یہ 1947ء تھا جب ''جگنو‘‘ ریلیز ہوئی اور باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ فلم ریلیز ہونے کے کچھ عرصہ بعد ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہو گیا اور نور جہاں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا۔ ''جگنو‘‘ فلم کے ریلیز ہونے کے بعد دلیپ کمار کی شہرت کو پَر لگ گئے لیکن ابھی تک ان کے والد‘ آغا جی کو اس کی خبر نہ تھی۔ اتفاق سے ایک دن وہ اپنے ایک رشتہ دار کے گھر ایک فنکشن میں گئے تو لوگوں نے انہیں مبارک باد دی کہ ان کا بیٹا یوسف خان فلموں میں کام کرنے لگا ہے۔ آغا جی کے لیے یہ بات غیر متوقع تھی۔ وہ گھر تو آ گئے لیکن اپنے بیٹے یوسف خان کے ساتھ بات چیت ختم کر دی۔ دلیپ کمار نے راج کپور سے بات کی کہ اس کے والد اس سے ناراض ہیں‘ راج کپور نے اسے مشورہ دیا کہ میرے والد پرتھوی راج‘ جو آغا جی کے دوست ہیں‘ ان کی صلح میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ پرتھوی راج نے آغا جی سے ملاقات کر کے انہیں سمجھایا اور یوں آغا جی کی ناراضی ختم ہوئی۔ ادھر دلیپ کمار فلمی دنیا میں اپنا نام بنانے کے لیے سخت محنت کر رہا تھا‘ وہ دن میں ایک فلم دو بار دیکھتا تھا۔ غور سے اداکار کے چہرے کے تاثرات اور مکالموں کی ادائیگی کے انداز دیکھتا لیکن جلد ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ اگر اداکاری کی دنیا میں نام بنانا ہے تو یہ نقالی سے نہیں بلکہ اپنے جداگانہ انداز سے ہوگا۔ اب بمبئے ٹاکیز میں تبدیلی آرہی تھی۔ دیوکا رانی نے ایک معروف روسی پینٹر سے شادی کا فیصلہ کیا تھا اور اب وہ بمبئے ٹاکیز سے ریٹائر ہو رہی تھی۔ اسی دوران اشوک کمار اور مکھر جی نے ایک علیحدہ فلم کمپنی ''فلمستان‘‘ کے قیام کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے دلیپ کمار سے بھی رابطہ کیا اور دلیپ نے ان کے ساتھ کام کرنے کی رضا مندی ظاہر کر دی۔ فلمستان کے بینر تلے ''شہید‘‘ 1948ء میں ریلیز ہوئی اور باکس آفس پر شاندار کامیابی حاصل کی۔ اس فلم میں دلیپ کے مقابل کامنی کوشل تھی۔ اس کے بعد ایک اور فلم ''شبنم‘‘ میں بھی اس نے کامنی کوشل کے ساتھ کام کیا۔ کامنی کوشل لاہور کے کنیرڈ کالج کی تعلیم یافتہ ایک پڑھی لکھی لڑکی تھی۔ اس کا اصل نام اُوما تھا۔ دلیپ اور کامنی کوشل میں Intellectual Bondingتھی۔ اب دلیپ کمار کے معاشی حالات بہتر ہونا شروع ہو گئے تھے۔ اس نے ایک Fiatکار اور بمبئی کے خوبصورت علاقے پالی ہِل میں ایک خوبصورت بنگلہ خرید لیا۔
انہی دنوں دلیپ اپنے ایک دوست کے ہمراہ ایک کرکٹ میچ دیکھنے گیا تو وہاں نوشاد اور محبوب خان سے اتفاقیہ ملاقات ہو گئی جو بعد میں گہری دوستی میں بدل گئی۔ دلیپ کی اگلی فلم ''انداز‘‘ تھی‘ جسے محبوب خان نے ڈائریکٹ کیا تھا اور جس میں دلیپ کے علاوہ راج کپور اور نرگس بھی تھے۔ یہ فلم 1949ء میں ریلیز ہوئی اور باکس آفس پر کامیاب رہی۔ 1951ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''ترانہ‘‘ میں دلیپ کے مقابل مدھو بالا تھی۔ مدھو بالا اور دلیپ کو ایک دوسرے سے مل کر یوں لگا جیسے ان کی شخصیت کی تکمیل ہو گئی ہے۔ ترانہ کے بعد دلیپ کمار اور مدھو بالا نے 'سنگدل‘، 'امر‘ اور پھر 'مغلِ اعظم‘ میں ایک ساتھ کام کیا۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ دوستی میں مخلص تھے اور ایک دوسرے کے جیون ساتھی بننا چاہتے تھے۔
اب میڈیا میں ان کی شادی کی خبریں گردش کرنے لگی تھیں۔ تب مدھو بالا کے والد عطا اللہ خان نے مداخلت کی۔ اس کی اپنی ایک چھوٹی سی فلم کمپنی تھی‘ اس نے دلیپ کو گھر ملاقات کے لیے بلایا اور کہا کہ وہ مدھو بالا اور دلیپ کی شادی کے لیے رضا مند ہے لیکن شادی کے بعد دلیپ کو عطا اللہ کی کمپنی سے فلمیں کرنا ہوں گی۔ یہ سن کر دلیپ کا ماتھا ٹھنکا۔ اسے اندازہ ہوا کہ عطا اللہ شادی کو بھی کاروباری رنگ دینا چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ دلیپ کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ اس کے بعد دلیپ اور مدھو بالا کے تعلقات میں سرد مہری آتی گئی اور پھر صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ ''مغلِ اعظم‘‘ کے دوران ہی دونوں کی بات چیت بند تھی اس کے باوجود دونوں نے فلم کے رومانوی سین اس طرح فلم بند کرائے کہ دیکھنے والوں کو ذرا شک نہیں ہوا کہ فلم کی شوٹنگ کے دوران وہ ایک دوسرے سے ناراض تھے اور ان کے مابین بات چیت بند تھی۔ دلیپ اور مدھو بالا کی شادی تو نہ ہو سکی لیکن مدھو بالا سے دلیپ کی محبت آخر دم تک رہی جس کا اظہار دلیپ نے اپنی سوانح عمری میں بھی کیا۔
دلیپ کو پے در پے فلموں میں ایسے المیہ کردار ملے اور اسے ''کنگ آف ٹریجڈی‘‘ کا خطاب ملا لیکن المیہ کردار کرکے دلیپ کو یوں لگتا تھا کہ ان کرداروں کے سارے غم اور دکھ اس کی ذات کا حصہ بن رہے ہیں۔ یہ صورتحال انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن تھی۔ دلیپ انگلینڈ کے دورے پر تھا‘ وہیں اس کی ملاقات ڈاکٹر نکولس سے ہوئی جس نے اسے مشورہ دیا کہ وہ کچھ عرصے کے لیے المیہ کردار نہ کرے اور تبدیلی کے لیے کامیڈی فلم کرے۔ یہ آسان فیصلہ نہ تھا‘ لوگ اسے کنگ آف ٹریجڈی کے طور پر جانتے تھے۔ لیکن دلیپ نے یہ رسک لینے کا فیصلہ کر لیا اور ''آزاد‘‘ فلم میں کامیڈی رول کیا۔ یہ فلم 1955ء میں ریلیز ہوئی اور لوگوں نے دلیپ کو نئے روپ میں بھی پسند کیا۔ اسی طرح فلم ''آن‘‘ (1952ء) میں اس کا رول ایک ولن کا تھا۔ اس فلم نے بھی باکس آفس پر شاندار کامیابی حاصل کی۔
''مغلِ اعظم‘‘ جو 1960ء میں ریلیز ہوئی‘ نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ مغلِ اعظم کی شاندار کامیابی کا ریکارڈ پندرہ برس تک قائم رہا۔ مغلِ اعظم کے بعد بننے والی فلم ''نیا دور‘‘ تھی جس میں دلیپ کے مقابلے میں مدھو بالا کو کاسٹ کیا گیا تھا۔ یہ وہ فلمی جوڑی تھی جسے لوگ دیکھنا چاہتے تھے لیکن مدھو بالا کے والد عطا اللہ نے عین وقت پر ڈائریکٹر کو اطلاع دی کہ چونکہ اس فلم کی شوٹنگ آؤٹ ڈور ہے‘ اس لیے مدھوبالا یہ فلم نہیں کر سکتی۔ آخری وقت میں انکار سے فلم کا ڈائریکٹر حیران رہ گیا۔ سب تیاریاں مکمل تھیں لیکن مدھوبالا کے والد نے سب کچھ اُلٹ پلٹ کر دیا تھا۔ مدھو بالا کے اچانک انکار کے بعد ''نیا دور‘‘ میں وجنتی مالا کو ہیروئن لے لیا گیا اور یہ فلم بھی باکس آفس پر کامیاب رہی۔
''گنگا جمنا‘‘ کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ ایک طرف دلیپ ''مغلِ اعظم‘‘ میں سخت گرمی میں بھاری زرہ پہن کر فلم کے سین فلما رہا تھا‘ دوسری طرف اس کی فلم ''گنگا جمنا‘‘ کی شوٹنگ بھی جاری تھی۔ وہ مغلِ اعظم کی شوٹنگ کرکے ہوائی جہاز سے بمبئی آتا اور پھر کار کے ذریعے گنگا جمنا کی لوکیشن پر جاتا۔ سخت محنت دلیپ کمار کی زندگی کا حصہ تھی۔ ''گنگا جمنا‘‘ میں ایک خاص زبان بولی گئی تھی‘ اس کے لیے دلیپ نے خوب مشق کی تھی۔ اس فلم کے آخری سین میں دلیپ کمار نے اچانک گر کر مرنا ہوتا ہے۔ فلم کے کیمرہ مین نے بتایا کہ دلیپ صاحب نے پہلے سے ہمیں کہا تھا کہ کیمرے تیار رکھیں‘ یہ سین ایک ہی بار ہو گا۔ اس میں رِی ٹیک نہیں ہو گا۔ اس کے بعد دلیپ صاحب نے پہلے سٹوڈیو کے اردگرد چلنا اور پھر دوڑنا شروع کر دیا۔ ہم کیمرے کے پیچھے تیار کھڑے تھے‘ اچانک ہمیں اشارہ ملا کہ دلیپ صاحب کمرے میں داخل ہونے والے ہیں۔ پھر وہ کمرے میں داخل ہوئے‘ ان کا سانس پھولا ہوا تھا۔ وہ آئے اور ''ہائے رام‘‘ کہہ کر دھپ سے نیچے گرے اور آنکھیں بند کرکے مرنے کی ایکٹنگ کی۔ سب نے تالیاں بجائیں۔ انہوں نے میری طرف دیکھ کر کہا: کیسا تھا؟ میں نے کہا :سر تھوڑی ٹائمنگ کی غلطی ہو گئی مجھ سے۔ سین دوبارہ کرنا پڑے گا۔ دلیپ صاحب خاموش ہو گئے اور اس سین کو دوبارہ اسی محنت اور وارفتگی سے فلم بند کرایا۔ (جاری)