اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

گندم بحران‘ ذمہ دار کون؟

وزیراعظم شہباز شریف نے کسانوں کی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے گندم کی خریداری کا ہدف 14 ملین میٹرک ٹن سے بڑھا کر 18 ملین میٹرک ٹن کر دیا ہے‘ تاہم محکمہ خوراک نے فی الحال گندم نہ خریدنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ گندم سٹوریج کے انتظامات ناکافی ہیں جبکہ سرکاری گودام پہلے ہی گندم ذخائر سے بھرے پڑے ہیں۔ اس سارے قضیے میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ بلاضرورت اور اضافی گندم کی درآمد سے جہاں ایک طرف کسانوں کو مشکل میں ڈالا گیا‘ وہیں قومی خزانے کو لگ بھگ ڈیڑھ ارب ڈالرز کا نقصان ہوا۔ نیشنل فوڈ سکیورٹی نے وافر گندم موجود ہونے کے باوجود 35 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت طلب کی۔ پہلے مرحلے میں 20 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دی گئی جس کی درآمد میں قصداً تاخیر کی گئی اور پھر مزید گندم درآمد کرنے کی منظوری لی گئی۔ یہ گندم جس وقت پاکستان پہنچی‘ اس وقت سندھ میں گندم کی فصل تیار کھڑی تھی اور گندم درآمد کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی‘ مگر اس کے باوجودبھاری زرمبادلہ کو گندم کی درآمد پراڑایاگیا۔ اب عالم یہ ہے کہ یکم اپریل کو حکومت کے پاس 43 لاکھ ٹن گندم موجود تھی جبکہ کسان اپنی تیار فصلوں کو اونے پونے داموں بیچنے پر مجبور ہیں۔ اس معاملے کو یونہی نہیں چھوڑا جا سکتا۔ حکومت کو اس معاملے کی تحقیقات کرنی چاہئیں اور ذمہ داروں کا تعین کرنا چاہیے جنہوں نے غلط فیصلوں سے کسانوں کے ساتھ ساتھ ملکی خزانے کا بھی نقصان کیا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement