ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

بھارت: گجرات کے قاتل کو سزا کب ہو گی؟

تحریر: رشید الدین

ایودھیا میں 22 جنوری کو ’’رام مندر‘‘ کے افتتاح کا اعلان کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر تیاریوں کا آغاز کیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 40 فیصد تعمیری کام کی تکمیل کو افتتاح کیسے کہا جائے گا؟ آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کو رام مندر کے افتتاح کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ سیاسی مبصرین اور ہندو دھرم کی مذہبی شخصیتوں نے سوال کیا ہے کہ آخر نامکمل مندر کے افتتاح میں عجلت کیوں ؟ سنگھ پریوار مندر کی تعمیر تک اس لیے انتظار نہیں کرسکتا کہ لوک سبھا الیکشن میں مندر کے نام پر ووٹ حاصل کرنے ہیں۔ سیاسی فائدے کیلئے نامکمل مندر کو مکمل عمارت کے طور پر پیش کرتے ہوئے نہ صرف عوام بلکہ خود بھگوان کو دھوکا دیا جارہا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب جنون سر پر سوار ہو جائے تو کسی کو دھوکا دینے میں عار محسوس نہیں ہوتی۔ ہندو سماج کو یہ تاثر دیا جائے گا کہ رام مندر دراصل نریندر مودی کا کارنامہ ہے۔ نریندر مودی کے پاس 10 برسوں میں ایک بھی کام ایسا نہیں جسے کارنامے کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ مودی حکومت نے عوام کے مسائل کم کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کیا ہے لیکن اب مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ووٹ حاصل کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اگر مندر کے مکمل ہونے تک انتظار کیا جائے تو اقتدار ہاتھ سے نکلنے کا اندیشہ ہے۔ ویسے بھی عوام کو اپنی جملے بازی کے ذریعے جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے میں مودی کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ 40 فیصد کام کو ہی سو فیصد تیار مندر کی طرح پیش کرنے کا فن جانتے ہیں۔ 

رام مندر کی افتتاحی تقریب دراصل بھارت میں بی جے پی کی لوک سبھا انتخابی مہم کا آغاز ہے۔ بی جے پی جانتی ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی کے ذریعہ ہی ہندوؤں کو متحد کیا جاسکتا ہے لہٰذا اس موقع پر بھارت بھر میں جشن کا اعلان کیا گیا ہے تاکہ مسلمان مشتعل ہوکر ردعمل ظاہر کریں۔ عوام کو چوکس رہنا ہوگا۔ حالات بگاڑنے کی کسی بھی سازش کو ہندو اور مسلمان مل کر ناکام بنائیں۔ رام مندر کے افتتاح کے مسئلہ پر بھارت کے چار شنکر اچاریاؤں نے اختلاف کرتے ہوئے تقریب میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہندو مذہب کے گرو مانے جانیوالے چاروں شنکر اچاریہ اس بات پر ناراض ہیں کہ تعمیری کام کی تکمیل کے بغیر ہی افتتاح کا اعلان کردیا گیا۔ بی جے پی اپنے سیاسی پلیٹ فارم کو قومی تقریب کا نام دے رہی ہے۔ دستورِ ہند کے مطابق کسی بھی حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور عبادت گاہیں تعمیر کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے۔ حتیٰ کہ سرکاری تقاریب میں مذہبی رسوم انجام دینے کی بھی ممانعت ہے۔ اگر مندر کا افتتاح قومی تقریب ہے تو گزشتہ دس برسوں میں ایسی ایک بھی مثال کیوں نہیں ملتی کہ مودی حکومت نے کسی اور مذہب کے تہوار یا تقریب کو قومی تقریب کے طور پر منایا ہو۔ بھارت کو ہندو راشٹر کے راستے پر گامزن کرتے ہوئے صرف اکثریتی طبقے کی تقاریب کو قومی رنگ دیا جارہا ہے۔آج بھی ہندوؤں کی خاموش اکثریت کو ہندوتوا ایجنڈا پسند نہیں ہے۔

 ’’سب کا ساتھ‘ سب کا وِکاس (ترقی)‘ سب کا وشواس (یقین)‘‘ کا نعرہ لگانے والے نریندر مودی نے نہ سب کا ساتھ دیا، نہ سب کا وکاس یقینی بنایا اور نہ سب کا وشواس حاصل کیا۔ وزارتِ عظمیٰ کا حلف لیتے ہوئے تمام طبقات سے انصاف اور کسی بھی طرح کا بھید بھاؤ نہ کرنے کی قسم کھانے والے نر یندر مودی بھول رہے ہیں کہ ان کی کابینہ میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ مختار عباس نقوی جو واحد مسلم وزیر تھے‘ راجیہ سبھا کی میعاد کی تکمیل کیساتھ ہی وزارت سے علیحدہ کر دیے گئے۔ مختار عباس نقوی سَنگھ پریوار کے داماد ہیں لیکن مسلمانوں سے نفرت کا یہ عالم ہے کہ کابینہ میں داماد بھی پسند نہیں۔ بھارت کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے جب مسلم نمائندگی کے بغیر مرکزی کابینہ تشکیل پائی۔ شاہنواز حسین کو مرکز سے ہٹاکر بہار تک محدود کردیا گیا۔ مودی نے مسلم طلبہ کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں لیپ ٹاپ دینے کا اعلان کیا تھا لیکن مسلمانوں کو عیدالفطر اور بقرعید کی مبارکباد پیش کرنے میں احتیاط سے کام لیا۔ ہر سال اجمیر شریف کو چادر روانہ کرنے سے مسلمانوں کے حقوق ادا نہیں ہوں گے۔ جان و مال، عزت آبرو کی حفاظت اور معاشی، تعلیمی اور سماجی سطح پر ترقی کے مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ماب لنچنگ کے واقعات کی مودی نے آج تک مذمت نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ یہ واقعات گجرات فسادات کے مقابلے کچھ نہیں۔ جب مودی کو گجرات فسادات کا افسوس نہیں تو وہ ان تازہ واقعات پر کیا افسوس جتائیں گے۔

بھارت میں رام مندر کی تحریک چلانیوالے کوئی اور تھے لیکن مندر کی تعمیر کا سہرا مودی اپنے سر باندھنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے مندر کے افتتاح کے دن تک 11 دن بھرت رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے خود کو ہندوؤں کے جذبات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ رام مندر کے نام پر سیاست کرتے ہوئے افتتاحی تقریب میں شرکت نہ کرنے والوں کو ہندو دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کانگریسی قائدین، سونیا گاندھی، ملکارجن کھرگے اور ادھیر رنجن چودھری کو رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے لیکن انہوں نے شرکت سے انکار کرتے ہوئے جرأت مندانہ فیصلہ کیا ہے۔ کانگریس قیادت نے ووٹ بینک سیاست کی پروا کیے بغیر اپنے اصولوں کی پاسداری کی۔ اگرچہ کانگریس کے بعض قائدین کو اندیشہ ہے کہ افتتاحی تقریب میں عدم شرکت سے کانگریس پارٹی ہندو ووٹ سے محروم ہوسکتی ہے لیکن قیادت نے اصولوں پر سمجھوتا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے عوام کا دل جیت لیا ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کانگریس قیادت پر حملے تیز کردیے اور انہیں ہندو مخالف ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ 

بی جے پی اور نریندر مودی دن رات حکومت کی 10 سالہ کارکردگی عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ اگر حکومت کی قابلِ ذکر کارکردگی اور کارنامے موجود ہیں تو پھر رام مندر کے نام پرووٹ مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟ دوسری طرف بھارتی سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کو انصاف فراہم کرتے ہوئے انصاف کی امید دلائی ہے۔ 2002ء کے گجرات فسادات کے ہزاروں متاثرین انصاف کیلئے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں لیکن نچلی عدالتوں کے فیصلوں سے قاتل آزاد گھوم رہے ہیں۔ گجرات کی بی جے پی حکومت ہمیشہ کی طرح ملزمین کی سرپرستی کر رہی ہے۔ 15 اگست 2022 ء کو بلقیس بانو کیس میں جیل میں سز ا کاٹنے والے 11 مجرموں کی سزا معاف کرتے ہوئے حکومت نے انہیں رہا کردیا تھا۔ عدالت کی جانب سے سزا کے باوجود حکومت نے سزا معاف کرتے ہوئے مجرموں کی حوصلہ افزائی کی۔ سپریم کورٹ میں طویل قانونی لڑائی لڑی گئی اور آخرکار کامیابی ملی اور سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کے فیصلے کو کالعدم کرتے ہوئے مجرموں کو دوبارہ جیل بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ یہ وہی مجرم ہیں جن کی رہائی پربی جے پی نے نہ صرف جشن منایا تھا بلکہ انہیں اعزاز و اکرام سے نوازا۔ بلقیس بانو کی طرح کانگریس کے سابق رکنِ پارلیمنٹ احسان جعفری کی بیوہ بھی انصاف کیلئے عدالت کے چکر کاٹ رہی ہیں۔ امید ہے کہ عدلیہ بلقیس بانو کی طرح احسان جعفری کیس میں بھی مجرموں کو سزا دے گی۔ گجرات فسادات کے ماسٹر مائنڈ قائدین اب دہلی میں اقتدار کی کرسیوں پر فائز ہیں اور ان کی آخری امید سپریم کورٹ ہے۔ بلقیس بانو کیس کے فیصلے کے بعد عوام کو دیگر مقدمات میں انصاف کا انتظار ہے۔

(بشکریہ: سیاست انڈیا)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement