ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

امریکہ: ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ

تحریر: کرسٹینا جیوئیٹ

فلوریڈا نے کینیڈا سے ادویات امپورٹ کر کے بچت کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا‘ ایف ڈی اے نے اسی مہینے اس کی منظوری دی ہے۔ اس نے امریکہ میں ادویات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ ریسرچ سے مسلسل یہ پتا چلتا رہا ہے کہ امریکہ میں ادویات کی قیمتیں دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ 2018ء میں یہ فرانس اور برطانیہ کے مقابلے میں دو گنا تھیں جبکہ اس میں وہ ڈسکائونٹس بھی شامل تھے جن کی وجہ سے امریکی شہریوں کی صحت پر آنے والے اخراجات میں کمی ہو جاتی ہے۔ ہارورڈ میڈیکل سکول میں فارماسوٹیکل پالیسی کے ماہر امیت سرپٹواری کہتے ہیں کہ ’’امریکی مارکیٹ فارماسوٹیکل کمپنیوں کا بینک ہے۔ یہ گہرا تاثر پایا جاتا ہے کہ اپنے موجودہ سسٹم اور اس کی غیر فعالیت کی وجہ سے منافع کمانے کے لیے امریکہ ایک بہترین جگہ ہے‘‘۔ امریکہ میں ادویات مہنگی ہونے کی چھ اہم وجوہات یہ ہیں۔

کوئی مرکزی سہولت کار نہیں ہے۔ دیگر ممالک میں ایک ہی مرکزی ادارے پر انحصار کیا جاتا ہے۔ عموماً حکومت ہی یہ طے کرتی ہے کہ کیا فارماسوٹیکل کمپنیوں کی طرف سے لی جانے والی قیمتوں کو قبول کیا جائے گا یا نہیں۔ امریکہ میں مذاکرات کا یہ سلسلہ ہزاروں ہیلتھ پلانز میں تقسیم ہے اس لیے گاہک کے پاس کم قیمت کا کوئی چوائس نہیں ہے۔ دیگر ممالک میں یہ تجزیہ بھی دستیاب ہوتا ہے کہ اگر کوئی کمپنی مارکیٹ میں موجود پہلی ادویات کے مقابلے میں نئی دوائی لاتی ہے تو اس سے عوام کو کیا فائدہ ہو گا اور وہ کس قیمت پر یہ دوا دے گی۔ اگر قیمت زیادہ اور فائدہ کم ہے تو یہ ممالک اس کمپنی کو اجازت دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ہیلتھ پالیسی ایکسپرٹ سٹیسی ڈسٹیزینا کا کہنا ہے کہ ’’مذاکرات کاروں کی کمی وجہ سے ہم دوسرے ممالک کے مقابلے میں ادویات کی زیادہ قیمت دینے پر مجبور ہیں‘‘۔ ہیلتھ پالیسی کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ادویات کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے ایک وسیع تر مذاکراتی ادارہ بنانے کی ضرورت ہے۔ فارماسوٹیکل کمپنیاں کہتی ہیں کہ مہنگی ادویات کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ امریکی مریض کو تیزی سے اور انشورنس کی کم پابندیوں سے یہ ادویات دستیاب ہوتی ہیں۔

دوسری اہم وجہ قیمتوں پر کوئی کنٹرول نہ ہونا ہے۔ کئی ممالک ادویات کی قیمتوں کی بالائی حد مقرر کر دیتے ہیں۔ فرانس ڈرگ کمپنیوں کی توسیع اور ترقی پر ایک حد مقرر کر دیتا ہے۔ اگر کمپنی کی سیلز اس حد سے اوپر جاتی ہیں تو حکومت کو ان سے ری بیٹ ملتی ہے۔ امریکہ میں حکومت اس لیے بالائی قیمت مقرر کرنے سے گریز کرتی ہے کیونکہ ادویات کی لاگت انشورنس کمپنیاں ان کی ابتدائی قیمت کے مطابق ادا کرتی ہیں۔ سٹینفورڈ میں لاء اینڈ ہیلتھ پالیسی کی پروفیسر مشیل میلو کا کہنا ہے کہ ’’امریکہ میں ادویات اس لیے مہنگی ہیں کہ ہم انہیں مہنگا ہونے دیتے ہیں۔ ہم ادویات کی قیمت ان کی لاگت کے مطابق متعین کرتے ہیں اور ہمارا یہ سسٹم بغیر بریک والے انجن کی طرح ہے‘‘۔

مالی ترغیبات یعنی انسینٹوز کا خاتمہ کریں۔ امریکہ میں جب قیمتیں بڑھتی ہیں تو صرف ڈرگ کمپنیاں ہی نہیں بلکہ ڈاکٹرز، ہسپتال اور درمیانی سہولت کار بھی بھاری منافع کماتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ کئی ڈاکٹر بعض ادویات مثلاً کیمو تھراپی وغیرہ میں خود خرید کر اپنے کلینک پر مریض کو لگاتے ہیں اور اس کا بل اور لگانے کی اضافی لاگت ڈال کر کمپنی کو بھیج دیتے ہیں۔ یہ بلنگ سسٹم ڈاکٹرز کو مہنگی ادویات استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایک ڈاکٹر کسی کمپنی کی دس ہزار ڈالرز کی ادویات استعمال کرتا ہے تو چھ فیصد اپنی لاگت ڈال کر چھ سو ڈالرز اضافی لیتا ہے۔

منقسم سسٹم بھی مہنگی ادویات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ڈرگ انڈسٹری کے ایگزیکٹوز اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان پر بے جا طور پر مہنگی ادویات بیچنے کا الزام لگایا جاتا ہے جبکہ دیگر شراکت دار مثلاً فارمیسی بینی فٹ منیجرز اور انشورنس والے بھی ادویات کے بڑھتے ہوئے استعمال سے منافع لے رہے ہیں اور اس طرح مریض کے علاج میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ پی ایچ آر ایم اے کے ایک عہدیدار الیکس شرِور کہتے ہیں کہ امریکہ واحد ملک ہے جہاں مڈل مین کی بھی اجازت ہے جیسا کہ پی بی ایم‘ جو کسی چیک کے بغیر ادویات پر منافع کماتے ہیں۔

2022ء کی ایک سٹڈی کے مطابق مینوفیکچررز اس رقم کا صرف نصف حصہ لیتے ہیں جو کوئی بھی ہیلتھ کیئر کی ادائیگی کرنے والا کسی ڈاکٹر کے نسخے میں لکھی ہوئی دوائی کی قیمت ڈسکائونٹ کے بغیر ادا کرتا ہے۔ یہ سسٹم اس قدر پیچیدہ ہے کہ ادویات کے بارے میں کسی ڈاکٹر یا اس کے مریض کے لیے کسی دوائی کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے کہ کسی فارمیسی کے کائونٹر پر کسی بھی دوائی کی اصل قیمت کیا ہو گی؟ یہاں تک کہ ریسرچرز بھی اس سسٹم کا تجزیہ کرتے وقت مشکل میں پڑ جاتے ہیں خاص طور پر ڈرگ مینوفیکچرر، مڈل مین اور انشورنس کمپنیوں کے درمیان ہونے والے پیچیدہ معاہدوں کی وجہ سے ان کے لیے کسی مسئلے کی نشاندہی اور اس کا حل تجویز کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

کسی دوائی کا پیٹنٹ ہونے کا کھیل بھی خاصا پیچیدہ ہے۔ دنیا بھر کے ممالک میں حکومت ڈرگ کمپنیوں کو ادویات کے لیے پیٹنٹ جاری کرتی ہیں جس سے ان کمپنیوں کو اس دوائی پر اجارہ داری مل جاتی ہے اور اس دوران کم قیمت پر جنیرک دوائی بیچنے والے مسابقت کار مارکیٹ میں داخل نہیں ہو سکتے لیکن امریکہ میں ڈرگ کمپنیاں ادویات پر اپنی اجاری داری کو طول دینے کے لیے کئی حربے استعمال کرتی ہیں مثلاً وہ ایجاد کردہ دوائی کو تحفظ دینے کے لیے کئی پیٹنٹس لے لیتی ہیں جن کا ان کی دوائی کے ساتھ معمولی سا تعلق بھی ہوتا ہے۔ اس کی ایک اور مثال AbbVie کمپنی ہے جس نے اپنی مشہور دوائی Humira پر اجارہ داری امریکہ کے مقابلے میں یورپ میں چار سال تک مزید قائم رکھی، جس میں بنیادی فیکٹر پیٹنٹ تھا۔ ایک تجزیہ کار این جی او ’’انیشی ایٹو فار میڈیسنز اکسیس اینڈ نالج‘‘ جو ڈرگ پیٹنٹس کو ٹریک کرتی ہے‘ کے مطابق AbbVie کمپنی کی طرف سے پیٹنٹ کے لیے دی گئی کئی درخواستوں کو چیلنج کیے جانے کے بعد یورپ کے پیٹنٹ ایگزامینرز نے مسترد یا منسوخ کر دیا تھا۔ جب AbbVie کمپنی سے اس آرٹیکل کے سلسلے میں اپنا موقف دینے کے لیے رابطہ کیا گیا تو اس نے کسی قسم کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔

ادویات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بارے میں مارکیٹ کا کیا کہنا ہے؟ ڈرگ انڈسٹری کے ایگزیکٹوز اکثر یہ مؤقف اپنا تے ہیں کہ ہماری تیار کردہ دوائی کی قدر و قیمت ہی اس کی ویلیو کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ کسی سوسائٹی کے لیے کس قدر اہمیت رکھتی ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی میں فارما سوٹیکل قانون کے ایکسپرٹ کرسٹوفر مورٹن کا مؤقف ہے کہ ’’اگر ہم پانی کے بل پر کسی کمپنی کو وہی قیمت چارج کرنے کی اجازت دیں جو قدر و قیمت پانی ہماری زندگی میں رکھتا ہے تو وہ سوسائٹی بہت جلد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی‘‘۔ جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ حقیقت یہی ہے کہ ڈرگ کمپنیاں اتنی ہی زیادہ قیمتیں رکھتی ہیں جتنا کوئی مارکیٹ برداشت کر سکتی ہے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں