پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور یہاں مختلف ممالک کی سرکردہ علمی اور دینی شخصیات وقفے وقفے سے تشریف لاتی رہتی ہیں۔ پاکستانی قوم نے ہمیشہ اپنے معزز مہمانوں کا کھلے دل سے استقبال کیا ہے۔معزز شخصیات کی آمد پر ملک بھر میں جوش و جذبے کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔ پاکستان میں ائمہ حرمین کی آمد ایک عرصے سے جاری وساری ہے۔بیت اللہ الحرام کے امام محمد بن عبداللہ سبیل کئی مرتبہ پاکستان تشریف لائے اور ان کے علاوہ امام کعبہ شیخ عبدالرحمن السدیس سمیت بہت سے معزز ائمہ پاکستان تشریف لاتے رہے۔ کچھ برس قبل سعودی عرب سے شیخ صالح آل طالب اور شیخ خالد الغامدی کی آمد پر پاکستان میں بڑے پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔ ماضی میں رابطہ عالمِ اسلامی کے مختلف جنرل سیکرٹریز بھی پاکستان تشریف لا چکے ہیں اور ان کی آمد پر بھی ان کا استقبال بڑے ذوق وشوق سے کیا جاتا ہے۔ مختلف تنظیمیں ان کی آمد پر بھرپور طریقے سے پروگراموں کا انعقاد کرتی ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ چند مہینوں کے دوران امام کعبہ شیخ صالح بن حمید اور امام مسجد نبوی شریف شیخ صلاح البدیر کی بھی آمد ہوئی۔ ان دونوں معزز مہمانوں نے بڑے پروگراموں میں شرکت کی۔ مجھے بھی ان عظیم ائمہ سے بالمشافہ ملاقات کا موقع ملا اور بہت سے اہم امور پر تبادلۂ خیال کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ ان مہمانوں سے ملاقات سے جہاں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے دیگر ممالک سے تعلقات میں وسعت پیدا ہوتی ہے وہیں ان پروگراموں کی وجہ سے بہت سے اہل ِعلم سے استفادہ کرنے کا بھی موقع ملتا ہے۔
عالمِ اسلام میں جن شخصیات نے گزشتہ چند برس کے دوران ممتاز اور نمایاں مقام حاصل کیا‘ ان میں ڈاکٹرعبدالکریم ذاکر نائیک کی شخصیت سرفہرست ہے۔ آپ اسلام ریسرچ سنٹر کے بانی ہیں۔ اس ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد غیرمسلموں کواسلام کی دعوت دینا تھا۔ بعد ازاں اسی ادارے کے تحت پیس ٹی وی نامی ایک چینل قائم کیا گیا۔ پیس ٹی وی کے قیام کے بعد پوری دنیائے اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک کی جدوجہد سے کسی نہ کسی حد تک متاثر ہوئی۔ ان کے لیکچرز‘ خطابات اور دیگر مذاہب کے ساتھ مذاکروں کی وجہ سے دنیائے اسلام میں ان کی چاہت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بھارت میں جس انداز سے مسلمانوں کے اجتماعات کا انعقاد کیا‘ یہ بات دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے توجہ کا سبب بن گئی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک جب تک بھارت میں رہے‘ ان کے پاکستان آنے کے امکانات بوجوہ کم رہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کے بہت سے لوگ ان سے ملنے کی چاہت رکھتے تو اکثر ان کی ملاقاتیں سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات میں ہو جایا کرتی تھیں۔
2012ء میں مجھے بھی دبئی کے بعض دوستوں کے توسط سے ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ملاقات کرنے کا موقع میسر آیا۔ میں ملاقات کے لیے دبئی پہنچا تودو تین دن متواتر اُن کے ساتھ ملاقاتیں رہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں سے جہاں دلی مسرت حاصل ہوئی وہیں ان کی سادگی اور دین کے ساتھ محبت اور شغف دیکھ کر دل پر غیر معمولی اثرات مرتب ہوئے۔ 2012ء کے بعد بھی دبئی میں ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کے ساتھ ایک تفصیلی ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس ملاقات میں بہت زیادہ وقت دیا اور ان سے مختلف امور پر تبادلۂ خیال کرنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے قریبی اور میرے دیرینہ دوست میاں منظور احمد کے توسط سے بعد ازاں بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کے ساتھ رابطہ رہا اور کبھی کبھار فون پر گفتگو کرنے کا موقع بھی ملتا رہا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ڈاکٹر صاحب سے پھر ایک ملاقات کی خواہش دل میں مچل رہی تھی لیکن مسلسل مصروفیات اس ملاقات کے راستے میں حائل ہو رہی تھیں۔ گزشتہ چندہ ماہ سے بعض انٹرویوز اور پروگراموں کے توسط سے یہ بات سننے کو مل رہی تھی کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سرکاری طور پر پاکستان میں مہمان کی حیثیت سے مدعو کیا جا رہا ہے۔ یقینا ان کا پاکستان آنا ایک پاکستانی ہونے کے ناتے میرے لیے مسرت کا باعث تھا اور مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ دلی خواہش پوری ہونے جا رہی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اہلِ خانہ کی کچھ عرصے سے یہ خواہش تھی کہ حرمین شریفین کی زیارت کا قصد کیا جائے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ حرمین شریفین روانگی کا پروگرام 24 ستمبر کو طے ہوا اور اس کے چند دن کے بعد یہ اطلاع موصول ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب 30 ستمبر کو پاکستان تشریف لا رہے ہیں۔ میں بلادِ حرمین کی زیارت کے لیے روانہ ہو گیا اور ڈاکٹر ذاکر نائیک 30 ستمبر کو پاکستان پہنچے جس پر ملک کے تمام دینی طبقات نے غیر معمولی مسرت کا اظہار کیا۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے اعزاز میں ایک بڑے استقبالیہ کا انعقاد کیا جس میں جمعیت کے بہت سے مرکزی رہنما شریک ہوئے۔ مولانا نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کی خدمات کا کھلے دِل سے اعتراف کیا اور اس موقع پر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے جمعیت علمائے اسلام کے رہنمائوں سے خطاب بھی کیا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک کا خیر مقدم کیا اور وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سے بھی ان کی خصوصی ملاقات ہوئی جس میں تفصیلاً اسلام کی دعوت اور نشر واشاعت کے حوالے سے تبادلۂ خیال ہوا۔ بعد ازاں ڈاکٹر ذاکر نائیک کراچی تشریف لے گئے جہاں گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے ڈاکٹر صاحب کا استقبال کیا۔ 5 اور 6 اکتوبر کو ڈاکٹر ذاکر نائیک نے گورنر ہائوس کراچی میں عوامی اجتماعات سے مفصل خطاب کیا اور عوام الناس کے سوالات کے جوابات دیے۔ اس موقع پر جامعۃ الرشید کے مہتمم مفتی عبدالرحیم‘ جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ مولانا اویس نورانی اور دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی موجود تھے۔
7 اکتوبر کو منعقد ہونے والی فلسطین کانفرنس میں شرکت کے لیے 6تاریخ کو میں بھی جدہ سے کراچی پہنچ گیا۔ خوش قسمتی سے اسی روز مقامی ہوٹل میں قرآن وسنہ موومنٹ کے دوست احباب کے ہمراہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ان کے فرزند فارق نائیک سے بھرپور اور گرم جوش ملاقات کرنے کا موقع ملا جس میں باہمی دلچسپی کے بہت سے امور پر تبادلۂ خیال ہوا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے پاکستان آمد کے بعد مختلف ٹی وی چینلز کو مختلف موضوعات پر انٹرویو دیے ہیں‘ جن کا سلسلہ تاحال جاری وساری ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک آنے والے ایام میں لاہور اور اسلام آباد میں بھی بڑے عوامی اجتماعات سے خطاب کریں گے جن میں اسلام کی نشر واشاعت‘ دعوت وتبلیغ اور غیر مسلموں پر اسلام کے غیر معمولی اثرات کے حوالے سے گفتگو ہو گی۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ماضی نے قضیۂ کشمیر کے حوالے سے بڑے خوبصورت خیالات کا اظہار کیا جس کی وجہ سے جہاں اہلِ پاکستان کے دل میں ان کی قدر ومنزلت میں اضافہ ہوا وہیں بھارت ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مؤقف کی وجہ سے تلملا اٹھا۔ چنانچہ پاکستان میں ڈاکٹر صاحب کی آمد کے موقع پر بھارتی میڈیا نے خوب واویلا کیا اور ڈاکٹر ذاکر نائیک کو دہشتگردوں کا ہمنوا ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے مہمانوں کی آمد سے جہاں معاشرے پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں وہیں مسلمانوں کا دین سے تعلق بھی مضبوط ہوتا ہے۔ اس موقع پر بعض عناصر نے منفی خیالات کا بھی اظہار کیا جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہ تھا۔ کسی مکرم اور محترم مہمان کی آمد پر منفی خیالات کا اظہار کرنا ہر اعتبار سے نامناسب ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا دورۂ پاکستان ہر اعتبار سے مثالی اور خوشگوار رہے گا اور اس دورے سے پاکستان کے لوگوں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی خدمات کو قبول فرمائے اور حاسدوں کے حسد اور شریروں کے شر سے ان کی حفاظت فرمائے‘ آمین!