ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

امریکہ میں چینی طلبہ کی مشکلات… (1)

تحریر: ویوین وینگ

یہ ہفتے کی ایک سرد شام تھی اور چین کے دارالحکومت بیجنگ میں واقع ایک ہوٹل کی بیسمنٹ میں نوجوان چینی طلبہ کا ایک ہجوم اکٹھا ہوا تھا۔ یہ سب یہاں اپنا وہ خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے آئے ہوئے تھے جو ان سے پہلے بھی لاکھوں چینی نوجوان اپنی آنکھوں میں سجائے پھرتے تھے یعنی امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خواب۔ چین میں امریکی سفارت خانے نے ایک مقامی کالج میں ایک تعلیمی میلہ سجا رکھا تھا جہاں ہزاروں چینی طلبہ اور ان کے والدین ان بوتھز کی قطاروں کے ارد گرد منڈلارہے تھے جو امریکہ کی بہت سی یونیورسٹیوں نے داخلے کے خواہشمند اِن چینی طلبہ کے لیے لگا رکھے تھے۔ خوش نصیبی کی علامت سمجھا جانے والا ایک گنجے سر والے عقاب کا مسجمہ وہاں نصب تھا جو چینی طلبا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا رہا تھا اور وہ بڑے شوق سے اس کے پاس کھڑے ہو کر اپنی تصاویر بنوا رہے تھے‘ تاہم اسی پُرجوش ماحول میں ایک انگزائٹی کا احساس بھی پایا جاتا تھا جس کی اہم وجہ ایک سوال تھا کہ کیا امریکہ کو آج بھی چینی طلبہ کے داخلے کی ضرورت ہے اور کیا چینی طلبہ کو بھی اس بات کا کامل یقین ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ جانا چاہتے ہیں؟

ژوانگ تائو‘ کالج کے ایک سینئر طالب علم کے والد ہیں جو امریکہ‘ آسٹریلیا یا برطانیہ میں کسی گریجویٹ سکول کی تلا ش میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم آج کل بہت سی منفی خبریں بھی سن رہے ہیں‘ اس لیے ہمیں امریکہ میں داخلے سے متعلق بہت احتیاط سے فیصلہ کرنا ہو گا۔ وہ امریکہ میں تعلیمی اداروں میں ہونے والے فائرنگ کے واقعات‘ ایشیائی لوگوں کے خلاف نفرت اور امتیازی سلوک‘ پچھلے چند عشروں میں امریکہ اور چین کے درمیان پائی جانے والی بلند ترین کشیدگی کی خبریں پڑھتے رہتے ہیں۔ ان کے مطابق آخر کار پوری صورتحال انتہائی پیچیدہ شکل اختیا رکر چکی ہے۔

اپنے عزائم کی تکمیل اور تجسس کی تسکین کے لیے کئی نسلوں سے دونوں ممالک کے طلبہ امریکہ اور چین کے درمیان کئی نسلوں سے سفر کررہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرکے وہ اپنا اور اپنے ملک کا مستقبل بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ ینگ ونگ وہ پہلے چینی طالب علم تھے جنہوں نے 1850ء میں کسی امریکی یونیورسٹی سے گریجویشن کی تھی اور بعد میں 120سے زائد چینی طلبہ کی امریکی میں تعلیم کے سلسلے میں مدد کی تھی۔ آنے والے برسوں میں اس تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ پچھلے تقریباً دو عشروں کے دوران امریکہ آنے والے انٹرنیشنل طلبہ میں سب سے بڑا حصہ چینی طالب علموں کا رہا ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے مالی تعاون سے ہونے والے ایک سالانہ سروے کے مطابق مغربی یورپ سے باہر تعلیم حاصل کرنے والے امریکی طلبہ کا پسندیدہ ترین ملک چین رہا ہے۔ جب دونوں ممالک کے سیاسی اور معاشی تعلقات میں کشیدگی  آنے کے باجود دونوں ممالک کے طلبہ نے ہمیشہ دو طرفہ تعلقات کو برقرار رکھنے میں ایک پل کا کردار ادا کیا ہے‘ مگر اب یہ پل کافی مخدوش حالت میں ہے اور اس وقت شدید خطرے سے دوچار ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے سروے کے مطابق پچھلے تین برسوں کے دوران اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ جانے والے چینی طلبہ کی تعداد میں خاصی کمی واقع ہو چکی ہے۔ امریکی سفارت خانے کے مطابق کووڈ کے دوران چین میں تعلیم کے لیے آنے والے امریکی طلبہ کی تعداد میں بھی کافی حد تک کمی آئی تھی اور اس سال یہ محض تین سو پچاس طلبہ رہ گئی ہے جبکہ 2019ء میں چین میں زیر تعلیم امریکی طلبہ کی تعداد گیارہ ہزار سے زائد تھی۔  

امریکہ اور چین دونوں نے اس امر کی اہمیت کا اعتراف کیا ہے کہ طلبہ کے اس ایکسچینج پروگرام کو ایک بار پھر سے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے اسی مہینے امریکہ کا دورہ کیا تھا جب وہ سلیکون ویلی کے شہر سان فرانسسکو بھی آئے تھے تو یہاں انہوں نے اپنی تقریر میں اس عزم کا اظہا رکیا تھا کہ اگلے پانچ برسوں میں چین پچاس ہزار سے زائد امریکی طلبہ کو تعلیم کے حصول کے لیے چین آنے کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے۔ چین میں متعین امریکی سفیر نکولس برنز نے بھی جواب میں اس امر پر زور دیا ہے کہ امریکہ بھی تعلیم کے حصول کے لیے اپنے ہاں آنے والے چینی طلبہ کا خیر مقدم کرے گا‘ تاہم اس راستے میں حائل ان رکاوٹوں کے حوالے سے سرکاری مؤقف اصل حقائق کو جھٹلا رہا ہے جو دونوں ممالک کی حکومتیں ایک دوسرے کے راستے میں کھڑی کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں اور ان کے پس پرد ہ وہی قوم پرستی کے جذبات اور اپنی قومی سلامتی کو لاحق ممکنہ خطرات پر تشویش ہے جس نے تعلقات کے دیگر پہلوؤں کو ڈی ریل کردیا ہے۔ 

چین کی طرف سے ہونے والے پروپیگنڈا کو دیکھا جائے تو اس کے ہاں مسلسل یہی ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ امریکہ ایک انتہائی خطرناک حد تک جرائم کا شکار ملک ہے اور چینی طلبہ کی اکثریت اس بات پر تشویش میں مبتلا ہے کہ امریکی ویزا کے لیے اپلائی کرنے والے زیادہ تر چینی طلبہ کی درخواستوں کو مسترد کیا جا رہا ہے یا جنہیں ویزا دے بھی دیا جاتا ہے تو ان کی امریکہ آمد پر سرحد پر سخت ترین تفتیش کی جاتی ہے۔ دوسری طرف جہاں تک چین آنے کے خواہش مند امریکی طلبہ کا تعلق ہے تو چین کے موجودہ صدر شی جن پنگ کے دورِ حکومت میں ایسے طالب علموں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے عہد میں غیر ملکیوں کے خلاف جذبات میں شدت آئی ہے۔ امریکی حکومت نے  بھی حفظِ ماتقدم کے طور پر چین میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند کئی طلبہ کو چین جانے سے منع کر دیا ہے۔ اسی طرح جو امریکی طلبہ صرف چینی زبان سیکھنے کے لیے چین جانا چاہتے تھے‘ اس پروگرام کو بھی ملتوی کر دیا گیا ہے اور اس مقصد کے لیے مختص کیے جانے والے فنڈز کو عوامی جمہوریہ چین کے بجائے تائیوان منتقل کردیا گیا ہے۔ 

چین اور امریکہ کے درمیان پروان چڑھنے والی جغرافیائی اور سیاسی کشیدگی کے پیشِ نظر دونوں ممالک نے تعلیم کے میدان میں اپنے دو طرفہ تعاون کی سرگرمیوں کو فی الحال محدود کر دیا ہے۔ شمالی کیرولینا کی ڈیوک یونیورسٹی اور مشرقی چین کی معروف تعلیمی درسگاہ ووہان یونیورسٹی کے درمیان ایک تعاون اور پارٹنر شپ قائم ہے۔ ڈیوک کنشان یونیورسٹی کے سابق ایگزیکٹیو وائس چانسلر ڈینس سائمن کا کہنا ہے کہ ’’تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ اور چین جانے والے طلبا کی تعداد میں کمی کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آنے والے برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اور انڈر سٹینڈنگ کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ امریکہ کو نوجوانوں کی ایک ایسی نسل کی اشد ضرورت ہے جو آنے والے برسوں میں چین کے اقدامات اور پالیسیوں پر کڑی نظر رکھ سکے۔ اگر آپ گراؤنڈ پر اپنا وقت اور سرمایہ خرچ کرتے ہیں تو ہی آپ اس صورت میں اپنے پسندیدہ نتائج حاصل کر سکتے ہیں‘‘۔ (جاری)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں