ہمارا معاشرہ دیگر عصری معاشروں کی طرح بہت سی بیماریوں کی لپیٹ میں ہے۔ ہر شخص کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ وہ صحت مند انسان کی حیثیت سے زندگی گزارے اور بہت سے لوگ اس حوالے سے احتیاطی تدابیر پر بھی عمل کرتے ہیں۔ یہ لوگ حفظانِ صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ورزش کرتے اور پرہیزی غذا کھاتے ہیں لیکن اسکے باوجود مختلف بیماریوں کی زد میں رہتے ہیں۔ جہاں پر لوگ جسمانی بیماریوں کا سامنا کرتے ہیں وہیں پر نفسیاتی عوارض بھی اس معاشرے میں بہت زیادہ نظر آتے ہیں۔ ان بیماریوں کے علاج کیلئے طبی ذرائع کو اختیار کیا جاتا ہے اور بہت سے لوگ شفایاب بھی ہو جاتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے سرجری کی ترقی کی وجہ سے حادثات میں زخمی اور متاثر ہونے والے بہت سے لوگوں کی زندگیوں کے بچنے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ المائدہ کی آیت 32میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ''اور جس نے زندگی بخشی ایک انسان کو تو گویا اس نے زندہ کیا سب انسانوں کو‘‘۔ اس آیتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جس نے ایک انسان کی زندگی بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی زندگی بچائی ہے۔ علم اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ ایلوپیتھی‘ ہومیوپیتھی اور حکمت کے ماہرین نے علاج کے فن میں مزید ترقی کی اور اعلیٰ پائے کی ادویات بھی تیار کیں۔ جب ہم کتاب و سنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اور نبی کریمﷺ نے بھی بہت سی ایسی مادی اور روحانی تدابیر بتلائی ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان بیماریوں سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں جن تدابیر کو اختیار کرکے بیماریوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے‘ ان میں سے چند درج ذیل ہیں؛1۔ اعتدال سے کھانا کھانا: قرآن مجید کی سورۃ لاعراف کی آیت31 میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کا حکم دیا ہے'' کھاؤ اور پیو اور نہ تجاوز کرو حد سے‘ بے شک اللہ نہیں پسند کرتا حد سے بڑھنے والوں کو‘‘۔ حدیث پاک کے مطالعہ سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کافر کے مقابلے میں مومن کم کھاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے؛ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک صاحب بہت زیادہ کھانا کھایا کرتے تھے پھر وہ اسلام لائے تو کم کھانے لگے۔ اس کا ذکر رسول اللہﷺ سے کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا کہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر ساتوں آنتوں میں کھاتا ہے۔
2۔ حرام غذاؤں سے اجتناب: کتاب و سنت نے بعض چیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔ یہ حرام چیزیں انسانی صحت اور روح کیلئے نقصان دہ ہیں۔ چنانچہ ان سے اجتناب ضروری ہے۔ جوشخص اس حوالے سے احتیاط نہیں کرتا‘ وہ مختلف طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ کتاب و سنت میں بہت سی چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے جن میں سے بعض چیزیں خصوصیت سے توجہ طلب ہیں۔ اس حوالے سے سورۃ الانعام کی آیت 145 میں ارشاد ہوا ''آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کیلئے جو اس کو کھائے‘ مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو‘ کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کہ غیراللہ کیلئے نامزد کردیا گیا ہو۔ پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطیکہ نہ تو طالبِ لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا ہو تو واقعی آپ کا رب غفور و رحیم ہے‘‘۔ اسی طرح شراب کی حرمت کے حوالے سے بھی کتاب و سنت میں بہت زیادہ وضاحت آئی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے؛ صحیح بخاری میں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے انہیں یمن بھیجا۔ ابو موسیٰؓ نے آنحضرتﷺ سے ان شربتوں کا مسئلہ پوچھا جو یمن میں بنائے جاتے تھے۔ آنحضرتﷺ نے دریافت فرمایا کہ وہ کیا ہیں؟ ابو موسیٰؓ نے بتایا کہ البتع اور المزر۔ (سعید بن ابی بردہ نے کہا کہ) میں نے ابوبردہ (اپنے والد ) سے پوچھا البتع کیا چیز ہے؟ انہوں نے بتایا کہ شہد سے تیاری کی ہوئی شراب اور المزر جو سے تیار کی ہوئی شراب۔ آنحضرتﷺ نے جواب میں فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز پینا حرام ہے۔ اس کی روایت جریر اور عبدالواحد نے شیبانی سے کی ہے اور انہوں نے ابوبردہ سے کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حرام طریقوں سے کمائی سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔
3۔شہد: شہد میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کی مختلف بیماریوں کی شفاء رکھی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ النحل کی آیات 68اور 69 میں ارشاد فرماتے ہیں ''آپ کے رب نے شہد کی مکھی پر القاء کیاکہ پہاڑوں میں درختوں اور لوگوں کے بنائے ہوئے اونچے چھپروں میں اپنے گھر (چھتے) بنا اور ہر طرح کے میوے کھا اور اپنے رب کی آسان راہوں میں چلتی پھرتی رہ‘ ان کے پیٹ سے رنگ برنگ کا مشروب نکلتا ہے‘ جس کے رنگ مختلف ہیں اور جس میں لوگوں کیلئے شفا ہے‘ غوروفکر کرنے والوں کیلئے اس میں بھی بہت بڑی نشانی ہے‘‘۔4۔کلونجی: احادیثِ طیبہ میں کلونجی کو مختلف بیماریوں کیلئے شفا قرار دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے؛ صحیح بخاری میں حضرت خالد بن سعد سے روایت ہے کہ ہم باہر گئے ہوئے تھے اور ہمارے ساتھ غالب بن ابجرؓ بھی تھے۔ وہ راستہ میں بیمار پڑ گئے پھر جب ہم مدینہ واپس آئے اسوقت بھی وہ بیمار ہی تھے۔ حضرت ابن ابی عتیق ان کی عیادت کیلئے تشریف لائے اور ہم سے کہا کہ انہیں یہ کالے دانے ( کلونجی ) استعمال کراؤ‘ اسکے پانچ یا سات دانے لے کر پیس لو اور پھر زیتون کے تیل میں ملا کر (ناک کے) اس طرف اور اس طرف اسے قطرہ قطرہ کرکے ٹپکاؤ۔ کیونکہ حضرت عائشہؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریمؐ سے سنا آنحضرت نے فرمایا کہ یہ کلونجی ہر بیماری کی دوا ہے‘ سوا سام کے۔ میں نے عرض کیا سام کیا ہے؟ فرمایا کہ موت ہے۔
5۔ آب زم زم: اللہ تبارک و تعالیٰ نے آب زم زم میں بھی جملہ بیماریوں کی شفاء رکھی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے؛ سلسلۂ احادیث صحیحہ میں عائشہؓ سے مروی ہے کہ وہ آب زم زم ساتھ اٹھا کر لاتی تھیں۔ اور بتاتی تھیں کہ رسول اللہﷺ بھی آبِ زم زم برتنوں اور مشکیزوں میں اٹھاتے‘ مریضوں پر ڈالتے اور انہیں پلاتے۔
ان مادی تدابیر کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کلامِ حمید میں اس بات کو واضح کیا کہ قرآن مجید مومنوں کیلئے شفا ہے۔ ویسے تو پورا قرآن مجید ہی شفا ہے لیکن اس حوالے سے سورۃ الفاتحہ‘ آیت الکرسی اور آخری تین قل خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ سورۃ فاتحہ کے حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے؛ صحیح بخاری میں حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ کے چند صحابہ در حالتِ سفر عرب کے ایک قبیلہ پر گزرے۔ قبیلہ والوں نے ان کی ضیافت نہیں کی۔ کچھ دیر بعد اس قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا‘ اب قبیلہ والوں نے ان صحابہ سے کہا کہ آپ لوگوں کے پاس کوئی دوا یا کوئی جھاڑنے والا ہے۔ صحابہ نے کہا کہ تم لوگوں نے ہمیں مہمان نہیں بنایا اور اب ہم اس وقت تک دم نہیں کریں گے جب تک تم ہمارے لیے اس کی مزدوری نہ مقرر کر دو۔ چنانچہ ان لوگوں نے چند بکریاں دینی منظور کر لیں پھر (ابوسعید خدریؓ) سورۃ فاتحہ پڑھنے لگے اور اس پر دم کرنے میں منہ کا تھوک بھی اس جگہ پر ڈالنے لگے۔ اس سے وہ شخص اچھا ہو گیا۔ چنانچہ قبیلہ والے بکریاں لے کر آئے لیکن صحابہ نے کہا کہ جب تک ہم نبی کریمﷺ سے نہ پوچھ لیں یہ بکریاں نہیں لے سکتے پھر جب آنحضرتﷺ سے پوچھا تو آپ مسکرائے اور فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہو گیا تھا کہ سورۃ فاتحہ سے دم بھی کیا جا سکتا ہے‘ ان بکریوں کو لے لو اور اس میں میرا بھی حصہ لگاؤ۔
اس کے ساتھ ساتھ دعا‘ صبر‘ توکل اور توبہ استغفار سے بھی انسانوں کے امراض دور ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کے امراض کو دور فرمائے‘ آمین!