فضائی سفر میں مسافروں کی سیفٹی …(2)
تحریر: زینب توفیق
بوئنگ 737 میکس لائن نے اور بھی کئی سبق سیکھے ہیں۔ جب 2018ء اور 2019ء میں یکے بعد دیگر ے اس کے دوجہازوں کو حادثات کا سامنا کرنا پڑا جس میں کل تین سو چھیالیس مسافر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے تو اس کے جہازوں کو گرائونڈ کر دیا گیا۔ سب سے پہلے تو کچھ عناصر نے ان حادثات کا الزام ناتجربہ کار پائلٹس پر لگایا اور ساتھ ہی سافٹ ویئر میں آنے والی ممکنہ خرابی کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔ لیکن جلد ہی معاملہ سمجھ میں آ گیا کہ اصل مسئلہ تو کارپوریٹ لالچ کا ہے جس میں وقتی مفادات کے حصول کے لیے بہت سے شارٹ کٹس لیے گئے تھے اور اس وقت ایوی ایشن ریگولیٹرز نے ان فیصلوں کی مزاحمت کرنے کے بجائے غفلت اور کوتاہی کا مظاہرہ کیا تھا۔
الاسکا ایئر لائنز کے جہاز کا ہنگامی دروازہ ٹوٹنے کے واقعے میں کوئی وجہ نہیں کہ اس کا الزام روایتی طور پر ایگزٹ ڈور کے پلگ میں خرابی پر لگا دیا جائے۔ جہاز بالکل نیا تھا۔ ابھی آٹھ ہفتے قبل ہی اس کو الاسکا ایئر لائنز میں شامل کیا گیا تھا اور دوسرا یہ کہ حادثہ بہت کم اونچائی پر پیش آیا تھا؛ چنانچہ گڑبڑ مینوفیکچرنگ یا اس کی اسمبلی میں ہوئی ہو گی اور اس لیے کارپوریٹ کلچر کی دوبارہ سکروٹنی ہو سکتی ہے۔ اصل حقائق کے لیے ہمیں نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ کی تحقیقاتی رپورٹ کا انتظار کرنا ہوگا؛ تاہم دروازہ ٹوٹنے کے بعد کیا ہوا؟ سب سے پہلے تو پائلٹ نے جہاز میں ایمرجنسی لگا دی، ایئر ٹریفک کنٹرول نے اطلاع ملنے کے بعد فوری طور پر جہاز کی لینڈنگ کرانے کے لیے رن وے کلیئر کرا لیا۔ جہاز نے واپس چکر لگایا اور پندرہ منٹ میں لینڈ کرگیا جس سے ہم نے یہ سیکھا ہے کہ یہ سب کچھ ہمار ے لیے باعث حیرت نہیں ہو سکتا۔ نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ نے میڈیا رپورٹرز کو بتایا کہ جہاز میں پریشر وارننگ دینے والی لائٹ پہلے بھی تین مرتبہ روشن ہوئی تھی۔ مینٹینینس کریو نے اس لائٹ کو کلیئر کر دیا تھا لیکن الاسکا ایئر لائن نے اس جہا ز کو گرائونڈ کرنے کے بجائے صرف زمین پر ہی اڑنے کی پابندی لگا دی تھی تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں یہ فوری طور پر لینڈ کر سکے۔ اگر یہی دروزاہ کسی سمندر کے اوپر فلائٹ کے دوران ٹوٹا ہوتا تو شاید صورت حال مختلف ہوتی اور یہ کسی بھی ایئر پورٹ پر لینڈ نہ کر سکتا۔
پائلٹ اور کنٹرول ٹاور کے درمیان کیا بات چیت ہوئی‘ اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے تاہم اتنا ضرور ہے کہ اس دوران مکمل پروفیشنل ازم اور مہارت کا مظاہرہ کیا گیا اور جہاز کو جلد ایئر پورٹ پر اتار لیا گیا اور یہ سارا آپریشن پندرہ سال پہلے دریائے ہڈسن جیسے کرشمے کے مشابہ تھا جب ایک پرندے کے ٹکرانے سے جہاز کا انجن بے کار ہو گیا تو کیپٹن سلی نے جہاز کو دریائے ہڈسن میں اتار لیا تھا اور یوں اس میں سوار تمام مسافروں کی جان بچا لی گئی۔ پائلٹس کو ایسی ہی باتوں کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور ضرورت پڑنے پروہ ایسا کر بھی دکھاتے ہیں۔ جب جہاز کا انجن بند ہوا تو پہلے تو پائلٹ اور کنٹرول ٹاور میں چار منٹ کی مختصر بات ہوئی اور پھر پائلٹ نے جہاز دریائے ہڈسن میں اتار دیا تو کوئی بھی یہ اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ کچھ ہی دیر بعد ایک لاکھ پچاس ہزار پونڈ وزنی اس جہاز کے ساتھ دریائے ہڈسن میں کیا ہونے والا ہے‘ جو دنیا کے سب سے بڑے شہر کے ساتھ ہی بہہ رہا تھا۔ لیکن ایسی ہی ہنگامی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہوائی جہاز کے پائلٹس کو ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اس واقعے کے بعد پائلٹ نے کیٹی کوریس کو بتایا تھا کہ ’’پچھلے بیالیس برس سے میں تھوڑا تھوڑا کرکے اپنے تجربے، تعلیم اور ٹریننگ کے بینک میں کچھ نہ کچھ جمع کرتا رہا۔ اور یوں پندرہ جنوری تک میرے اکائونٹ میں کافی بیلنس جمع ہو چکا تھا اور پھر میں نے اس اکائونٹ سے بھاری رقم نکلوانے کا فیصلہ کر لیا‘‘۔
اگر کسی فضائی حادثے میں پائلٹ کی غلطی ہو بھی تو نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ کی تحقیقات کا آغاز کسی کو بھی مورد ِالزام ٹھہرائے بغیر کیا جاتا ہے اور ان تحقیقات کا بنیادی مقصد محض غلطی کی نشاندہی کرنا ہوتا ہے تاکہ مستقبل میں اس غلطی اور کوتاہی کے دوبارہ ہونے کا امکان ختم کیا جا سکے۔ اس اپروچ کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس حادثے سے متعلقہ لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ اپنے اوپر حادثے کی ذمہ داری پڑنے کے خوف سے نکل کر بالکل آزادانہ ماحول میں تحقیقات میں مکمل تعاون کرتے ہیں۔ وہ اپنی غلطی کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے‘ وگرنہ اتھارٹیز مسئلے کا حل ڈھونڈنے یا ممکنہ غلطی کی نشاندہی کرنے اور ازالہ کرنے کے بجائے کسی ایسے شکار کی تلاش میں رہتی ہیں جس پر ملبہ ڈال کر اپنی گلوخلاصی کرائی جا سکے۔
جوں جوں مزید حقائق آپ کے سامنے آتے ہیں تو اتنے ہی زیادہ سوالات بھی اٹھیں گے کہ اصل میں کہاں پر غلطی ہوئی یا کیا خرابی پیدا ہوئی۔ مثال کے طور پر یونائٹیڈ ایئر لائنز اور الاسکا ایئر لائنز کو اپنے گرائونڈ کیے ہوئے جہازوں کے مشاہدے کے بعد پتا چلا کہ ان دونوں کمپنیوں کے بوئنگ جہازوں کے بولٹ ڈھیلے تھے۔ کوسٹ گارڈز کے جس جاپانی جہاز کو حادثہ پیش آیا تھا اس کا قصور یہ تھا کہ وہ اس وقت غلط جگہ پر موجود تھا۔ لیکن اس کی تحقیقات میں پیش رفت اس طرح ممکن ہوئی کہ سب سے پہلے اپنی اس غلطی کا اعتراف کیا گیا اور اس کے بعد اس نقطۂ نظر سے حادثے تحقیقات کی گئیں کہ مستقبل میں ایسی کسی غلطی کا اعادہ نہ ہو یا اس کا امکان کم سے کم ہو جائے۔
نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ نے جو بھی رپورٹس پیش کی ہیں اور مجھے جن کو پڑھنے کا موقع ملا ہے ان میں صرف اسی طرح کی معلومات کو اکٹھا کیا گیا ہے۔ مرحلہ وار سال بہ سال کی انفارمیشن جمع کی گئی ہے اور پھر ہر حادثے سے متعلق ہونے والی تحقیقاتی رپورٹس کی معلومات کو اکٹھا کیا گیا ہے، ہر حادثے کی ترتیب کے مطابق حقائق کو جمع کیا گیا ہے۔ چونکہ دنیا بھر میں ہر وقت بہت سی ایئر لائنز کے جہاز محو پرواز رہتے ہیں لیکن کمرشل بنیادوں پر اڑنے والے جہازوں میں سفر نسبتاً زیادہ محفوظ سمجھا جاتا ہے حالانکہ ان کا آپریشن اس لیے زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہوتا ہے کہ ان میں بہت زیادہ انسانی کاوش، سافٹ ویئرز، موسم اور فضا میں اڑنے والی دیگر دھاتی اشیا بھی ملوث ہوتی ہیں۔ زیادہ تر اوقات میں تو یہ آپریشنز اتنے عمدہ طریقے سے چل رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان کا نوٹس ہی نہیں لیتے۔ اس میں اصل کمال تو اس انفراسٹرکچر کا ہوتا ہے جو بہترین انداز میں کام کر رہا ہوتا ہے لیکن وہ بظاہر کسی کو نظر نہیں آتا۔ کئی مرتبہ ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے کہ جو کچھ نظروں سے اوجھل رہ کر بھی ہمیں محفوظ رکھنے میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہوتا ہے، اسے محض آگاہی پیدا کرنے کی نیت سے ہی لازماً عوام کی نظروں کے سامنے لایا جائے۔
(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)