1948ء میں اسرائیل کے قیام سے لے کر آج تک فلسطینی مسلمانوں کا مسلسل استحصال کیا جا رہا ہے۔ 1948ء کے بعد 1967ء میں مسلم عرب ممالک نے اجتماعی طور پر اسرائیل کے خلاف منظم عسکری کوشش کی لیکن عرب ممالک کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مصر‘ اردن اور شام کے کئی علاقے اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کے قبضے میں چلے گئے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ صہیونیوں میں مذہبی عصبیت زیادہ تھی۔ عرب نسبی اور قومی اعتبار سے مختلف خطوں اور گروہوں میں تقسیم تھے جبکہ اسرائیل کا صہیونی کسی بھی طور پر اپنے عزائم کے حوالے سے انتشار کا شکار نہیں تھا۔ دنیا بھر سے مسلسل یہودیوں کی نقل مکانی اور پیشہ ور یہودیوں کی اسرائیل میں سکونت کی وجہ سے اسرائیلی ریاست بتدریج مضبوط ہوتی چلی گئی اور فلسطینی مسلمانوں کو ان کے علاقوں سے محروم کرنے کا عمل جاری وساری رہا۔ غزہ کے مسلمان روزِ اول سے نہایت کسمپرسی اور مظلومیت کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے مگر اس کے باوجود اسرائیل ان کے خلاف تسلسل سے پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ یہ لوگ بدامنی اور انتشار چاہتے ہیں‘ اور یہ کہ اسرائیل قیامِ امن کیلئے ان کے خلاف آپریشن کرنے پر مجبور ہے۔ مغربی حکومتیں اسرائیل کے اس پروپیگنڈا کو من و عن تسلیم کرتی ہیں جبکہ مغربی اقوام اپنے حکمرانوں کے برعکس اس جھوٹ کو تسلیم کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہیں۔
گزشتہ ایک سال سے اسرائیل کے مظالم میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور اس نے غزہ میں موجود مسلم بستیوں پر جارحانہ حملوں کا سلسلہ جاری وساری رکھا ہوا ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں ہیروشیما اور ناگاساکی سمیت لندن پر پھینکے جانے والے بارود کے مقابلے میں گزشتہ ایک برس کے دوران غزہ پر گرائے جانے والے بارود کی مقدار کہیں زیادہ ہے۔ اس کے نتیجے میں بوڑھوں‘ بچوں اور عورتوں کا بلاتفریق قتلِ عام ہوا جو تاحال جاری ہے۔ مظلوم مسلمان مسلسل ابتلا‘ دکھ اور کرب کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اہلِ عرب کے ساتھ ساتھ وہ دنیا بھر کے دیگر مسلم ممالک سے بھی امداد کے طلبگار ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے‘ اس لیے کہ دنیا بھر میں پاکستان کو اسلام کا قلعہ سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے مجبور ومقہور مسلمانوں کا گمان ہے کہ پاکستان مسلم امت کے بارے میں زیادہ دردمندانہ جذبات رکھتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پاس مضبوط عسکری قوت اور اسلحے کی بھی فراوانی ہے لیکن دکھ اورتاسف کا مقام ہے کہ مسلم اقوام اپنے انتشار اور خلفشار کی وجہ سے تاحال اسرائیل کے عزائم کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائیں۔
چند روز قبل ایک تقریب سے خطاب کے دوران ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اس ابتلا اور مظلومیت سے نکلنے کا راستہ بتلایا۔ ان کا مؤقف تھا کہ اگر دنیا بھر کے مسلمان یکجا اور متحد ہوں تو مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھانا تو بڑی دور کی بات‘ کوئی ان کو چھو بھی نہیں سکتا۔ دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ مسلم ممالک میں کتاب وسنت کی عملداری کو یقینی بنانا چاہیے۔ اگر مسلم ممالک میں اسلامی نظام ہو اور یہاں کے عوام اور حکمران متفق ہوں تو اسرائیل پر خاطرخواہ دبائو ڈالا جا سکتا ہے اور اس کو اس بات پر مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ظلم وستم جاری رکھنے کے بجائے فلسطینی عوام کو ان کے جائز حقوق واپس دے۔
بعض لوگ صورتحال کی گمبھیرتا کو دیکھ کر دو ریاستی حل کی بات کرتے ہیںکہ القدس کے علاقے میں یہودیوں اور مسلمانوں کی دو مساوی ریاستیں قائم کر کے‘ ان کے سیاسی حقوق ان کوتفویض کر دیے جائیں۔ اس کے مدمقابل مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ناجائز قبضہ کرنے والے غاصب صہیونیوں کی کسی بھی ریاست کو قبول کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ اگر دو ریاستی حل کو تسلیم کر لیا گیا تو ایسی صورت میں دنیا کے مختلف مقامات پر جارحیت کا ارتکاب کرنے والوں کے پاس قانونی اور پُرامن طریقے سے رہنے کا راستہ نکلنا شروع ہو جائے گا۔
مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اسلام آباد میں مسلم لیگی حکومت کی سرپرستی میں ایک کثیر پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف نے اپنے جذبات کا بھرپور انداز سے اظہار کیا۔اس موقع پر مولانا فضل الرحمن اور حافظ نعیم الرحمن نے عوامی جذبات کی بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ قوم کسی بھی طور پر دو ریاستی حل کو قبول کرنے پر آ مادہ وتیار نہیں ہو گی بلکہ اسرائیل کوایک انچ جگہ دینا بھی فلسطینیوں کے حقوق کو تلف اور غصب کرنے کے مترادف ہو گا۔
اسی حوالے سے سات اکتوبر کی شام کو مرکزی جمعیت اہل حدیث کے زیر اہتمام شاہراہ قائدین کراچی پر ایک قومی فلسطین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس کی میزبانی کے فرائض پروفیسر ساجد میر اور حافظ عبدالکریم نے انجام دیے جبکہ ملک کی تمام بڑی مذہبی جماعتوں کے قائدین نے اس کانفرنس سے خطاب کیا۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اپنے قریبی ساتھی مولانا عبدالغفور حیدری اور مولانا راشد سومرو کے ساتھ اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ اسی طرح مفتی منیب الرحمن اور مفتی تقی عثمانی‘ مولانا احمد لدھیانوی اور مولانا اورنگزیب فاروقی بھی کانفرنس میں شریک ہوئے۔ مجھے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ قومی فلسطین کانفرنس میں مختلف جماعتوں کے نمائندگان اپنے اپنے انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ مولانا منظور مینگل‘ سینیٹر مشتاق احمد خان اور شجاع الدین شیخ نے اہلِ فلسطین کے ساتھ بھرپور انداز سے یکجہتی کا اظہار کیا اور بعد ازاں مختلف زعما نے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے مؤثر اور منظم تجاویز پیش کیں۔ مفتی منیب الرحمن‘ مفتی تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمن کی آرا انتہائی توجہ طلب تھیں۔ اس موقع پر مجھے بھی اظہارِ خیال کرنے کا موقع ملا۔ میں نے جن خیالات کو سامعین کے سامنے رکھا ان کو کچھ کمی بیشی اور ترمیم کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
یہودی آغازِ اسلام ہی سے اہلِ اسلام کی دشمنی پر آمادہ رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذاتِ باری کے بارے میں بخیلی کا جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا۔ نبی کریمﷺ کی عداوت کے علاوہ آپﷺ کو کھانے میں زہر دے کر شہید کرنے کی ناپاک جسارت بھی کی گئی اور آپﷺ کی ذاتِ اقدس پر جادو کے حملے بھی کیے گئے۔ یہود کی ان ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ان کے کئی سرداروں کو موت کے گھاٹ اترنا پڑا۔ صحابی رسول محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کعب ابن اشرف اور عبداللہ ابن عتیکؓ نے ابورافع یہودی کو نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس میں گستاخی کے سبب موت کے گھاٹ اتارا۔ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے خیبر کے قلعے کو فتح کیا اور خیبر کے چوب دار مرحب کو قتل کر کے اسلام کا پرچم لہرایا۔ نبی کریمﷺ نے اپنے وصال سے قبل یہود کو جزیرۃ العرب سے باہر نکالنے کا حکم دیا جس پر حضرت عمر فاروقؓ نے عمل درآمد کرایا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے ہی القدس کو مسیحیوں سے آزاد کروا کر اسلامی سلطنت کا باقاعدہ حصہ بنایا۔ بعد ازاں مسلم سلطنت کی کمزوریوں کی وجہ سے القدس کا علاقہ ایک بار پھر مسیحیوں کے نرغے میں چلا گیا تو سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے بازیاب کرایا۔ اس وقت سے لے کر بیسویں صدی کے آغاز تک القدس کے علاقے پر مسلمانوں کی حکومت رہی لیکن 1948ء میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد سے آج تک مقامی مسلمان مسلسل ابتلا کا نشانہ بنے ہوئے ہیں جس کی بنیادی وجہ مسلم اقوام کی نااتفاقی اور کتاب وسنت کی تعلیمات سے دوری ہے۔ اگر مسلمان کتاب وسنت پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہو جائیں اور باہمی اتحاد کو یقینی بنائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اہل اسلام ایک مرتبہ پھر اپنے کھوئے ہوئے عروج کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو جائیں۔ پروفیسر ساجد میر اور مولانا احمد لدھیانوی نے بھی بصیرت افروز گفتگو کی اور یہ کانفرنس بہت سی خوبصورت یادوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔