ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ایران امریکہ پراکسی جنگ

تحریر: ڈیوڈ سینگر

سب کو ڈر تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی جنگ شروع ہونے والی ہے جو امریکہ‘ اسرائیل اور ایران کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اس تنازع کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ براہِ راست تصادم سے بچنے کے لیے ایران اور امریکہ نے غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے۔ امریکی اور یورپی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ جنگ کب تک جاری رہے گی۔ لیکن اہم فریقوں کا خیال ہے کہ ایران نے اپنی پراکسی وار کے ذریعے امریکی فوج کو مشکلات میں دھکیل دیا ہے۔ مغرب اور اسرائیل کی بحیرۂ احمر سے گزرنے والی شپنگ کمپنیوں کو شدید دبائو میں پھنسا دیا ہے لیکن ساتھ یہ احتیاط بھی کی ہے کہ جنگ زیادہ بڑے پیمانے تک نہ پھیلے۔ دوسری جانب ایران نے اپنے ہاں یورینیم کی افزودگی اور پیداوار کو اس سطح تک بڑھا دیا ہے جس کی مدد سے ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل ہو جائے تاہم اسے اس ممکنہ معیار سے قدرے نیچے ہی رکھا ہے تاکہ اسے بم گریڈ جوہری ایندھن قرار دیا جائے۔جب اسرائیل نے حماس کے ایک لیڈر کو شہید کرنے کے لیے جنوبی لبنان پر حملہ کیا تو اس نے قریب موجود حزب اللہ کے جنگجوؤں پر کسی قسم کا حملہ کرنے سے گریز کیا۔ اس سے اسرائیلی حکام نے حزب اللہ پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ اسے حماس سے بدلہ لینے کے لیے جنوبی لبنان کی سرحدوں پر کشیدگی میں اضافہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے‘ لیکن اس کے صرف چھ دن بعد ہی اس نے حزب اللہ کی ایلیٹ فورس کے کمانڈر وصام حسن طاول کو نشانہ بنایا جو حزب اللہ کے سینئر موسٹ کمانڈر تھے۔

جب امریکہ نے حوثی باغیوں کی یمن میں تنصیبات‘ راڈار اور اسلحہ ڈپوؤں پر گزشتہ ہفتے حملہ کیا تھا تو اس نے یہ حملہ رات کے اندھیرے میں کیا تھا جس سے امریکہ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اس کا حوثی قیادت پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن انہیں مجبوری میں ایسا کرنا پڑا‘ تاہم ایک سابق امریکی سفارت کار ریان سی کراکر کے مطابق یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایران مشرقِ وسطیٰ  میں ہلچل پیدا کر دے لیکن ایک مکمل جنگ اس ملک کے مفاد میں نہیں ہے جس کی قیادت کی پوری کوشش ہے کہ ایران میں ایک مستحکم حکومت برقرا ررہے۔ امریکی حکومت نے بھی پوری کوشش کی ہے کہ یہ کشیدگی ایک حد سے آگے نہ بڑھے۔ لیکن تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب امریکی فوج کو آدھی دنیا دور تنازع میں ملوث ہونے سے روکنے میں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ 1917ء میں پہلی جنگ عظیم کی صورتحال ہو یا 1941ء میں دوسری جنگ عظیم کے حالات ہوں‘ 1950ء میں کوریا کا بحران ہو یا 1960ء کی دہائی میں ویت نام جنگ ہو۔ حادثات ہوں یا کسی لیڈر کا قتل‘ کسی بحری جہاز کا ڈوبنا ہو یا گائیڈنس سسٹم میں رونما ہونے والی کوئی خرابی ہو‘ انتہائی محتاط طریقے سے وضع کی جانے والی جنگی حکمت عملی بھی سنگین نتائج اور شدید نقصان کا باعث بنتی رہی ہے۔ تاہم آج سے دو سال قبل یوکرین میں شروع ہونے والی جنگ کے دوران ایسی ہی احتیاط کی پالیسی نے مثبت نتائج دیے ہیں جن پر صدر بائیڈن کے قریب ترین مشیر بھی حیرت زدہ ہو گئے۔ حالانکہ انہوں نے ابتدا میں یہ ہدایات جاری کردی تھیں کہ امریکی فوج کو جنگ میں براہِ راست ملوث کرنے کے علاوہ یوکرین کو روس کے خلاف سپورٹ کرنے کے لیے جو کچھ بھی ممکن ہے‘ وہ کیا جائے۔ انہوں نے یہ ہدایات بھی جاری کر دیں کہ یوکرین روسی سرزمین پر کسی بھی جنگی کارروائی میں امریکی اسلحہ استعمال نہیں کرے گا جبکہ یہ تشویش مسلسل رہی کہ اگر کسی روسی میزائل نے نیٹو کے کسی رکن ملک کی سرزمین کو ہٹ کر دیا تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے گا۔جہاں کیوبا کا میزائل بحران پیدا ہونے کے بعد روس اور امریکہ 80سال کی سرد جنگ کے سگنل بھیجنے کی تاریخ رکھتے ہیں جس کے بعد ہی دونوںممالک کے درمیان ہاٹ لائن رابطوں کا سسٹم قائم کر دیا گیا تھا۔ لیکن ایران کے معاملے میں نہ ایسی کوئی تاریخ ہے اور نہ براہِ راست رابطے قائم ہیں کہ یہ یقین دہانی ہو کہ کنٹرول میں رہنے والی صورت حال آئندہ بھی قابو میں رہے گی۔امریکی انٹیلی جنس حکام اپنے انٹرویوز میں یہ دعوے کر رہے ہیں کہ ان کے خیال میں ایران نے اگرچہ حوثی باغیوں کی بحیرۂ احمر سے گزرنے والے بحری جہازوں پر حملوں کی حوصلہ افزائی کی ہے مگر وہ ہر گز یہ نہیں چاہتا کہ جنگ بڑے پیمانے پر پھیل جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان پراکسی جنگوں کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کیلئے مشکلات تو پیدا ہوں مگر کوئی ایسی جنگ نہ شروع ہو جس سے ایران بچنا چاہتا ہے۔

انٹیلی جنس حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابھی تک کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا کہ القدس فورس کے کمانڈرز یا ایران کے سپریم لیڈر حوثی باغیوں کو بحیرۂ احمر سے گزرنے والے بحری جہازوں پر حملے کرنے کے لیے کہا ہو۔ لیکن اس وقت سوال یہ نہیں ہے کہ ایران نے حوثی اقدامات کو سپورٹ کیا ہے یا نہیں۔ انٹیلی جنس حکام کا دعویٰ ہے کہ ایرانی حکام یہ سمجھتے ہیں کہ کشیدگی میں اضافے سے مغربی ممالک کو ہونے والے نقصان میں اضافہ تو ہو گا مگر کسی بڑی جنگ شروع ہونے کا خدشہ نہیں ہو گا۔

ریان سی کراکر کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں اہم سوال یہ ہے کہ ان پراکسی جنگوں میں ایران کس حد تک ملوث ہے اور کس حد تک یہ مقامی عناصر کے اپنے اقدامات ہیں۔ مسٹر کراکر یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ایرانی سپریم لیڈر اپنے پیشرو کے مقابلے میں خطے کی صورتحال کو متاثر کرنے کے حوالے سے زیادہ گرفت رکھتے  ہیں لیکن ان کے سامنے بھی یہی سوال ہے کہ وہ حالات پر براہِ راست کتنی گرفت رکھتے ہیں۔ سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی سخت گیر حکومت کے مقابلے میں امریکی حکومت کو زیادہ تشویش ہے کہ کشیدگی قابو سے باہر نہ ہو جائے۔ لندن میں قائم ایک ریسرچ تنظیم چیتھم ہائوس میں ایرانی امور کی ماہر صنم وکیل کہتی ہیں کہ ’’ایران نے پوری کوشش کی ہے کہ یہ تنازع عالمی نوعیت اختیار کر جائے۔ ایران کی ریڈلائن اس کے بارڈرز ہیں۔ اس مرحلے پر وہ خطے میں جوا کھیلنے کے لیے تو تیار ہے مگر اپنی سرحدوں کے اندر نہیں‘‘۔ لیکن سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اگر اس جنگ میں امریکی فوجی مارے گئے تو امریکہ پر یہ دباؤ بڑھ جائے گا کہ وہ براہِ راست ایران پر حملہ کر دے۔ 

بشکریہ: نیو یارک ٹائمز‘ انتخاب: دنیا ریسرچ سیل‘ مترجم: زاہد رامے

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement