ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ہنری کسنجر اور امریکی منافقت …(2)

تحریر: بین روہوڈز

امریکہ کے ساتھ تعلقات بحال ہونے کے بعد چین عالمی امور میں ایک مضبوط قوت بن کر ابھرا اور داخلی سطح پر ایسی اصلاحات متعارف کرائی گئیں جن کی مدد سے کروڑوں چینی شہریوں کو غربت کے چنگل سے نکالنے کا موقع ملا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان اصلاحات کا آغاز ڈینگ ژیائو پنگ نے کیا تھا اور یہ وہی چینی لیڈر تھے جن کے دورِ اقتدار میں تیانمین چوک میں احتجاج کرنے والے مظاہرین کے خلاف کریک ڈائون ہوا تھا جسے ہنری کسنجر کی مبہم نوعیت کی میراث کہا جا سکتا ہے۔ اگر ایک طرف چین امریکہ دوستانہ تعلقات سے سرد جنگ کے نتائج پر اثرات مرتب ہوئے تھے اور چینی عوا م کے لائف سٹائل میں بہتری آئی تھی تو دوسری جانب چین کی کمیونسٹ پارٹی امریکہ کے ایک بڑے جیوپولیٹکل حریف اور عالمی سیاست میں آمرانہ رجحانا ت کی سرپرست کے طور پر سامنے آئی۔ ہنری کسنجر نے آدھی زندگی اپنے سرکاری منصب سے فراغت کے بعد گزاری ہے۔ انہوں نے بھی دیگر حکام کی طرح اپنا منافع بخش کنسلٹنگ بزنس شروع کیا اور اس کیلئے اپنے عالمی تعلقات اور رابطوں کا بہترین استعمال کیا۔ کئی عشروں تک وہ سیاسی مدبر ین اور ٹائیکونز کے اجتماعات میں ایک پسندیدہ مقرر سمجھے جاتے تھے کیونکہ وہ ہمیشہ اس بات کا دانشورانہ جواب دیتے تھے کہ بعض لوگ اتنے طاقتور کیوں ہوتے ہیں اور وہ اپنی طاقت اور اختیارات کے استعمال میں حق بجانب بھی ہوتے ہیں۔

انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں اور عالمی امور میں مہارت کی وجہ سے ان کی شہرت میں بھی اضافہ ہوا کیونکہ تاریخ لکھتے ہی ہنری کسنجر جیسے لوگ ہیں نہ کہ وہ لوگ جو کسی سپر پاور کی بمباری کا نشانہ بنے ہوں جن میں لائوس کے وہ بچے بھی شامل ہیں جو آج بھی پورے ملک میں بکھرے امریکی بموں کے پھٹنے سے مر رہے ہیں۔ آپ ان نامعلوم بموں کو عالمی امور کو چلانے کی سیاست کے نتیجے میں جنم لینے والا ایک ناگزیر المیہ کہہ سکتے ہیں۔ ایک تزویراتی نقطۂ نظر سے ہنری کسنجر بخوبی جانتے تھے کہ ایک سپر پاور کا حصہ ہونے کے ناتے ان کے پاس ایسی غلطیوں کی گنجائش موجود ہے جسے مستقبل کی تاریخ فراموش کر سکتی ہے۔ ویتنام جنگ کے خاتمے کے چند سال بعد ہی بمباری کا نشانہ بننے والے وہی ممالک امریکہ سے تجارتی تعلقات میں تعاون بڑھانے کی بھیک مانگ رہے تھے۔ آج چلی میں ایک بہت بڑے سوشلسٹ لیڈر کی حکومت قائم ہے جس کی وزیر دفاع مقتول صدر الاندے کی پوتی ہے۔ سپر پاورز وہی کچھ کرتی ہیں جو انہیں بہرصورت کرنا چاہئے۔ آپ کب اور کہاں رہتے ہیں، یہی بات طے کرتی ہے کہ آپ کوکچل دیا جائے گا یا آپ بلندیوں پر جائیں گے۔ مگر اس نقطۂ نظر سے دانش و حکمت کے ساتھ حقیقت پسندی یا قنوطیت بھی جنم لیتی ہے۔ امریکی کہانی کا جو بھی مقصد ہو‘ یہ اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے۔ دیوارِ برلن گرنے کو ہی دیکھ لیں‘ یہ گریٹ گیم کی بساط پر کھیلے جانے والے شطرنج کی وجہ سے نہیں گری بلکہ اس کے گرنے کی وجہ یہ ہے کہ مشرقی جرمنی میں رہنے والے لوگ بھی مغربی جرمنی کے لوگوں جیسی زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ اس سوچ میں معیشت، مقبول کلچر اور سماجی تحریکیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود ہمارے پاس ایک بہتر سسٹم اور سنانے کے لیے ایک بہترین کہانی موجود ہے اور یہ خالصتاً ہنری کسنجر کی لکھی ہوئی ایک امریکی کہانی ہے۔ جب ہٹلر اپنے مذموم منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رہا تھا تو ہنری کسنجر کی فیملی بمشکل اپنی جانیں بچا کر نازی جرمنی سے نکلی تھی۔ مگر ان کے دل میں کچلے ہوئے طبقات کے لیے ہمدردی کے جذبات نہ پیدا ہو سکے اور نہ ہی ان کے اندر یہ تحریک پیدا ہوئی کہ دوسری عالمگیر جنگ کے خاتمے کے بعد کے سپر پاور امریکہ کو اندر سے اقدار، قوانین اور اخلاص سے جوڑ دیتے تاکہ ایسی اقدار کو ازسر نو تشکیل دیا جا سکتا جو اس جنگ کے بعد ایک نئی عالمی جنگ کو روکنے کے لیے امریکی قیادت میں قائم ہونے والے ورلڈ آرڈر کا بھی حصہ ہوں۔ ساکھ کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ اپنے ایک دشمن کو سزا دے کر دوسرے دشمن کو پیغام بھیج دیں۔ اس کا ایک تقاضا یہ ہوتا ہے کہ کیا آپ حقیقت میں بھی وہی ہیں جس کا دعویٰ کرتے ہیں۔ 

امریکہ کو اپنی اس منافقت کی ایک قیمت بھی چکانا پڑی ہے جس کے نتائج کا تخمینہ لگانا مشکل ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے امریکہ کی جمہوریت والی کہانی لوگوں کی کثیر تعداد کو کھوکھلی لگنے لگی ہے کیونکہ وہ ایسے کئی مقامات کی نشاندہی کر سکتے ہیں جہاں اس کے اقدامات جمہوریت کی روح کے منافی نظر آتے ہیں اور یہ محض امریکی مفادات کا کھیل نظر آتا ہے۔ اب تاریخ اپنے دائرے کا سفر مکمل کر چکی ہے۔ ہم ایک بار پھر دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں آمریت اور نسلی قوم پرستی سر اٹھا رہی ہے۔ غزہ میں بھی امریکہ نے اسرائیل کے اس فوجی آپریشن کی حمایت کی ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں سویلینز مارے گئے ہیں؛ چنانچہ دنیا کو پھر یہ پیغام بھیجا گیا ہے کہ امریکہ اقدار کی پاسداری میں محض اپنے من پسند اصول کو ترجیح دیتا ہے۔

امریکی اپنے گھر میں ہی دیکھ لیں کہ ریپبلکن پارٹی کے چند لوگ اقتدار کے حصول کے لیے کس طرح جمہوریت کو تماشا بنا رہے ہیں۔ اس سے ملک میں مایوسی اور قنوطیت فروغ پاتی ہے اور جہاں بڑی اور بلند آرزوئیں نہیں ہوتیں تو کوئی بھی کہانی آپ کے عملی اقدامات اور سیاست کو معانی نہیں دلا سکتی‘ جس سے جیو پالیٹکس بھی ایک لاحاصل مشق بن جاتی ہے۔ ایسی دنیا میں صرف طاقت ہی صحیح اور غلط کا فیصلہ کرتی ہے۔ ان ساری غلطیوں کا بوجھ صرف ہنری کسنجر کے کندھوں پر ہی نہیں ڈالا جا سکتا۔ کئی حوالوں سے وہ امریکن نیشنل سکیورٹی کے معمار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی بہترین تخلیق بھی تھے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی ایک محتاط کہانی ہیں۔ اتنی ناقص کہانی کہ جسے امریکہ کو ایک بار پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کہانی کا تقاضا یہ ہے کہ لائوس میں پیدا ہونے والا بچہ بھی عزت اور وقار میں امریکی بچوں کے برابر اہمیت رکھتا ہے اور چلی کے عوام کو اپنے حکمران چننے کا اتنا ہی استحقاق ہے جتنا یہ حق امریکی عوام کو حاصل ہے۔ جہاں تک امریکہ کی بات ہے تو جمہوریت اس کی قومی سلامتی کا حصہ ہونی چاہئے مگر یہ اپنے ہی رسک پر اس حقیقت کو فراموش کر دیتا ہے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں