ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

کیا 2023ء گرم ترین سا ل تھا ؟

تحریر: ڈیوڈ ویلیس ویلز

گلوبل وارمنگ کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے دنیا بھر کے موسمیاتی سٹیشنوں سے ڈیٹا جمع کرنا ایک مشکل کام تھا۔ یاد رہے کہ 2023ء کا سال انسانی تاریخ کا گرم ترین سال قرار دیا گیا ہے اور ہماری روایتی موسمیاتی سائنس اس کی وجہ بتانے سے قاصر ہے۔ سارا بڑا ڈیٹا جمع ہو چکا ہے اور اسے برکلے ارتھ نے پچھلے ہفتے شائع کر دیا ہے۔کرۂ ارض کا اوسط درجہ حرارت صنعتی دور سے قبل کے درجہ حرارت سے 1.5 ڈگری سیلسیس زیادہ ہے۔ جب کلائمیٹ سائنس دان 1.5 ڈگری سیلسیس اضافے کی مقررہ حد ٹوٹنے کی بات کرتے ہیں جو کہ 2015ء کے پیرس معاہدے کے تحت مقرر کی گئی تھی‘ جس کے بعد انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج نے اپنی 2018ء کی سپیشل رپورٹ میں اس اضافے کے نتائج کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ درجہ حرارت میں اضافے کی شرح ایک سال کے بجائے طویل مدتی اوسط کے لیے مقرر کی گئی تھی۔ اس سال دنیا بھر کے معروف سائنس دانوں نے کہا ہے کہ ہمیں جب کبھی گرم ترین سال کا حوالہ دنیا کا مقصود ہوا تو ہم 2023ء پر آسانی سے دائرہ لگا سکتے ہیں۔

کئی سال تک تو 1.5  ڈگر ی اضافے کی شرح کے ہدف کو نظر انداز کیا گیا اور نجی محفلوں میں یہی کہا جاتا تھا کہ یہ ہدف ناقابل حصول ہے۔ لیکن عوامی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں اور فضا سے کاربن کے اخراج کے موضوع پر ہونے والی تمام میٹنگز میں آج بھی اسی شرح کو بنیادی ہدف قرار دیا جاتا ہے۔ غالباً 2024ء ایسا سال ہو گا جب امریکہ بھی اس ہدف سے دستبردار ہو جائے گا۔ کیا اس سے کوئی فر ق پڑ سکتا ہے؟ بعض حلقوں کے نزدیک 1.5 ڈگری سیلسیس کی شرح کے ہدف سے پیچھے ہٹنا ایک خوشگوار تبدیلی ہو گی کیونکہ ان کے نزدیک درجہ حرارت میں اضافے کا یہ ہدف اتنا ناقص اور غیر حقیقی تھا کہ اسے شروع کرنا ہی مشکل تھا۔ کرۂ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کی یہ شرح موجودہ صورتِ حال کے تناظر میں قلیل مدت کے لیے مفید ہو سکتی ہے لیکن اس سے موسمیاتی تبدیلیوں میں آنے والی سنگین خرابیوں کے حل میں کوئی رہنمائی نہیں مل سکے گی کیونکہ درجہ حرارت اور اس کے ممکنہ اثرات ہر جگہ پر مختلف ہوتے ہیں۔ ویسے بھی گلوبل درجہ حرارت کو کسی انسانی سرگرمی کے ساتھ منسلک بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کئی ماہرین کے نزدیک 1.5 ڈگری کا ہدف اس قدر یکطرفہ تھا کہ اسے شروع کرنا ہی مشکل کام تھا۔ اس میں ماحولیات کی سیفٹی کے لیے پرانے اعداد و شمار استعمال کیے گئے تھے اور اس کی روشنی میں یہ ایک چھوٹا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ اس میں جدید دور میں ہونے والی تباہ کن آفات اور قحطوں کا حوالہ دیا گیا تھا جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ محض درجہ حرارت ہی انسان کی قسمت اور مصائب کا تعین کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتا۔

اگر دنیا بھر میں کاربن کے اخراج کو روکنے کے لیے رکھے گئے بجٹ کو دیکھیں تو 2015ء کے پیرس ایگریمنٹ میں لکھے ہوئے اس ہدف کا حصول ناممکن نظر آتا ہے۔ جہاں تک پلاننگ کی بات ہے تو یہ ہدف درست ہو سکتا ہے لیکن اگر کلائمیٹ ہی اپنے فنکشن کے تناظر میں 1.5 ڈگری کے ا س ہدف سے پیچھے ہٹ گئی ہو تو انسانو ں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔ تاہم اگر ہم اس ہدف سے بھی آگے جانا چاہتے ہیں جو ماحولیات کے ماہرین نے ایک عشرے سے مقرر کر رکھا ہے تو یہ ہدف پورا نہ کرنے سے جو نقصان ہو چکا ہے ہمیں نہ صرف اس کا کھلے دل سے اعتراف کرنا ہو گا بلکہ یہ بھی ماننا ہو گا کہ اس سے ہمیں اس ہدف کے حصول میں کتنی مدد ملی ہے۔ اس ہدف کو پیرس ایگریمنٹ میں لکھنے سے اس کی کریڈیبلٹی بہت بڑھ گئی ہے لیکن ایک طرف تو پیرس معاہدے میں یہ ہدف مقرر کیا تھا مگر اس میں پہلے سے ہی گلوبل وارمنگ کی شرح 2 ڈگری سیلسیس بھی رکھی ہوئی تھی۔ حیران کن طور پر یہ ہدف کسی پریکٹیکل استدلال کے بجائے محض اخلاقی بنیاد پر مقرر کیا گیا تھا۔ زیادہ متاثرہ ممالک اور چھوٹے جزیروں میں رہنے والوں کی طرف سے شور کرنے پر یہ ہدف 1.5 ڈگری کر دیا گیا۔ انہوں نے 2 ڈگری کا ہدف نسل کشی یا موت کے مترادف قرار دیا تھا۔ جب کبھی انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج نے دنیا بھر میں ڈی کاربنائزیشن کی صورتِ حال کا جائزہ لیا یا اقوام متحدہ نے کاربن کے اخراج سے متعلق ایمشن گیپ رپورٹ شائع کی تو کلائمیٹ ایکشن ٹریکرز نے اپنے سی اے ٹی تھرمامیٹرز کو اَپ ڈیٹ کر لیا چنانچہ تقابل کے لیے 1.5 ڈگری سیلسیس کو بیس لائن بنا کر ہدف مقرر کر دیا گیا۔ کلائمیٹ لیفٹ اور کلائمیٹ رائٹ‘ دونوں کا یہ فیشن بن گیا ہے کہ وہ اس گیپ کو پورا کرنے کے تمام وعدوں کو یہ کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں کہ یہ محض باتیں ہیں۔ ان کے مطابق ایک کیمپ میں دنیا کے وہ لیڈرز ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے سنجید ہ نہیں ہیں اور دوسرے کیمپ میں جو ایڈووکیٹس شامل ہیں ان کے نزدیک یہ ایک ناقابل حصول ہدف ہے۔

اگرچہ پالیسی کی ایک اہمیت ہوتی ہے تو ایک حد تک وعدوں کی بھی اپنی اہمیت ہوتی ہے کیونکہ وعدے ہی کسی پالیسی پر عمل کراتے اور اسے آگے لے کر چلتے ہیں۔ اس طرح زبانی وعدوں اور عمل کے درمیان پایا جانے والا خلا پُر ہو جاتا ہے۔ ماحولیات کے نام پر ہونے والی جیو پالیٹکس سے زیادہ کوئی چیز پیچیدہ نہیں کیونکہ سب کو ایک ہی مقصد یا ہدف کے حصول پر متفق کرنا مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک طرف ممالک نے اپنے وعدوں کو بہت بڑھا چڑھا دیا ہے اور دوسری طرف ہم جانتے ہیں کہ سب کچھ ابھی محض وعدوں تک ہی محدود ہے۔ حال ہی میں کرۂ ارض کا درجہ حرارت اتنا بڑھ گیا کہ اب عالمی سطح پر ایک بے بسی محسوس ہو رہی ہے جس کی وجہ سے کچھ کلائمیٹ ایڈووکیٹس کو یہ تشویش لاحق ہو گئی ہے کہ کسی ناقابل حصول ہدف سے طویل عرصے تک چمٹے رہنے سے بھی شکست اور ناکامی کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ اگرچہ 1.5 ڈگری سیلسیس کا ہدف حاصل کرنا مشکل نظر آ رہا تھا مگر یہ ایک مفید ٹارگٹ ضرور تھا۔ شاید کچھ لوگوں کے لیے یہ ہدف ایک ایسا خواب تھا جس کی کوئی تعبیر نہیں تھی مثلاً جب ہم نے سنا کہ اگلے بارہ برسوں میں کاربن کا اخراج نصف کر دیا جائے گا‘ پیرس معاہدے میں بھی یہی کہا گیا تھا اور 2009ء میں کوپن ہیگن کانفرنس کے موقع پر مارچ کرنے والے ایکٹوسٹس بھی یہی نعرے لگا رہے تھے کہ ’’ہمیں زندہ رہنے کے لیے 1.5 ڈگری سیلسیس ہی چاہئے‘‘۔

اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ماحولیات کے بارے میں مہم چلانے والے کیا خواب دیکھ رہے تھے اور ہم نے اب تک کیا حاصل کیا ہے۔ ان کا مطالبہ یہی تھا کہ دنیا کو جھوٹے منہ سے ہی سہی‘ ہمارے اس خواب کی طرف دھیان ضرور دینا چاہئے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement