اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

معاشی استحکام اور ترقی کے تقاضے

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ معاشی استحکام کیلئے پالیسیوں میں تسلسل ہونا چاہیے‘جبکہ معیشت کو چلانے کیلئے نجی شعبے کو آگے آنا چاہیے۔ بقول اُن کے‘اب وقت آگیا ہے کہ نجی شعبہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے اور وزرا اور بیورو کریٹس کو پیچھے بیٹھنا چاہیے۔ وفاقی وزیر خزانہ کی ان باتوں میں شبہے کی گنجائش نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈانواں ڈول معاشی پالیسیاں اور نجی شعبے کیلئے کاروبار کی آسانیوں سے پہلو تہی ہمارے معاشی دلدر کے بنیادی اسباب میں سے ہے۔ ایک حکومت ایک منصوبہ شروع کرتی ہے‘ دوسری آتی ہے تو اس کی کتر بیونت شروع کر دیتی ہے۔ کتنے ہی معاشی اور ترقیاتی منصوبے انہی تجربات کی بھینٹ چڑھ گئے۔ سرمائے کا بھی نقصان ہوا اور وقت کا بھی۔ رہی نجی شعبے کی معاشی و پیداواری صلاحیتوں سے استفادے کی بات‘ تو اس میں بھی ہمارے حکمرانوں نے وقت کے تقاضوں کو سمجھنے میں بہت دیر کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ قومی زندگی کی پون صدی کی تکمیل تک ہمیں جہاں ہونا چاہیے تھا ہم اس سے کہیں پیچھے ہیں‘ جبکہ اسی خطے کے کئی ممالک‘ جو وسائل کے لحاظ سے ہم سے کمتر تھے مگر اب برآمدات‘ معاشی نمو اور ملازمت کے مواقع پیدا کرنے میں ہمیں مات دے چکے ہیں۔ قومی زندگی میں ہم پالیسیوں کے عدم تسلسل اور نجی شعبے کی صلاحیتوں سے غفلت کے مزید متحمل نہیں۔ ہمیں سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے اور ان فیصلوں پر پہرا دینے کا رویہ اختیار کرنا ہو گا۔ قومی مفادات کا ادراک سیاسی مفاہمت کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ سیاسی انتشار کے ماحول میں قومی مفادات سیاسی اَنا کی بھینٹ چڑھتے ہیں‘ ہمارے ہاں یہی کچھ ہوتا آیا ہے اور سیاسی ہم آہنگی کے فقدان کا نتیجہ یہ ہے کہ معیشت سمیت سبھی قومی معاملات بدنظمی کا شکار رہے ہیں۔حکومتیں ریاستی نجی شعبے کو وہ اعتماد‘ حوصلہ اور تحفظ فراہم کرنے میں بھی ناکام رہی ہیں جبکہ ریاست کی ملکیت کاروباری اداروں کو بھی کامیابی سے نہیں چلا پائیں۔ یوں بتدریج یہ ادارے‘ جنہیں دستیاب سہولتوں کی وجہ سے اصولاً بہت منافع بخش ثابت ہونا چاہیے تھا‘ خسارے کی دلدل بنتے چلے گئے۔ اس دوران خطے کے دیگر ممالک نے کاروبار کے معاصر تقاضوں کا ساتھ دیا‘ سہولتیں پیدا کیں اور اپنے ہاں صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھ دی۔ ہماری حکومتوں سے یہ گاڑی چھوٹ جانے کی وجوہ تلاش کی جائیں تو ان میں سیاسی جماعتوں کی چپقلش کا بھی خاصا عمل دخل ملے گا۔ ہماری سیاسی جماعتیں آپس ہی میں اس قدر مصروف رہتی ہیں کہ جس قومی ذمہ داری کیلئے ان پہ اعتماد کیا جاتا ہے وہ اُن کیلئے دوسری یا تیسری ترجیح بن جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں نہ معاشی پالیسیاں ڈھنگ سے بنائی اور چلائی جاسکتی ہیں اور نہ نجی شعبے اور سرمایہ کاری کیلئے پُر کشش حالات ممکن ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی نورا کشتی نے ملک میں معیشت کی بنیادوں ہی کو کمزور نہیں کیا جمہوریت کو بھی ٹھیس پہنچائی ہے۔اس طرح سیاسی جماعتوں کیلئے عوامی اعتماد کا بحران شدت اختیار کرتا چلا گیا۔ آٹھ فروری کے عام انتخابات سے کچھ روز پہلے کے ایک سروے کے مطابق معاشی‘ سیاسی اور سکیورٹی چیلنجز کے حوالے سے پاکستانی عوام کی ناامیدی ماضی سے کہیں زیادہ ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صورتحال ملک کے استحکام کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔مذکورہ سروے کے مطابق 2023ء کے آخر میں پاکستانی عوام ملک کے معاشی حالات سے جتنے بد دل تھے گزشتہ 18 برس میں کبھی ایسی مایوس کن صورتحال نہیں رہی۔ اس وقت 70 فیصد لوگوں نے یہ رائے دی تھی کہ ملکی معیشت بدتر سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ موجودہ حکومت اگر اس بحران سے سرخرو ہونا چاہتی ہے تو پالیسی کے تسلسل اور نجی شعبے کو معیشت کی ڈرائیونگ فورس کی حیثیت سے قبول کرنا ہو گا۔ اگرچہ یہ کامیابی کی منزل نہیں بہرکیف اتنا کرنے سے ہمارا معاشی کاروان سیدھی راہ پر تو ضرور آ جائے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement