ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ہنری کسنجر اور امریکی منافقت …(1)

تحریر: بین رہوڈز

ہنری کسنجر‘ جن کا بدھ کے روز انتقال ہو گیا تھا‘ کمال شخصیت کے مالک تھے۔ ایک کہانی وہ تھی جو امریکہ ایک سپر پاور کے طور پر دنیا کو سناتا تھا اور دوسری طرف ہمارا طرزِ عمل تھا کہ ہم حقیقت کی دنیا میں کس طرح کام کرتے ہیں۔ ہنری کسنجر نے ان دونوں باتوں کے فرق کو دنیا کے لیے ایک مثال بنا دیا تھا۔ کسی مخصوص صورتحال میں وہ ایک موقع پرست اور شدید ردِعمل دینے والے انسان بھی بن جاتے۔ انہوں نے ایسی خارجہ پالیسی وضع کر رکھی تھی جسے انہوں نے امریکی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے بلندیوں پر پہنچا دیا اور ایسے میں انسانوں سے متعلق تشویش کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ چونکہ ان کا امریکہ کسی پہاڑی پر واقع صاف شفاف ہوا والا کوئی شہر نہیں تھا‘ اس لیے انہوں نے کبھی خود کو کسی بھی مسئلے سے الگ تھلگ نہیں سمجھا تھا۔ آپ کا جو بھی سٹائل ہو‘ اسی کے مطابق آئیڈیاز آتے اور جاتے ہیں مگر طاقت ایسا نہیں کرتی۔

1969-77ء کے دور میں ہنری کسنجر نے خود کو تاریخ کے سب سے طاقتور عہدیدار کے طور پر منوایا تھا۔ اس دوران ایک ایسا وقت بھی آیا کہ وہ واحد شخصیت تھے جو بیک وقت قومی سلامتی کے مشیر اور امریکی وزیر خارجہ کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ یہ دو بالکل مختلف عہدے تھے جنہوں نے ہنری کسنجر پر اتنی ہی اہم ذمہ داری بھی عائد کر دی کہ وہ امریکی خارجہ پالیسی کے دائرہ کار اور فنکشنز کا بھی تعین کریں۔ اگر ان کا جرمن نژاد ہونا اور ان کا انگریزی زبان کا لہجہ انہیں دوسروں سے ممتاز بناتا تھا تو انہوں نے جتنی آسانی سے اپنے اختیارات کا استعمال کیا تھا‘ اس نے امریکہ کی قومی سلامتی کے معاملات میں انہیں ایک ایسا فطری اوتار بھی بنا دیا تھا جس سے امریکہ کو عروج ملا اور اس نے بیسویں صدی کے دوران ایک ایسے جاندار آرگینزم کے طور پر ترقی کی جو اپنی قوت اور زورِ بازو میں اضافہ کرکے بھی اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہو۔ ہنری کسنجر جب اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے تو اس کے تیس سال بعد بھی وہ نجی شعبے کے آرا م و آسائش سے باہر نہ نکلے۔ میں نے بھی سرد جنگ اور نائن الیون کے بعد امریکہ کے قومی سلامتی کے آپریٹس میں بڑے بڑ ے عہدوں پر کام کیا ہے۔ میرے پاس قومی سلامتی کے ڈپٹی ایڈوائزر کا منصب تھا اور اس میں تقریر لکھنے اور رابطے قائم کرنا بھی میری ذمہ داریوں میں شامل تھا۔ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران میری ساری توجہ امریکہ کے عملی اقدامات کے بجائے اس کہانی پر مرکوز رہتی تھی جو امریکہ دنیا کو سناتا تھا۔ وائٹ ہائوس میں قیام کے دوران آپ امریکی اسٹیبلشمنٹ میں اتنے اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں جس میں دنیا کی سب سے طاقتور ملٹری اور معیشت پر آپ کی نظر ہوتی ہے۔ دنیا میں ایک انقلابی کہانی کے حقوق کے علمبردار ہوتے ہوئے ’’ہم ایسی سچائیوں کے امین ہوتے ہیں جو اظہر من الشمس ہوتی ہیں اور انہیں کسی ثبوت دینے کی ضرورت نہیں پڑتی اور وہ یہ حقیقت ہے کہ تمام انسان برابر پیدا ہوتے ہیں‘‘۔

مگر مجھے ہر وقت امریکی قیادت میں پائے جانے والے تضادات کا سامنا رہتا تھا اور میں اچھی طرح جانتا تھا کہ ہماری حکومت کس طرح آمروں کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے جبکہ زبانی طور پر وہ ان منحرفین اور اختلافِ رائے رکھنے والوں کی حمایت کرتی ہے جو اس آمر کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں یا ہماری قوم جنگ لڑنے، تنازعات طے کرنے اور تجارت کے بہائو کے اصول و ضوابط طے کرتی اور انہیں نافذ کرواتی ہے اور ہمارا یہ بھی اصرار رہتا ہے کہ جب کبھی یہ اصول ہمارے مفادات کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہوں تو ہمیں ان اصولوں کی پاسداری سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ 

ہنری کسنجر اس حرکیات کے حوالے سے کسی پریشانی کا شکار نہیں تھے۔ ان کے خیال میں آپ کی ساکھ اس امر کی مرہون منت ہوتی ہے کہ آپ عملی طور پر کیا کرتے ہیں نہ کہ اس بات پر کہ آپ کس نظریے کے علمبردار ہیں خواہ آپ کے اقدامات انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کے حوالے سے بالکل ہی بے اثر کیوں نہ ثابت ہو جائیں۔ انہوں نے ویتنام جنگ میں توسیع کرنے میںمدد کی اور اس جنگ کو کمبوڈیا اور لائوس تک پھیلا دیا اور امریکہ نے یہاں دوسری عالمگیر جنگ میںجرمنی اور جاپان پر بمباری سے بھی زیادہ بموں کی بارش کر دی۔ اس بمباری سے زیادہ تر سویلین ہی نشانہ بنے مگر اس سے ان شرائط میںکوئی بہتری نہ آئی جن کے تحت ویتنام جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔ صرف اتنا ہوا کہ یہ پتا چل گیا کہ امریکہ یہ جنگ ہارنے پر کس حد تک ناخوشی کا اظہار کر سکتا ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ اس نوعیت کی حقیقت پسندی سرد جنگ کے زمانے میں اپنے عروج کو چھونے لگی حالانکہ یہ کشیدگی صرف آئیڈیالوجی تک محدود تھی۔ ایک آزاد دنیا کے نمائندے کے طور پر ہنری کسنجر نے دنیا بھر میں نسل کشی پر مبنی جنگوں کی پشت پناہی کی۔ ان پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا تھا کہ چلی میں فوجی بغاوت کے لیے ساری فضا ہنری کسنجر ہی نے ہموار کی تھی جس کے نتیجے میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے نومنتخب صدر سلواڈور الاندے کو قتل کر دیا گیا اور چلی ایک آمرانہ حکومت کے شکنجے میں جکڑا گیا؛ تاہم ہنری کسنجر کے اس فیصلے کا دفاع یہ کہہ کر کیا جاتا ہے کہ وہ ایسی اخلاقیات کے علمبردار تھے جس کی بدولت آخرکار سوویت یونین اور انقلابی کمیونزم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر دنیا کی بڑی آبادی کو وہی سنگین پیغام دیا گیا جو امریکہ نے اکثر اپنے ہاںکچلے ہوئے طبقات کو بھی دیا۔ ہمیں جمہوریت کی فکر اپنے لیے ہوتی ہے‘ دوسروں کے لیے نہیں۔ مسٹر الاندے کی الیکشن میں کامیابی سے کچھ عرصہ پہلے ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ ’’ یہ ایشوز اتنے اہم ہیںکہ ان کے بارے میں فیصلہ کرنا محض چلی کے ووٹرز پر نہیں چھوڑا جا سکتا‘‘۔

کیا ان کا یہ کہنے کا جواز بنتا تھا؟ ہنری کسنجر کی سوئی صرف ساکھ پر پھنسی ہوئی تھی اور یہ ایسا آئیڈیا تھا جس کی قیمت ہمیشہ ان ممالک کو ادا کرنا پڑتی ہے جو امریکی مطالبات کی تعمیل اور تکمیل سے انکار کرتے ہیں۔ امریکہ انہی مطالبات کے ذریعے دیگر ممالک کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے۔ یہ جاننا مشکل ہے کہ لائوس اور کمبوڈیا میں بمباری اور چلی میں فوجی بغاوت نے سرد جنگ کے نتائج پر کس طرح کے اثرات مرتب کیے؛ تاہم ہنری کسنجر عالمی ایشوز پر ایک غیر جذباتی نقطۂ نظر رکھتے تھے جو انہیں اس بات کی اجازت دیتا تھا کہ امریکہ کے قریب سمجھے جانے والے آمروں کی مدد سے اپنے اہم اور نتیجہ خیز اہداف کو کیسے حاصل کرنا ہے۔ اسی پالیسی کے تحت سوویت یونین کے ساتھ ’’دیتانت‘‘ کا رویہ اپنایا گیا جس نے ہلاکت آفرین اسلحے کی دوڑ کو سست کر دیا تھا اور چین کے ساتھ تعلقات کے دروازے کھولے گئے جس نے سوویت یونین کے ٹوٹنے پر مہر تصدیق ثبت کر دی تھی۔ چین کے ساتھ تعلقات بحال ہونے پر امریکہ اور سوویت یونین میں بحران اور کشیدگی کی لہر مزید تیز اور طاقتور ہو گئی تھی۔ (جاری)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں