چین اور بھارت کی معاشی مسابقت
تحریر: الیکس ٹریویلی
بھارتی سٹاک مارکیٹ اس وقت دنیا بھر میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ایئر پورٹس، پلوں، سڑکوں اور انفراسٹرکچر پر حکومتی سرمایہ کاری واضح نظر آتی ہے۔ اس سال بھارتی جی ڈی پی چھ فیصد رہنے کی امید ہے لیکن بھارتی کمپنیاں معیشت میں زیادہ سرمایہ کاری نہیں کر پا رہیں۔ سٹاک مارکیٹ میں تو سرمایہ آ رہا ہے مگر طویل مدتی سرمایہ کاری نہیں آ رہی۔ اس کے مثبت اور منفی‘ دونوں پہلو ہیں۔ اگر نجی شعبہ خلا پُر کرنے کیلئے نہ آیا تو ایک مرحلے پر حکومت کی سرمایہ کاری میں کمی آ جائے گی۔ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ بھارت کو اب ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن اس کیلئے چھ فیصد کی شرحِ نمو کافی نہیں ہو گی۔ بھارت کی آبادی دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت 2047ء تک چین کو ترقی میں پیچھے چھوڑنا چاہتی ہے مگر اس کے لیے مسلسل آٹھ سے نو فیصد کی شرحِ نمو کی ضرورت ہو گی۔ نریندر مودی کے لیے سرمایہ کاری کی کمی پورا کرنا ایک بڑا چیلنج ہے جو ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے لیے بزنس فرینڈلی ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ نریندر مودی اس وقت اگلے الیکشن کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ لیکن سرمایہ کار سرمایہ کاری کے حوالے سے محتاط اور محفوظ فیصلے کر رہے ہیں۔ سلیکون ویلی وینچر کیپٹل فنڈ کے پارٹنر سری رام وشوا ناتھ کہتے ہیں کہ سرمایہ کار اس خلا کو پُر کرنا چاہتے ہیں جو سپلائی چین نے پیدا کر دیا ہے۔ ’’میرے خیال میں یہ بھارت کے لیے ایک سنہری موقع ہے‘‘۔ عالمی بینک نے بھارت کے انفراسٹرکچر کے حوالے سے وعدوں کی پاسداری کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے جس میں کووڈ کے دور میں اضافہ ہوا کیونکہ نجی شعبے کو ریسکیو کرنے کی ضرورت تھی۔ اس وقت سے حکومت نے شکستہ سڑکوں، بندرگاہوں اور پاور گرڈز پر سرمایہ کاری کو دو گنا کر دیا ہے تاکہ نئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ لیکن ورلڈ بینک‘ جو ترقی پذیر ممالک کو سپورٹ کرنے کے مشن پر ہے‘ کا کہنا ہے کہ یہ بات بحث طلب ہے کہ حکومت کی طرف سے اربوں روپے کی سرمایہ کاری سے کارپوریٹ سرمایہ کاری پر مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ عالمی بینک کے معیشت دان کہتے ہیں کہ اس سے بھیڑ چال کا رجحان بڑھے گا، مثال کے طور پر جب کسی نئے انڈسٹریل پارک کے قریب ایک نئی بندرگاہ بن جاتی ہے تو کمپنیوں میں یہ تحریک پیدا ہوتی ہے کہ وہ وہیں پر نئے پلانٹس لگائیں اور وہیں سے ورکر ز کو نوکریاں دیں۔ ورلڈ بینک کہتا ہے کہ ہم پچھلے تین سال سے اس بھیڑ چال کے بارے میںجو پیشگوئی کر رہے تھے‘ گزشتہ سال وہی کچھ دیکھنے میں آیا۔ بھارت کے لیے عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر آگسٹ ٹینو نے گزشتہ سال اپریل میں کہا تھا کہ ’’اعتما دکی بحالی کے لیے سرکاری شعبے کی سرمایہ کاری کافی نہیں ہوتی۔ آپ کو ایسی ٹھوس اصلاحات کرنا ہوتی ہیں جنہیں دیکھ کر نجی شعبہ سرمایہ لگاتا ہے‘‘۔
یہ اعتماد کی کمی ہے کہ سٹاک مارکیٹس سرمایہ کاری کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہیں جبکہ غیر ملکی سرمایہ کار بھارتی کمپنیوں میں خریداری کرنے کے بجائے واپس جا رہے ہیں۔ بھارت کے معاشی مرکز ممبئی کی سٹاک مارکیٹ میں اس وقت چار ٹریلین ڈالرز کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے جو ایک سال پہلے تین ٹریلین ڈالرز تھی اور اب یہ ہانگ کانگ کی سٹاک مارکیٹ کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ بھارت میں غیر ملکی سرمایے کی سالانہ اوسط چالیس ارب ڈالرز تھی جو پچھلے سال تیرہ ارب ڈالر پر آ گئی تھی۔ بزنس مین سرمایہ کاری کرنے سے پہلے نریندر مودی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ بزنس ہمیشہ سیاسی استحکام مانگتا ہے اور بھارت کو مدت ہوئی کہ کوئی مضبوط سیاسی لیڈر ملا ہو؛ تاہم نریندر مودی دسمبر میں ہندو اکثریتی صوبوں میں تین انتخابات میں اپوزیشن کی بڑی پارٹی کو شکست دے چکے ہیں اور اگلے قومی الیکشن میں بھی وہی فاتح سمجھے جا رہے ہیں۔
نریندر مودی بزنس دوست سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کی حکومت معاشی امور میں جس طرح مداخلت کرتی ہے سرمایہ کار اسے خطرناک سمجھتے ہیں۔ اگست میں حکومت نے لیپ ٹاپ کی درآمد پر پابندی لگانے کا اعلان کر دیا تاکہ ملکی پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔ یوں جو کاروبار صرف لیپ ٹاپ ہی پر انحصار کرتے ہیں‘ انہیں ایک غلط پیغام دیا گیا؛ چنانچہ احتجاج کے بعد حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا؛ تاہم مجموعی طور پر نریندر مودی کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میںکاروبار کے ماحول میں بہتری آئی ہے۔ اہم شعبے بہتر کام کر رہے ہیں، مختلف سطحات پر کرپشن میں کمی آئی ہے اور کامرس کی ڈیجیٹلائزیشن سے ترقی کے نئے دروازے کھلے ہیں۔برائون یونیورسٹی امریکہ کے ایک اکانومسٹ اروند سبھرا مینین‘ جو نریندر مودی کی سرکار میں چیف اکانومسٹ بھی رہ چکے ہیں‘ کا کہنا ہے کہ ’’نریندر مودی کے دور کے بارے میں دلچسپ اور پیچیدہ پہلو یہ ہے کہ اس میں شور شرابا اور ہیرا پھیری زیادہ ہے۔ لیکن یہ سب کچھ بہترکارکردگی کے نام پر ہو رہا ہے‘‘۔ پھر بھی جو حکام غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کے ذمہ دار ہیں‘ ان کا شکوہ ہے کہ بھارت میں بزنس کرنے میں جن تکالیف کا سامنا تھا وہ آج بھی موجود ہیں۔ سب سے زیادہ شکایت بیورو کریسی کے حوالے سے پائی جاتی ہیں۔ کسی بھی منصوبے کی منظوری میں ہر سطح پر بہت سے سرکاری حکام ملوث ہو جاتے ہیں، عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کرنا تو کجا‘ فیصلہ لینا بھی ایک سر درد سے کم نہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کار ہو یا مقامی بزنس مین‘ دونوں متمول صارفین کو ہی اپنا ہدف بناتے ہیں۔ ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں بیس کروڑ ایسے صارفین موجود ہیں جو مغربی ممالک کے صارفین والی مصنوعات خرید سکتے ہیں، پُرتعیش گھر بنا سکتے ہیں اور مہنگی گاڑیاںخرید سکتے ہیں۔ باقی ساری آبادی کے لیے تو دو وقت کی روٹی اور پٹرول کے اخرجات پورے کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ بینک اپنے صارفین کو دھڑا دھڑ قرضے اور کریڈٹ تو دے رہے ہیں مگر بزنس کے لیے قرضوں کا حصول اتنا آسان نہیں ہے؛ چنانچہ بزنس والوں کو یہ خوف ہے کہ آنے والے برسوں میں ان کے گاہک مشکلات پیدا کر دیں گے۔ اروند سبھرا مینین کہتے ہیں کہ ’’فی الحال تو ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ سرمایہ کار بھارت کے حوالے سے زیادہ پُراعتماد محسوس کر رہے ہوں‘‘ تاہم وہ پُرامید ہیں۔
سالانہ شرحِ نمو اگر چھ فیصد سے کم رہی تو بھی قابلِ رشک ہے۔ بہتر انفراسٹرکچر کو مزید سرمایہ کاری کو اپنی جانب کھینچنا چاہئے۔ صارف کے مالی وسائل‘ جن کی غیر منصفانہ تقسیم ہو رہی ہے‘ سے ملنے والے فوائد کی بدولت آمدن مزید بڑھائی جا سکتی ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ بھارت عالمی منڈی میں چین کے حصے میں سے کتنا بزنس شیئر حاصل کرتا ہے۔ایپل تین ارب ڈالر مالیت کی کمپنی ہے اور وہ اپنی سپلائی چین کا ایک بڑا حصہ چین سے باہر منتقل کر رہی ہے۔ آئی فون کی بھارت میں پانچ فیصد مارکیٹ ہے مگرسات فیصد آئی فون بھارت میں بنائے جا رہے ہیں۔ جے پی مورگن چیز کا کہنا ہے کہ ایپل اس شیئر کو 2025ء تک پچیس فیصد تک لے جانا چاہتا ہے۔
(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)