اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

پاک سعودی اقتصادی شراکت کے امکانات

سعودی عرب کے نائب وزیر سرمایہ کاری ابراہیم المبارک کی قیادت میں 50 سے زائد سعودی کمپنیوں کے سرمایہ کاروں کے وفد کے تین روزہ دورے سے سعودی عرب کی سرمایہ کاری اور پاکستان کی معاشی نمو کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ سعودی وفد کے دورے کا بنیادی مقصد دونوں ممالک کے مابین معاشی تعاون اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہے۔ گزشتہ ہفتے وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی عرب میں منعقدہ عالمی اقتصادی فورم میں شرکت کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور سرمایہ کاروں کے ایک گروپ سے خصوصی طور پر ملاقات کی تھی جس میں پاکستان اور سعودی عرب کے معاشی تعلقات کو مضبوط بنانے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کو بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا تھا۔ سعودی سرمایہ کاروں کا حالیہ دورہ گزشتہ ماہ کے وسط میں سعودی نائب وزیر خارجہ کے دورے کا تسلسل ہے اور اس کا آغاز خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی کاوشوں سے ہوتا ہے جس کے تحت دوست ممالک سمیت بیرونی دنیا کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب کیا جا رہا ہے۔ سعودی وفد کے حالیہ دورے کے دوران 10 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کے معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہونے کے امکانات ہیں اور یقینا اس سے دونوں ممالک کے تعلقات نئی جہات سے آشنا ہوں گے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے معاشی روابط اس پورے خطے کیلئے خوش آئند ہیں اور سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری سے ان دیگر ممالک کو بھی ترغیب ملے گی جو اپنی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کیلئے نئی منڈیوں کی تلاش میں ہیں۔ پاکستان زراعت‘ معدنیات اور صنعت و توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے حوالے سے کثیر مواقع کا حامل ہے اور یہ مواقع سعودی عرب کے معاشی مقاصد سے بھی مطابقت رکھتے ہیں۔ اس وقت سعودی عرب تیل پر اپنی معیشت کا انحصار گھٹانے اور قابلِ تجدید توانائی کو فروغ دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ سات سو ارب ڈالر سے زائد فنڈ کے ساتھ سعودی پبلک انویسٹمنٹ فنڈ دنیا کے چند بڑے سرمایہ کاری فنڈز میں سے ایک ہے اور وژن 2023ء کے تحت سعودی عرب سرمایہ کاری کے حوالے سے جن مواقع کی تلاش میں ہے‘ پاکستان ان تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں جانب کے حکومتی عہدیداران میں روابط اور معاشی دلچسپی کے سلسلے میں تیزی نظر آئی ہے۔ پاکستان آنے والے سعودی وفد میں انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ میرین‘ کان کنی‘ تیل اور گیس‘ ادویات سازی اور ایوی ایشن کی بڑی سعودی کمپنیوں کے 30 سے زائد سربراہان کی شمولیت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سعودی سرمایہ کار پاکستان میں کن شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ متعلقہ شعبوں میں نئی سعودی سرمایہ کاری سے نہ صرف جدید رجحانات متعارف ہوں گے بلکہ پاکستان کے اقتصادی شعبہ جات میں خلیجی ممالک کی دلچسپی میں بھی اضافہ ہوگا اور بیرونی دنیا پاکستان میں سرمایہ کاری کے پوٹینشل سے آگاہ ہو گی۔ اگر اس حوالے سے چیلنجز کی بات کی جائے تو امن و امان کی مثالی صورت کے علاوہ ملکی سطح پر سیاسی ہم آہنگی کی بھی اشد ضرورت ہے کیونکہ بے امنی یا سیاسی انتشار کے ماحول میں معاشی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ممکن نہیں رہتا۔ ایسے وقت میں جب ملکی قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 80 فیصد سے بھی بڑھ چکا ہے‘ حکومت کی ترجیح نئے قرضوں کے بندوبست کے بجائے سرمایہ کاری کے لیے موزوں ماحول کی فراہمی پر ہونی چاہیے تاکہ معاشی عسرت کا مقابلہ دستیاب وسائل سے کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں سیاسی قیادت کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا چاہیے اور قومی ہم آہنگی اور یگانگت کو فروغ دینا چاہیے تاکہ ملک میں اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو سکے اورمعاشی ترقی کی رفتار کو مہمیز دی جا سکے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement