہرین یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا؟

ڈاکٹر سوسن چینگ سیڈرس سینائی میڈیکل سنٹر لاس اینجلس میں کارڈیو ویسکولر ہیلتھ اینڈ پاپولیشن سائنس کی چیئر پرسن ہیں جنہوں نے ہارٹ اٹیک سے ہونے والی اموات پر ہونے والی سٹڈی کی نگرانی کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اس وائرس اور کارڈیو ویسکولر سسٹم کے درمیان ایک عجیب و غریب تعلق پایا جاتا ہے۔ یہ کیسا تعلق ہے‘ یہی تو ایک ملین ڈالر سوال ہے‘‘۔ جو کارڈیالوجسٹس اس تھیوری کو لے کر آگے چل رہے ہیں کہ کووڈ کس حد تک دل کو نقصان پہنچاتا ہے اور کارڈیو ویسکولر بیماریوں کی وجہ سے موت کا باعث بنتا ہے‘ ان کی تھیوری کے مطابق کووڈ کا وائرس بڑے پیمانے پر سوزش کا باعث بنتا ہے۔

ڈاکٹر لیوک لیفِن ایک کارڈیالوجسٹ ہونے کے علاوہ کلیولینڈ کلینک میں سنٹر فار بلڈ پریشر ڈس آرڈرز کے معاون ڈائریکٹر بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہم اس امر سے بخوبی آگاہی رکھتے ہیں کہ یہ سوزش بذاتِ خود کارڈیو ویسکولر کا رِسک بڑھا دیتی ہے۔ ہم یہ بات بھی جانتے ہیں کہ انفیکشن سے پھیلنے والی بیماریوں‘ خاص طور پر کووڈ 19‘ کا شدید انفیکشن اس سوزش کا باعث بنتا ہے لہٰذا یہی وہ میکانزم ہو سکتا ہے جس کے ذریعے اس رسک میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ شاید ایسا ہی ہو‘‘۔

ہمارے امیون سسٹم کا ایک حصہ جو کسی انفیکشن یا زخم کے لیے کام کرتا ہے وہ ایسی پروٹین ریلیز کرتا ہے جو سوزش یا خون میں لوتھڑے بننے کا باعث بنتی ہیں۔ ایسے مریض جن کی شریانوں میں چکنائی کی تہہ جمی ہوئی ہو تو یہ سوزش اس تہہ کو توڑنے کا باعث بن جاتی ہے جس کے نتیجے میں خون میں لوتھڑے بن جاتے ہیں اور یہی لوتھڑے ہارٹ اٹیک یا فالج کے حملے کی وجہ بن جاتے ہیں۔ ماہرین کی رائے کے مطابق اس کی وجہ سے جن لوگوں میں پہلے سے ہی شریانوں میں چکنائی کی تہیں موجود ہوں‘ جیسا کہ سگریٹ نوشی کرنے والوں یا جو لوگ ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہوں یا جن کے خون میں پہلے سے کولیسٹر ول کی زیادتی ہو‘ ایسے لوگوں کو اگر کووڈ انفیکشن کا بھی سامنا کرنا پڑ جائے تو ان میں ہارٹ اٹیک کا رسک بڑھ جاتا ہے۔ ایسے بھی کئی کیسز دیکھنے میں آئے ہیں کہ ان میں پہلے سے چکنائی کی تہہ نہیں جمی ہوئی تھی مگر پھر بھی ان کے خون میں لوتھڑے بن گئے۔ اگر خون کی شریانوں میں بہت زیادہ سوزش ہو جائے اور وہ اس جگہ کے سیلز کو متاثر کر رہی ہو تو ایسی صورت حال میں فوری طور پر خون کے لوتھڑے بننے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر چینگ کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے ایسے نوجوان کو بھی موزوں حالات میں ہارٹ اٹیک ہونے کا رسک بڑھ جاتا ہے جس کی شریانوں میں کولیسٹرول کی تہہ نہ جمی ہو۔ بھلے کووڈ انفیکشن والا مریض بالکل تندرست بھی ہو جائے مگر اس میں کارڈیو ویسکولر پیچیدگیاں کم یا ختم نہیں ہوتیں۔

2022ء میں امریکہ میں 6 لاکھ 91 ہزار 455 مریضوں کے میڈیکل ریکارڈ کی ٹریکنگ کی گئی اور اتنی بڑی سٹڈی سے یہ معلوم ہوا کہ ان لوگوں کی بڑی تعداد میں کووڈ انفیکشن کے ختم ہونے کے ایک سال بعد بھی دل سے متعلق بیماریوں کے پیدا ہونے کا بہت زیادہ رسک موجود تھا۔ اس ریسرچ میں بتایا گیا کہ ان لوگوںکو فالج کا حملہ ہونے کا رسک عام لوگوں کے مقابلے میں 1.5 گنا زیادہ تھا۔ ہارٹ اٹیک ہونے کا خطرہ دو گنا تھا اوردل کی دھڑکن میں مختلف نوعیت کی بے قاعدگی پیدا ہونے کا خطرہ 1.6 سے لے کر 2.4 گنا تک زیادہ تھا۔

ڈاکٹر ہیلن گلاسبرگ ایک کارڈیالوجسٹ اور یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے پرل مین سکول آف میڈیسن میں کلینکل میڈیسن کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں مگر وہ اس سٹڈی میں شامل نہیں تھیں، وہ کہتی ہیں کہ ’’ہم نے کووڈ کی بیماری کے ابتدائی مرحلے پر ہی کارڈیوو یسکولر سسٹم پر اس کے اثرات دیکھے تھے۔ مگر اب ہم ان لوگوں میںطویل مدتی نتائج کا مشاہد ہ بھی کر رہے ہیں جنہیں اس سے پہلے کووڈ انفیکشن ہو چکا تھا‘‘۔ ان میں سے کچھ کیسز ایسے بھی ہوں گے جن پر انفیکشن کے طویل مدتی اثرات چل رہے ہوں گے۔ یہ اثرات دوسرے لوگوں میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں کیونکہ آنے والے دنوں میں کووڈ کے ساتھ امراض قلب کا رسک فیکٹر منسوب کیا جائے گا، خاص طور پر ہائی بلڈ پریشر والے مریضوں میں یہ رسک بہت بڑھ جاتا ہے۔ ریسر چ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جن لوگوں کو کووڈ کی ویکسین لگ چکی ہے ان میں ویکسین نہ لگوانے والوںکے مقابلے میں ہارٹ اٹیک یا فالج کا حملہ ہونے کا رسک 40 سے 60 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ ویکسین لگوانے والے لوگوں میں کووڈ کی سنگین شکل ڈویلپ ہونے کا امکان کم ہو جاتا ہے، چنانچہ ایسے لوگوںمیں دل سے متعلق بیماریوں کا رسک بھی کم ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگوں نے اگر فائزر، بائیو این ٹیک اور موڈرنا کی تیارکردہ mRNA ویکسین لگوا رکھی ہو تو اس کے کئی ہفتے بعد ایسے مریضوں کے دل کے پٹھوں میں سوزش پیدا ہونے کا رسک بہت تھوڑا رہ جاتا ہے؛ تاہم کووڈ کا انفیکشن ہونے کے بعد دل کے پٹھوں کی سوزش کا رسک بہت بڑھ جاتا ہے۔

سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کی سٹڈی میں یہ رپورٹ کیا گیا ہے کہ جن نوجوانوں کی عمر 12 سے 29 سال کے درمیان ہوتی ہے اور جن میں ویکسین کی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا رسک سب سے زیادہ ہوتا ہے ان میں ان لوگوں کے مقابلے میں دل کے پٹھوں کی سوزش پیدا ہونے کا رسک چار سے آٹھ گنا زیادہ ہوتا ہے جنہوں نے کووڈ کے بعد تین ہفتے پہلے ویکسین لگوا لی ہو۔ تیس سال یا اس سے زیادہ عمر کے مردوں میں دل کے پٹھوں میں سوزش کا امکان اٹھائیس گنا بڑھ جاتا ہے جبکہ ویکسین لگوانے والے نوجوانوں میں یہ رسک اپنی کم ترین سطح پر ہوتا ہے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں