آزاد کشمیر میں آگ لگی ہوئی تھی مگرذمہ دار حلقے ان حالات سے لاتعلق نظر آئے۔ ایسی چیزیں یہاں ہی چلتی ہیں۔لاء اینڈآرڈر ہمارا سب سے بڑا پرابلم بنا ہوا ہے اورجن کا کام ہی لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو دیکھنا ہے ‘ ان کی دلچسپیاں کہیں اور ہیں۔ اس ملک میں جو کرتب ہوتے ہیں انسان وہ دیکھے تو دنگ رہ جاتا ہے۔ یہاں ہرچیز چلتی ہے۔ ہم جیسوں نے ملک کی صورتحال بگڑی ہوئی بہت دیکھی ہے لیکن ایسی بگڑی ہوئی صورتحال کبھی نہ تھی‘ لیکن لگتا ہے کہ جو بھی کرتے دھرتے ہیں اُن کو کوئی پروا نہیں۔یا اُنہیں حالات کی کچھ سمجھ نہیں۔
زورزبردستی کے نظام کو قائم کرنا اتنا مشکل نہیں ہوتا۔ ہماری تاریخ طالع آزماؤں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے‘ متعد د بار جس نے چاہا اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ لیکن زبردستی کے نظام کو چلانا مشکل ہوتا ہے۔غیرجمہوری نظاموں کیلئے بھی یہ امر ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے لئے قبولیت یا legitimacy حاصل کریں۔ ایوب خان نے اپنے اقتدار کو یہ جواز مہیا کرنے کی کوشش کی کہ ملک میں ترقی ہو رہی ہے اور ملک کو استحکام حاصل ہوا۔ دس سال تو کام چلتا رہا لیکن سلگتا ہوا لاوا ابلنے پہ آیا توسب کچھ بہہ گیا اور آج اُس دور کو یاد بھی کیا جاتا ہے توبرُے الفاظ سے۔ ضیاالحق نے اسلام کے نام پر اپنے لئے قبولیت حاصل کرنا چاہی۔ جنہیں ہم مذہبی عناصر کہتے ہیں وہ اُن کے ساتھ تھے‘ جماعت اسلامی بہت سے حوالوں سے اُن کا ہراول دستہ تھا۔ تاجرطبقہ اوربڑے سرمایہ دار جو بھٹو مخالف تھے وہ ضیا کے حامی ہو گئے۔لیکن ضیا بھی محض آمرانہ ڈھانچے پر نہ رہ سکے اورکچھ عرصہ بعد اُنہیں ریفرنڈم کا ڈھونگ رچانا پڑا اور غیرجماعتی انتخابات کرانے پڑے۔ اورپھر حالات اُن کی گرفت میں نہ رہے۔
زبردستی کا نظام توہماری دائمی صورت بن چکی ہے لیکن پوچھنا بنتا ہے کہ آج کل کے حالات میں جو صحیح معنوں میں براجمانِ اقتدار ہیں وہ اپنی قبولیت کن چیزوں سے حاصل کررہے ہیں؟ جس قسم کے انتخابات ہوئے وہ سب کے سامنے ہیں‘ اب تو اس ساری مضحکہ خیزکارروائی کے بارے میں کوئی شک نہیں رہا۔ بات انتخابات تک رہتی توکہاجاسکتا تھاکہ یہاں تو ایسے ہی ہوتے ہیں لیکن بات کہیں انتخابات سے آگے جا رہی ہے۔جوبڑے بڑے بتوں کے خلاف دشنام طرازی ہو رہی ہے‘ جو جو الفاظ استعمال ہو رہے ہیں‘یہ ہمارے قومی ذہنی خلفشار کی نشاندہی کرتے ہیں۔اب کن الفاظ سے ہم کہیں کہ خدارا نوشتۂ دیوار پڑھئے‘ ملک کے حالات اچھے نہیں۔ معاشرے میں دراڑیں پڑ چکی ہیں اور ہرگزرتے دن مزید گہری ہو رہی ہیں۔سٹالن ایک ڈکٹیٹر تھا‘ خونی قسم کا ڈکٹیٹر لیکن جب 1941ء میں جرمنی نے سوویت یونین پر حملہ کیا توسٹالن کی اولین کوشش تھی کہ قوم حملہ آوروں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائے۔ 7نومبر1941ء جوکہ بالشویک انقلاب کی برسی تھی ریڈسکوائر میں کھڑے ہوکر اُنہوں نے جو تقریر کی اُس میں روس کے تاریخی ہیروزکو یاد کیا‘ اس کوشش میں کہ ہر سینے میں حب الوطنی کے شعلے بڑھکیں۔جرمنی کا قصہ بھی یہی ہے‘ جرمن مسلح افواج بہت طاقتورتھیں لیکن یہ بھی ہے کہ جرمن قوم ہٹلرکے ساتھ تھی۔
کہنے کا مطلب یہ کہ آمریت میں بھی قومی حمایت کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ ہمارے لو گ یہ کیوں نہیں سمجھ رہے؟پاکستان مسائل میں گھِرا نہیں دھنسا ہوا ہے اور قوم کے معاملات ایسے چل رہے ہیں کہ انتشار اورافراتفری کو بڑھایا جا رہاہے۔آج آزاد کشمیر ہے‘ کچھ ہی وقت پہلے گلگت بلتستان تھا۔ جہاں دیکھیں احتجاج ہو جاتا ہے۔ مہنگائی میں عوام پِس رہے ہیں ۔ آزاد کشمیر کی صورتحال دیکھ کرلوگ شہ لے رہے ہیں کہ بات منوانے کا طریقہ یہی ہے۔پورا مغربی بارڈر آگ کا دریا بنا ہوا ہے۔ حملے اتنے ہیں کہ گنتی میں نہیں رہے۔ جانی نقصان ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی اہداف پر اثر پڑسکتا ہے۔سٹالن اور ہٹلر کیلئے قومی اتحاد ناگزیر تھا‘ لیکن ہمارے ہاں دیکھئے کہ پریس کانفرنس کرکے جو منطق کے موتی بکھیرے جاتے ہیں‘ انسان حیران ہو جائے۔یہ جانے بغیر کہ یہ کام اُن کے کرنے کاہے بھی یا نہیں۔
سٹالن اورہٹلر کا ذکر کیا‘ نپولین کا بھی ہو جائے۔ نپولین کی جنگیں ناممکن ہوتیں اگرفرانسیسی قوم اُس کے پیچھے کھڑی نہ ہوتی۔ کتنی مثالیں دی جائیں لیکن یہاں کی ذہنی صورتحال ہی الگ ہے۔1971ء کا سانحہ کسی اور قوم کے ساتھ ہوتا توکتابیں لکھنے کا سلسلہ ختم نہ ہوتا۔ سینہ کوبی کی جاتی کہ یہ کیسے ہوا۔سانحے کے محرکات تلاش کئے جاتے۔ یہاں رسوائی کی داستان کو چھپانے کیلئے مختلف قسم کے عذر پیش کئے جاتے ہیں۔ملت کے اُس لاجواب محسن قمرجاوید باجوہ کو دیکھئے‘ ایک تقریر میں فرماتے ہیں کہ یہ غلط ہے کہ نوے ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے‘ ہتھیار ڈالنے والوں کی تعداد تیس پینتیس ہزار تھی‘ باقی سویلین لوگ تھے۔ سانحہ کے اتنے سال بعد بھی ایسی لایعنی گفتگو کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔اُن سے کوئی پوچھے کہ تعداد جتنی بھی تھی ہتھیار ڈالے گئے یا نہیں؟ 1971ء کے علاوہ‘ کارگل کی ایسی باتیں ہیں جو یہاں بیان نہیں کی جاسکتیں۔کیسی قوم ہیں ہم کہ سچ برداشت نہیں کرسکتے۔ سادہ حقیقت بیان نہیں ہوسکتی۔ جس قوم کی ایسی حالت ہو وہ کبھی ترقی کرسکتی ہے؟یورپ میں ترقی بعد میں آئی ‘ پہلے اُس کے اجتماعی ذہن پر لگے تالے کھلے تھے۔ یورپ کی ترقی کے پیچھے ایج آف ریزن (Age of Reason) تھا۔ ہم اُس مقام پر پہنچے ہی نہیں۔ یہاں زمانۂ عقل نہ آئے‘ موسم ِعقل تو آ جائے۔ لیکن اپنے کرم فرماؤں کو دیکھیں تو گمان ہوتا ہے کہ یہاں ایسا موسم کبھی نہ آئے گا۔
مسئلہ یہاں علمی بحثوں کا نہیں ‘ مسئلہ توپریکٹیکل نوعیت کا ہے کہ یہ قوم مسائل میں ڈوب رہی ہے اور کوئی راستہ دکھانے والا نہیں۔ پتا نہیں کن افلاطونوں کے ہاتھوں ہم پھنسے ہوئے ہیں۔زورزبردستی سے الیکشن کرائے گئے اورپھر ایسے کرداروں کو اقتدارسونپا گیا جن کی روز کی شکلیں بتاتی ہیں کہ وہ اس جوگے نہیں۔ہینز کرسچین اینڈرسن کی وہ کون سی کہانی ہے جس میں بادشاہ کے کپڑے نہیں ہوتے؟یعنی بادشاہ بغیر کپڑوں کے ہیں اور اُن کے لباس کی داد دی جا رہی ہے۔ موجودہ اقتدار کا نظام جس طریقے سے ترتیب دیا گیا ہے قوم نے وہ سب کچھ دیکھا ۔قوم نے بادشاہوں کو دیکھا ہے اور اُن کے کپڑوں کو بھی۔ وہ جو پنجابی کا لفظ چھپاندراہے ‘ کوئی چھپاندرا نہیں رہا۔ پھر آپ بے جا کے بھاشن دینے سے پرہیز کیوں نہیں کرتے؟ کیوں نہیں یہ بات سمجھ میں آتی کہ دراڑیں بہت پڑ چکی ہیں اور عوامی مینڈیٹ یا حمایت کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہوگا۔قوم کے سٹیئرنگ ویل یا ہینڈل پر مضبوط ہاتھ چاہئیں۔اور خدارا جان جائیے کہ عوامی حمایت کے بغیر ہاتھ مضبوط نہیں ہوسکتے۔مخمصے میں پھنسے ہوئے ہیں ہم۔صاف نظر آ رہا ہے کہ قومی منظرنامے پر کیا کچھ ہو رہا ہے لیکن کچھ کرنے سے ہم قاصر لگتے ہیں۔معلوم ہے کہ وہ تباہی کا دہانہ ہے لیکن کاروان بے بس ہے اور اُسی طرف آنکھیں بند کئے ہوئے گامزن ہے۔
مولانا فضل الرحمن کی حالیہ تقریریں سنی ہیں؟ اپنا حق ادا کر دیا اور ماضی کے کئی دھبے بھی دھو ڈالے۔ اورمحمود خان اچکزئی کیا کہہ رہے ہیں؟ یہ سب سمجھنے کی باتیں ہیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ سمجھنا ایک فوجداری جرم بن چکا ہے۔