ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

لیبیا میں دو پرانے ڈیمز کی تباہی

تحریر: ازابیلا ونکلر

لیبیا میں دو ڈیموں کی تباہی سے آنے والے سیلاب کی زد میں آکر کم از کم تین ہزار افراد جاں بحق اور چار ہزار سے زائد لاپتا ہو گئے ہیں۔ اس نقصان کے بارے میں پیشگی بتا دیا گیا تھا اور اسے روکا بھی جا سکتا تھا۔ اگر ہم نے اپنے پرانے ڈیمز‘ جن کی طبعی عمر پوری ہو چکی ہے‘ کی مرمت نہ کی یا انہیںختم نہ کیا تو ضروری نہیںکہ لیبیا میں تباہ ہونے والے دونوں ڈیمز آخری ثابت ہوں۔لیبیا کی وادیٔ درنا میں یہ ڈیم 1970ء کی دہائی میں ڈیم تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا بھر میں ڈیموں کی تعمیر عروج پر تھی۔ اب وہ تمام ڈیم اپنی طبعی عمر پوری کر چکے ہیں یا کرنے والے ہیں۔ لیبیا کے تباہ ہونے والے ڈیموں کے بارے میں ابھی تک ملنے والی تفصیل کے مطابق ان کی تباہی کی وجہ ان کی ناقص دیکھ بھال تھی۔ ان ڈیموں میں پانی کے ذخیرے کی مانیٹرنگ کا عمل بڑا ناقص تھا۔ بارشی پانی کے ایک بڑے سیلاب سے پانی کا ذخیرہ قابو میں نہ رہ سکا۔ ڈیموں کی مخدوش حالت کے بارے میں گزشتہ سال ہی وارننگ جاری کی گئی تھی۔ اس قسم کی تباہی سے بچنے کیلئے انکی مرمت کی اشد ضرورت تھی مگر اس ضمن میں کوئی عملی اقدام نہ کیا جا سکا۔ اسی طرح کی مزید تباہی دنیا بھر میں متوقع ہے۔ سب سے سنگین صورتحال بھارت اور چین میں ہے‘ جہاں بیسویں صدی کے وسط میں 28 ہزار سے زائد بڑے ڈیم تعمیر کیے گئے تھے اور اب وہ تمام ڈیمز اپنی طبعی عمر پوری کر چکے ہیں۔ بھارتی ریاست کیرالا میں ملپریار ڈیم کو تعمیر ہوئے ایک صدی بیت چکی ہے‘ اگر یہ ڈیم تباہی سے دوچار ہوا تو 35 لاکھ سے زائد افراد اس کے سیلابی پانی سے متاثر ہوں گے۔

چین کے بعد سب سے زیادہ ڈیم امریکہ میں تعمیر ہوئے اور ان کی اوسط عمر 65 سال ہے۔ یہاں اس وقت 2200 سے زائد ڈیم تباہی کے کنارے کھڑے ہیں۔ ڈیموں کی مرمت اور دیکھ بھال کے تازہ ترین قانون کے مطابق اس وقت خطرناک ترین ڈیموں کی مرمت کیلئے تین ارب ڈالرز کی اشد ضرورت ہے جبکہ ابھی ہزاروں ڈیم ایسے ہیں جن کی ذمہ دار فیڈرل حکومت نہیں ہے اور تخمینے کے مطابق ان کی مرمت پر 76 ارب ڈالرز لاگت آئے گی۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں پرانے ڈیموں کے بارے میں خاص قسم کی تشویش جنم لیتی ہے۔ جب یہ ڈیم تعمیر کے مرحلے پر ہوتے ہیں تو انکی ڈیزائننگ اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ بدترین صورتحال کا بھی سامنا کر سکیں۔ موسموں کی جس شدت کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ایسا ایک صدی میں صرف ایک بار ہی ہو سکتا ہے اب ایسی سنگین صورتحال بڑی بے قاعدگی سے کئی بار رونما ہونے لگی ہے؛ چنانچہ ان ڈیموں کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے موسم کی شدت بدتر صورت اختیار کرتی جا رہی تھی اور ڈیموں کے سٹرکچر اس کی ایک بڑی قیمت چکا رہے تھے۔ 2017ء میں شدید بارشوں سے کیلیفورنیا کا بہت پرانا ویلی ڈیم بری طرح متاثر ہوا تھا اس خوف کے پیش نظر کہ ڈیم سے بہت زیادہ پانی نہ جاری کرنا پڑ جائے‘ اردگرد کے علاقوں سے بڑے پیمانے پر آبادیوں کو خالی کرانا پڑا تھا۔ 2021ء میں ہمالیہ کے ایک گلیشیر نے شمالی بھارت میں ایک ڈیم کو تباہ کر دیا تھا اور ایک کو شدید نقصان پہنچایا تھا جس میں درجنوں لوگ مارے گئے تھے۔ زمینی درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیرز کی پگھلنے کی رفتار بہت تیز ہو چکی ہے؛ چنانچہ ڈیموں کی سیفٹی اور ان کے نشیبی علاقوں میں قائم انسانی آبادیوں کو سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ ڈیفالٹ اپروچ تو یہی ہے کہ ان ڈیموں کی مرمت کی جائے‘ پانی کے لیول کو مانیٹر کیا جائے‘ ممکنہ بارشوں اور ان کے بعد بالائی ندیوں میں طغیانی کا پہلے سے انتظام کیا جائے۔ جنوبی افریقہ میں دریائے زیمبیزی پر قائم کریبا ڈیم کو ہی دیکھ لیں جب یہ دیکھا گیا کہ اس کا ریور بیڈ بری طرح خستہ حال ہے تو اس کو تباہی سے بچانے کیلئے بڑے پیمانے پر اسکی مرمت کا کام شروع کر دیا گیا کہ یہ ڈیم اس دریا کے اوپر موجود رہے جس میں خشک سالی کی وجہ سے ہائیڈرو الیکٹرک پاور کی پیداوار میں پہلے ہی کمی واقع ہو چکی ہے۔ 

یاد رہے کہ کئی پرانے ڈیم اب صرف پینے کا پانی اور کسانوں کو کھیتوں کی آبیاری کیلئے ہی پانی فراہم کر رہے ہیں۔ ان میں سے کئی تو صرف بجلی پیدا کرنے کیلئے تعمیر ہوئے تھے مگر اب وہ ماضی کے مقابلے میں عشر عشیر بھی بجلی پیدا نہیں کر رہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں ہائیڈرو الیکٹرک کی پیدا وار بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے؛ چنانچہ امریکہ، چین اور برازیل میں بجلی کی راشننگ کرنے کے علاوہ بلیک آئو ٹ کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب بہت سے پرانے ڈیموں کے وجود کا جواز فراہم کرنا مشکل ہو گیا ہے اور انہیں ختم کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے اردگرد کے علاقوں سے بڑے پیمانے پر انسانوں کی ہجرت ہو رہی ہے اور ان میں زیادہ تر مقامی لوگ اور نچلے طبقے کے افراد شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں وہ چار ڈیم ہیں جو اوریگن اور کیلیفورنیا کی سرحد پر دریائے کلماتھ پر واقع ہیں۔ ان کو منہدم کرنے کا عمل اگلے سال مکمل ہو جائے گا اور یہ انسانی تاریخ میں ایسی سب سے بڑی کوشش ہو گی۔ ڈیمو ں کو منہدم کرنے اور دریائوں کو اپنی اصلی صورت میں بحال کرنے کا عمل یورپ میں بھی تیز رفتاری سے جاری ہے۔ یورپ کے دریا مختلف ممالک میں بکھرے ہوئے ہیں اور انکے تازہ پانیوں میں حیاتیاتی تنوع کی بڑے پیمانے پر کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ نیدر لینڈز میں دریائے میوز پر بحالی کا پروجیکٹ جاری ہے جس میں سیلاب سے متاثر ہونے والے اس کے میدانی علاقوں کی بحالی بھی شامل ہے تاکہ سیلاب او رخشک سالی کے موسموں میں ان کی شدت سے نمٹنے کا بندوبست کیا جا سکے۔ لیبیا میں دو پرانے ڈیموں کی تباہی اور اس میں تین ہزارسے زائد انسانوں کی اموات پوری دنیا میں قائم پرانے ڈیموں کے حوالے سے ایک کھلی وارننگ ہے۔ ہمارے پاس ایک بہترین ہتھیار یہ ہے کہ ان تمام ڈیموں کو بیک وقت تباہ کر دیا جائے اور ہمیں اس ہتھیار کو کثرت سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں