مسئلہ فلسطین کا ممکنہ حل …(1)
تحریر: اداریہ: نیویارک ٹائمز
کہا جاتا ہے کہ جنگیں اسی وقت ختم ہوتی ہیں جب دونوں فریقوں کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ اب ہمیں لڑائی سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اس اصول کے تحت تو اسرائیل اور فلسطین کو بہت پہلے ہی کسی قابلِ فہم حل پر متفق ہو جانا چاہئے تھا یعنی ملحقہ دو ریاستوں کے قیام پر۔ اگرچہ دونوںممالک نے بار بار اس کی کوشش بھی کی ہے؛ تاہم مذہبی جذباتیت اور شکوے شکایات کے اس دور میں امن قائم کرنے کی ہر کوشش بے سود ثابت ہوئی ہے۔ کیا پھر بھی کوئی ایسا چانس نظر آتا ہے کہ جب بندوقوں اور توپوں کی گڑگڑاہٹ تھم جائے تو حالات مختلف ہو جائیں؟
دیکھنے میں تو اس بات کا اتنا امکان نظر نہیں آتا۔ سات اکتوبر کو حما س کے اسرائیل پر حملے اور پھر اسرائیل کی طرف سے غزہ پر شدید جوابی حملے کی وجہ سے پہلے ہی بہت سی تباہی اور بہت اموات ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے امریکہ اور دیگر ممالک میں بھی منافرت میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ماضی کے ہر واقعے کے بعد خواہ یہ جنگ ہو‘ انتفاضہ ہو یا فوج کے چھاپے ہوں‘ ان سے یہی سامنے آیا ہے کہ تشدد کے ذریعے کسی بھی فریق کو سکیورٹی، عزت اور امن نہیں مل سکتا۔ ہر تصادم سے تقسیم اور خونریزی میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ امر اب کوئی راز نہیں ہے کہ فلسطین میں امن کی شکل کیا ہو سکتی ہے۔ فلسطینی ریاست کا حدود اربعہ تو اب تک ہونے والی امن کانفرنسز، میٹنگز، مذاکرات اور امن کے قیام کے لیے نجی اقدامات کے دوران واضح ہو چکا ہے۔
1990ء کا اوسلو معاہدہ سخت گیر فلسطینیوں اور اسرائیلی کمانڈرز کو مذاکرات کی میز پر لانے اور بقائے باہمی کے اصولوں پر آمادہ کرنے کے لیے ایک بڑا بریک تھرو تھا۔ 2000ء میں اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ایہود براک نے فلسطینی رہنما یاسر عرفات کو دو ریاستی حل کی ایک اہم پیشکش کی تھی جسے یاسر عرفات نے ناکافی کہہ کر مسترد کر دیا تھا اور اس کے بعد کوئی دوسری پیشکش نہیں ہوئی۔ اس کے بعد ایہود براک کے جانشین ایہود اولمرٹ اور فلسطینی لیڈر محمود عباس دو سال کے دوران 36 مرتبہ ملے تاکہ کوئی ایسا تفصیلی پلان بنایا جا سکے جس کے ذریعے کچھ زمینوں کا تبادلہ، یروشلم کی شیئرنگ، مغربی کنارے اور غزہ میں آمد و رفت کے لیے ایک محفو ظ راستے کے ساتھ ساتھ بزنس اور وسائل کے استعمال کے لیے تعاون کی فضا بھی بنائی جا سکے۔ مگر یہ اقدام بھی تشدد، سیاست اور حالات کی سنگینی کی نذر ہو گیا۔ وزیراعظم آئزک رابن کا قتل، غزہ میں حماس کے ساتھ جنگ، ایہود اولمرٹ کا استعفیٰ، الیکشن میں نیتن یاہو کی فتح، غزہ سے فلسطینی اتھارٹی کی بے دخلی ہو، خواہ فلسطینی ہوں جو اسرائیلی ریاست کو نیست و نابود کرنا چاہتے ہیں یا اسرائیلی ہوں‘ جو فلسطینی اتھارٹی کو مغربی کنارے سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں‘ دونوں اچھی سمجھتے تھے کہ وہ اشتعال انگیز ی یا سخت گیری کی مدد سے قیام امن کی تمام کوششوں کو سبوتاژ کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ہر مرتبہ تباہ کن جنگ کا شکار بچے، خواتین اور ایسے افراد ہوتے ہیں جو امن کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ اس جنگ میں فاتح ہمیشہ وہی انتہا پسند ہوتے ہیں جو قتل وغارت، اشتعال انگیزی، دھوکے اور دوسرے فریق کو موردِ الزام ٹھہرا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
یہ بھی امکان ہے کہ حماس نے سات اکتوبر کا حملہ محض اس لیے کیا ہو تاکہ اسرائیل اور سعودی عرب میں تعلقات کو معمول پر لانے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں ان کو سبوتاژ کیا جا سکے۔ نیویارک ٹائمز کے ادارتی بورڈ نے متعدد بار اسرائیل سے متصل ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مشورہ دیا ہے اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ اس تنازع کے حل کے عمل میں رحم، تحمل اور فہم و فراست کا مظاہرہ کیا جائے۔ ہم نے یہ تجویز محض اس امید پر دی تھی کہ آج بھی کافی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دونوں طرف غارت گری کے اس نہ ختم ہونے والے سلسلے کو فضول اور خوفنا ک سمجھتے ہیں اور امریکہ‘ جس نے اس تنازع کو حل کرنے کے لیے بہت زیادہ سرمایہ اور سفارتی کوششیں کی ہیں اور کئی عشروں سے اسرائیل کو متواتر سپورٹ کیا ہے‘ آج بھی وہ اس پرکچھ اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ ہمیں اس مشورے کو بہرصورت ماننا پڑے گا کیونکہ اس کے متبادل کی صورت میں صرف انارکی اور خونریزی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
حالیہ جنگ ختم ہو گی تو اس کے بعد ہی کچھ پتا چلے گا کہ آگے کیا پیشرفت ہوتی ہے۔ اس ویک اینڈ پر قطر اور امریکی حکومت کی مصالحت کاری سے یرغمالیوں اور قیدیوں کا جو تبادلہ عمل میں آیا ہے اس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ اس جنگ بندی میں‘ جو منگل کو ختم ہونے والی تھی کچھ دنوں کے لیے مزید توسیع کر دی جائے گی۔ اس پر جنگ سے ہٹ کر بھی سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس جنگ پر آنے والی بھاری لاگت فریقین سے فہم و فراست اور دانشمندی کا تقاضا کر رہی ہے۔ یہ وہ پہلو ہیں جن پر غور و خوض کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہاں ایک حقیقت اور پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے‘ وہ یہ کہ حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر جو حملہ کیا تھا‘ اس کی کسی عرب ملک نے حمایت نہیںکی بلکہ دو ممالک بحرین اور متحدہ عرب امارات نے تو اس کی کھل کر مذمت کی ہے اور اہم بات یہ ہے کہ غزہ کے سویلینز پر اس جنگ کے جو اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حماس جو اسرائیل کوتباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے وہ اس کے بارے میں فکرمند ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ کی وجہ سے وہ مستحکم ہو جائے گی۔
اسی بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ریاستیں جن کی اکثریت فلسطینی اتھارٹی میں پائی جانے والی کرپشن اور اس کی طرف سے سابق اسرائیلی وزرائے اعظم ایہود براک اور ایہود اولمرٹ کے ساتھ مذاکرات پر عدم رضامندی کی وجہ سے سخت پریشان ہے اور اس مسئلے کے کسی بھی ممکنہ حل اور مصالحت پر آمادگی نہ ظاہر کرنے پر اب زیادہ تر عرب ممالک نے مسئلہ فلسطین پر ان کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ عرب ممالک نے اپنے ملکی مفادات کے پیش نظر اسرائیل کے حوالے سے اپنی پالیسی میں بڑی تبدیلی کر لی ہے اور اب اسرائیل کے ساتھ براہ راست تعلق قائم کرنا ان کی ضرورت ہے تاکہ خطے میں ایران کے اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں کی مدافعت کی جائے۔ ’’ابراہم اکارڈز‘‘ میں اور اس کے بعد اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو نارمل کرنے کے لیے ہونے والے تمام مذاکرات کے دوران فلسطینی عوام کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ اس جنگ کا ایک نتیجہ یہ بھی نظر آتا ہے کہ چونکہ فلسطینی اتھارٹی کی لیڈر شپ ابھی تک فہم و فراست کا مظاہرہ کر رہی ہے اس لیے عرب ممالک کے ساتھ اس کی فطری پارٹنر شپ کی آج بھی تجدید کی جا سکتی ہے۔ (جاری)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)