غیر پائیدار معاشی ماڈل
ورلڈ بینک کے جنوبی ایشیا کیلئے ریجنل ڈائریکٹر کے الفاظ میں ملک عزیز میں جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کا حجم 80 فیصد تک پہنچ چکا ہے‘ جبکہ پاکستان نوجوان آبادی‘ قدرتی وسائل اور اپنے اہم سٹرٹیجک مقام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجموعی قومی پیداوار میں سالانہ بنیادوں پر 7 سے 8 فیصد تک نمو حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کرنٹ اکائونٹ خسارے‘ درآمدات و برآمدات میں واضح فرق اور قرضوں پر کُلی انحصار کی وجہ سے پاکستان کا معاشی ماڈل ناپائیدار ہے اور اخراجات آمدن سے کہیں زیادہ ہیں جنہیں پورا کرنے کے لیے پیداواری استعداد بڑھانے یا قومی آمدنی کے نئے ذرائع تلاش کرنے کے بجائے سارا زور قرضوں کے حصول پر ہے جس کے سبب ملکی اور بیرونی قرضوں میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر دستیاب وسائل کی جانب نظر ڈالی جائے تو یہ امر باعثِ استعجاب ہے کہ وہ ملک جس کی دو تہائی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے‘ اور جو قدرتی وسائل‘ معدنیات اور زرعی پیداوار کے لحاظ سے آئیڈیل جغرافیائی حیثیت کا حامل ہے‘ اس نہج کو کیونکر پہنچا۔ کچھ شک نہیں کہ اگر قومی وسائل کو کماحقہٗ استعمال کیا جائے‘ ملک میں سرمایہ کاری کیلئے موزوں ماحول پیدا کیا جائے اور بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے سنجیدہ اور مخلصانہ اقدامات کیے جائیں تو نہ صرف دنوں میں معاشی کایا کلپ ہو سکتی ہے بلکہ پاکستان علاقائی ممالک کے لیے ترقی کی ایک ماڈل کی حیثیت بھی اختیار کر سکتا ہے۔