ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

افغانستان میں امریکہ کی ضرورت …(1)

تحریر: کیتھی گینن

افغانستان کی بدقسمتی کہ یہ وہ سرزمین ہے جہاں امریکہ نے اپنی تاریخ کی سب سے طویل جنگ لڑی ہے لیکن کتنی ستم ظریقی ہے کہ اسی افغانستان کے بارے میں آج امریکہ میں عوامی سطح پر کوئی بات کرنے والا موجود نہیں ہے۔ اس بات کو سمجھنا اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ ایک جنگ کی جگہ کوئی دوسری جنگ اور ایک تنازع کی جگہ کوئی دوسرا تنازع جنم لے لیتا ہے۔ افغانستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس کی تاریخ کو بھی اس وقت اسی تلخ حقیقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہی کچھ ہوتا نظر آتا ہے۔

1979ء سے شروع کر لیں‘ جب سے افغانستان ایک دائمی شورش کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ جب سوویت یونین نے افغانستان کے خلاف فوجی مداخلت کرکے ایک کھلی جارحیت کا ارتکاب کیا تھا تو اس کے نتیجے میں لاکھوں افغان باشندوں کو اپنی جانیں بچانے کے لیے اپنے گھر بار یا اپنا ملک ہی کو چھوڑ کر دوسرے ممالک میں پناہ لینا پڑی تھی۔ افغانستان کی بدقسمتی کہ یہاں فوجی مداخلت ہوتی اور ختم ہوتی رہی اور اس کا انجام ہمیشہ ایک ناکامی کی صورت میں ہی دیکھنے کو ملا۔ افغانستان ہو، افغان شہری ہوں یا اس کے ہمسایہ ممالک‘ ان سب کو ہی افغان جنگوں کے سنگین نتائج بھگتنا پڑے ہیں۔ آج امریکہ کی طویل ترین جنگ اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔ افغان دارالحکومت کابل میں قائم امریکی سفارت خانہ آج خالی اور ویران پڑا ہے اور ہر روز اس تلخ حقیقت کی یاددہانی کراتا ہے کہ یہ امریکہ تھا جو 2021ء میں افغانستان سے اپنی اور اتحادیوں کی فوجیں نکال لینے کے بعد یہ چاہتا تھا کہ وہ افغانستان اور وہاں برسر اقتدار آنے والی طالبان حکومت کو دنیا بھر سے الگ تھلگ کر دے۔

اس مقصد کے حصو ل کے لیے واشنگٹن کی یہ پوری کوشش رہی کہ وہ طالبان حکمرانوں پر دبائو ڈالے کہ وہ اپنے نظریات میں نرمی اور اعتدال پسندی پیدا کریں۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے اپنے وعدے پورے کریں۔ افغان حکومت میں غیر طالبان گروہوں کو بھی شمولیت کا موقع دے کر اس میں توسیع کریں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی طرف بھی سنجیدہ توجہ دیں۔ جب یہ گروپ پہلی مرتبہ افغان اقتدار پر قابض ہوا تھا تو اس وقت بھی امریکی حکومت کا یہ حربہ بری طرح بیک فائر کر گیا تھا اور آج بھی مغربی ممالک کے خالی سفارتخانے افغان طالبات کو سکولوں میں واپس لانے یا ورک فورس میں افغان خواتین کی شمولیت کرانے میں بری طر ح ناکام نظر آتے ہیں۔ بلکہ افغانستان کو دنیا سے الگ تھلگ کرنے کی کوشش میں صرف افغان شہری دنیا سے کٹ کر رہ گئے ہیں اور ان کی اکثریت اب بدترین قسم کی تنہائی اور بے بسی محسوس کرتی ہے۔ اب یہ اعتراف کرنے کا وقت آ گیا ہے کہ ماضی کی افغان پالیسیاں ناکام ہو چکی ہیں، اس لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اپنا لائحہ عمل اب تبدیل کر لینا چاہئے اور بڑے پیمانے پر اس میں شامل ہونا چاہئے جس کے نتیجے میں افغان حقائق کے بارے میں بہتر افہام و تفہیم یعنی انڈر سٹینڈنگ پیدا ہو سکے گی۔یہ حقیقت ہے کہ آج بھی افغانستان کو انسانی امداد کی شکل میں سب سے زیادہ حصہ امریکہ ہی ڈالتا ہے اس لیے اسے چاہئے کہ وہ ایک بار پھر افغانستان اور اس کے چارکروڑ شہریوں کے پاس واپس آئے۔ امریکہ کو چاہئے کہ وہ کابل میں اپنا سفارتخانہ دوبارہ کھولے اور تمام افغان سوسائٹی کے ساتھ مل کر کام کرنے کا آغاز کرے۔ افغانستان کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک وہاں موجود ہیں اور وہ ان پر انحصار کر سکتا ہے۔ میں بطور صحافی کئی عشروں تک افغانستان میں خدمات انجام دے چکی ہوں اور میں نے اپنی آنکھوں سے افغانستان کو کئی جنگوں کا سامنا کرتے ہوئے دیکھا ہے اور پے درپے کئی پالیسیوں کی ناکامی کے نتائج کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کس طرح بہت سے ممالک اور عالمی تنظیمیں افغانستان کے انتہائی تعلیم یافتہ او رروشن خیال لوگوں کو عجلت میں تنہا چھوڑ کر چلی گئیں۔ میں نے 2021ء میں امریکہ کے آخری ہوائی جہاز کو کابل ایئر پورٹ سے پرواز کرتے ہوئے بھی دیکھا تھا جب اس جنگ کا ایک احمقانہ اختتام ہوا تھا اور طالبان نے ایک بار پھر افغانستان میں اقتدار سنبھال لیا تھا۔ میں حیران تھی کہ کیا دنیا کبھی اس قابل ہو سکے گی کہ وہ افغانستا ن جیسے حیران کن ملک کو دیکھ اور سمجھ سکے۔ اسے صرف افغان اشرافیہ اور بیرونِ ملک مقیم افغان ہی نظر نہ آئیں بلکہ دیہات اور شہروں میں بسنے والے افغان، کھیتوں اور میلوں تک پھیلے سنگلاخ پہاڑوں پر بسنے والے افغان عوام بھی نظر آئیں اور انہیں ایک حل طلب مسئلہ ہی نہیں بلکہ انہیں اپنے ملک کے امن کا جواب سمجھ کر دیکھا جائے۔ 

جب طالبان نے 1996 سے 2001ء کے دوران افغانستان پر حکومت کی تھی تو امریکہ، اقوام متحدہ او ردیگر عالمی ممالک نے ان کے ساتھ انتہائی سخت رویے کا مظاہرہ کیا تھا۔ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ اور دیگر عالمی ممالک ان کی حکومت کو تسلیم کر لیں تو وہ فلاں فلاں شرائط پوری کریں۔ طالبان حکومت کو یہ حکم بھی دیا گیا تھا کہ وہ افغان لڑکیوں کی سکول وکالج تعلیم کا بندوبست کریں، منشیات کی کاشت اور پیداوار کی روک تھام کریں اور اسامہ بن لادن کو اپنے ملک میں پناہ دینے کے بجائے اسے جلاوطن کر دیں جو طالبان کے 1996ء میں افغانستان میں برسر اقتدار آنے سے بھی پہلے سے وہاں مقیم تھا۔ لیکن امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے لگائی جانے والی پابندیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان پوری دنیا سے کٹ کر رہ گیا اور یوں ان طالبان رہنمائوں کے لیے بھی راستے مسدود ہو گئے جو کسی نہ کسی طرح دنیا کے ساتھ مل کر چلنے کی خواہش رکھتے تھے اور اپنے ملک کی ترقی اور مستقبل کے حوالے سے ایک ٹھوس وژن رکھتے تھے جبکہ ان کے نظریات امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کے دارالحکومتوں کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں بھی رکھتے ہوں گے جن میں لڑکوں اور لڑکیو ں کی سکول کی تعلیم بھی شامل تھی۔

 سب سے سنجیدہ پہلو یہ تھا کہ اس طالبان حکومت میں بعض ایسے رہنما بھی موجود تھے جو اپنی سرزمین پر غیر ملکی عناصر اور جنگجوئوں کی موجودگی کو پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھتے تھے۔ جیسا کہ میں نے ان دنوں بھی یہ رپورٹ کیا کہ اس وقت کے نائب وزیر داخلہ محمد خاکسار نے مجھے بتایا تھا کہ امریکہ پر نائن الیون حملوں سے پہلے میں نے ہمسایہ ملک پاکستان میں ایک امریکی سفارت کار اور سی آئی اے کے حکام سے رابطہ قائم کیا تھا کہ غیر ملکی جنگجوئوں کو یہاں سے نکالنے میں طالبان حکومت کی سپورٹ کیا جائے مگر ہماری اس پیشکش کو ڈھٹائی سے مسترد کر دیا گیا تھا۔ پاکستان کے شمال مغربی شہر پشاور میں اس وقت تعینات امریکہ کے نائب قونصل جنرل گریگر ی مارچز نے بعد میں میرے ساتھ ملاقات کے دوران اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ’’ہاں! میں نے اور سی آئی اے کے ایک عہدیدار پیٹر میکلیوین نے افغانستان کے نائب وزیر داخلہ محمد خاکسار کے ساتھ ملاقات کی تھی‘‘ اور یوں محمد خاکسار کی کہی ہوئی بات کی تصدیق کر دی۔ (جاری)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں