ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ہیپاٹائٹس سی کے خاتمے کی ضرورت

تحریر: فرانسس کولنز

اس بات کو دس سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے کہ جب میرے برادر نسبتی رِک بونٹرف کا ہیپاٹائٹس سی کی وجہ سے انتقال ہوا تھا‘ جس نے پہلے اس سے صحت‘ پھر توانائی اور آخر میں زندگی ہی چھین لی۔ رِک ایک اچھا باپ اور اچھا خاوند تھا اور فلوریڈا میں رہتا تھا۔ اسے جگر میں خرابی کا مسئلہ ہوا تو اسے فہرست میں لگ کر جگر ٹرانسپلانٹ کے لیے پانچ سال تک انتظار کرنا پڑا۔ ٹرانسپلانٹ کے دوران اس کے جگر میں سرطان کا انکشاف ہوا۔ چنانچہ اس کا نیند کی حالت میں انتقال ہو گیا۔ یوں ایک عمدہ انسان کو ایک تباہ کن وائرس کے ہاتھوں دلخراش موت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی موت کے دو سال بعد ہی سائنس دانوں نے اکتوبر 2014ء میں ہیپاٹائٹس سی انفیکشن کا علاج دریافت کر لیا۔ ان سائنس دانوں کو نوبیل پرائز ملا اور یہ آٹھ سے بارہ ہفتے کے لیے ایک گولی روزانہ کا آسان سا علاج ہے۔ اس کے کوئی سائیڈ ایفکیٹس نہیں ہیں اور پچانوے فیصد مریض صحت یاب ہو جاتے ہیں۔

جب یہ علاج میسر ہوا تو اس وقت میں این آئی ایچ میں بطور ڈائریکٹر کام کر رہا تھا۔ میں خوش تھا کہ اس علاج کی منظوری مل گئی تھی۔ مجھے امید ہو گئی کی جس تلخ تجربے سے ہمیں گزرنا پڑا تھا‘ اب دنیا میں لاکھوں‘ کروڑوں خاندان اس اذیت سے بچ جائیں گے۔ اس گولی سے صرف امریکہ میں ہی دس لاکھ افراد کا علاج ہوا؛ تاہم ایک عشرے بعد بھی امریکہ میں اس وائرس سے متاثرہ 24 لاکھ افراد علاج کے منتظر ہیں۔ ہر پانچ میں سے دو افراد کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ اس انفیکشن سے متاثر ہیں۔ جنہیں معلوم ہے وہ بھی اس کے علاج تک رسائی نہیں رکھتے۔ امریکی کانگرس کے پاس موقع ہے کہ وہ اس انسانی المیے کو ایک انسانی ترقی میں بدل دے اور امریکی قوم کو پانچ سال میں ہیپاٹائٹس سی وائرس سے مکمل نجات دلانے میں مدد کرے۔ مگر اس کے پاس بہت کم وقت رہ گیا ہے۔

ہیپاٹائٹس سی دھیرے دھیرے اثر دکھاتا ہے۔ جگر کا فائبروسس کئی سال میں جگر کے سیروسس میں بدل جاتا ہے۔ مریض کوخون کی قے آنے لگتی ہے اور پھر جگر کا ٹرانسپلانٹ ہی واحد آپشن رہ جاتا ہے۔ یہی وائرس جگر کے سرطان میں بدل جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے چالیس اور پچاس سال عمر کے پندرہ ہزار امریکی ہر سال موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ گزشتہ نو برس سے ایک محفوظ علاج کی موجودگی میں تو یہ شرح صفر ہو جانی چاہئے تھی۔ اب ہمارے پاس اکیسویں صدی کا بہترین علاج موجود ہے تو وقت آ گیا ہے کہ امریکی عوام کی صحت کو درپیش اس مہلک وائرس کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم سے کہاں غلطی ہوئی ہے۔ وائرس کا علاج اتنا مہنگا ہے کہ بہت سی انشورنس کمپنیاں مختلف بہانوں سے اس کے علاج کی کوریج نہیں کرتیں، مثلاً مریض منشیات اور الکحل کا استعمال نہ کرتا ہو تو اسے ہیپاٹائٹس کے علاج کی کوریج مل سکتی ہے۔ بہت کم ڈاکٹرز اس کا علاج کرتے ہیں اور مریض کو اپنے رسک پر اس کا علاج کرانا پڑتا ہے۔ علاج تو درکنار‘ انہیں وائرس کا ٹیسٹ کرانے کی سہولت بھی نہیں دی جاتی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہر تین میں سے ایک مریض کو اس وائرس کی تشخیص کے بعد بروقت علاج کی سہولت میسر ہے۔

جب میں 2021ء میں اپنی این آئی ایچ کی ذمہ داریوں سے فارغ ہوا تو مجھے صدر بائیڈن کے سائنسی مشیر کے طور پر کام کرنے کی آفر کی گئی۔ میں جانتا تھا کہ برطانیہ اور آسٹریلیا سمیت دنیا کے بہت سے ممالک نے ہیپاٹائٹس سی کے علاج میں خاصی ترقی کر لی ہے۔ مصر بھی اپنی منزل کے قریب پہنچ چکا ہے اور وہ بہت جلد عالمی ادارۂ صحت کے معیار کے مطابق اس وائرس سے نجات کا ہدف حاصل کر لے گا۔ کیا امریکہ ان سب ممالک سے پیچھے رہ جائے گا؟ اس پلان کا اہم نکتہ یہ ہے کہ مریضوں کو علاج کی ادویات تک عام رسائی فراہم کی جائے۔ ریاست لوزیانا نے اس کا ایک کامیاب ماڈل پیش کیا ہے جسے نیٹ فلکس ماڈل بھی کہا جاتا ہے۔ اس ماڈل میں ڈرگ کمپنیاں ضرورت مند آبادی کو ایک طے شدہ رقم کے بدلے میں مکمل علاج تک ادویات کی فراہمی کی پابند ہوتی ہیں۔ حالیہ پروپوزل میں سی وائرس سے متاثر وہ لوگ شامل ہیں جو میڈیکیڈ کے لیے اِنرول ہیں، جن کی انشورنس نہیں ہے، آبائی امریکی شہری ہیں یا جو جیلوں میں قید ہیں۔ اگر درست عمل کیا جائے تو اس ماڈل میں بہت سے لوگوں کا مہلک بیماریوں کا علاج ہو سکے گا اور علاج کی فی کس لاگت بھی کم ہو جائے گی۔

ہیپاٹائٹس سی کے مکمل تدارک کیلئے زیادہ سے زیادہ شہریوں کو علاج تک رسائی دینی چاہئے۔ اس پلان میں ٹریننگ، تکنیکی سپورٹ اور پرائمر ی کیئر آفسز کے لیے مالی وسائل کی فراہمی، وفاقی حکومت کے کوالیفائڈ ہیلتھ سنٹرز، ڈرگ ٹریٹمنٹ سنٹرز اور جیل شامل ہیں جہاں انفیکشن پھیلنے کی شرح چالیس فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی تشخیصی سکریننگ کے بعد ایک گھنٹے میں اس ٹیسٹ کا رزلٹ دے دیا جائے تاکہ ایک ہی وزٹ میں تشخیص کے بعد علاج بھی شروع کر دیا جائے۔ اس طرح ٹیسٹوں کی موجودہ صورتحال میں خاصی پیش رفت ہو سکے گی جس کے لیے بار بار مختلف کلینکس پر جانا پڑتا ہے اور نتائج کے انتظار اور علاج شروع کرنے میں کئی ہفتے لگ جاتے ہیں۔ میں کوئی واحد شخص نہیں ہوں جو اس مہلک بیماری کے خاتمے کے لیے اتنا پُرجوش ہے۔ مجھے پورے ملک سے کانگرس میں ریپبلکن اور ڈیمو کریٹس ارکان کی بڑی تعداد کی سپورٹ بھی مل رہی ہے؛ تاہم بنیادی سوال یہ ہے کہ بے شک آپ کو دونوں جماعتوں سے مکمل سپورٹ مل رہی ہے مگر اصل تقاضا یہ ہے کہ یہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح کانگرس کے اندر پہنچ جائے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ ایسا ہو کر رہے گا۔

سی وائرس کے مریضوں کا علاج ہو جانے کے بعد انہیں ٹرانسپلانٹ اور کینسر جیسے مہنگے علاج نہیں کرانا پڑیں گے۔ جب ایک مریض کا علا ج ہو جائے گا تو وہ اسے آگے دوسروں کو منتقل نہیں کرے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ آج اگر ہم ایک مریض کا علاج کر دیتے ہیں تو مستقبل میں ہم بہت سے نئے مریض بننے سے روک بھی سکتے ہیں۔ ماہرین کے ایک گرو پ کا تخمینہ ہے کہ ہیپاٹائٹس سی کے خاتمے کے اس قومی پروگرام پر عمل کرنے سے اگلے ایک عشرے میں ہیلتھ کیئر کی مد میں ہی سوسائٹی کو 18 ارب ڈالرز کی بچت ہو گی جس میں سے صرف فیڈرل گورنمنٹ کو 13.3 ارب ڈالرز کی بچت ہو گی۔ ہیپاٹائٹس کے خاتمے کی مہم ریاست کی طرف سے ایک ہمدردانہ ردعمل کی متقاضی ہے جو اپنے تمام شہریوں کی صحت کا پور ا خیال رکھتی ہے۔ اس سے خسارے میں بھی کمی ہو گی کیونکہ ہیپاٹائٹس سی وائرس کے علاج پر ٹیکس دہندگان کی ایک بڑی رقم خرچ ہوتی ہے۔ اگر اس پلان پر خاطر خواہ پیشرفت نہ ہوئی تو یقین رکھیں کہ لاکھوں نئے خاندانوں کو بھی دکھ اور کرب کے اسی تجربے میں سے گزرنا پڑے گا جس طرح مجھے اور میرے خاندان کو رِک بونٹرف کی بیماری اور موت کے تجربے اور اذیت سے گزرنا پڑا۔ غفلت اور نااہلی کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں