اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس

آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل احمد شریف چودھری کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس داخلی و خارجہ محاذ کے اہم ترین پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے داخلی مسائل‘ بیرونی چیلنجز‘ علاقائی سکیورٹی اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی اور عساکرِ پاکستان کے مؤقف کو واضح کیا۔ اس پریس کانفرنس میں گزشتہ سال 9 مئی کو پیش آنے والے سانحے پر بھی تفصیلی اظہارِ خیال کیا گیا اور واضح کیا گیا کہ 9 مئی کو ایک منظم سازش کے تحت عوام اور فوج میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی‘ جس میں ملوث عناصر کو آئین و قانون کے مطابق سزا دینا ہو گی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 9 مئی صرف افواجِ پاکستان کا مقدمہ نہیں ‘ یہ پورے پاکستان کے عوام کا مقدمہ ہے۔ کسی بھی ملک میں اس کی فوج پر حملہ ‘ فوج کے شہدا کی یادگاروں کی تضحیک ‘ فوج اور عوام کے درمیان نفرت پیدا کرنا‘ یہ سب ایسے کام ہیں جن سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا ۔ ایسے کاموں میں ملوث عناصر کو کیفرِ کردار تک نہ پہنچایا جائے تو ملک کے نظامِ انصاف پر سوال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ 9 مئی 2023ء کو جو کچھ ہوا 76 سالہ ملکی تاریخ میں کسی دشمن کو بھی اس کی جسارت نہیں ہوئی۔ اس میں کیا شک ہے کہ اس منظم منصوبے کا مقصد ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جاناتھا‘ مگر مسلح افواج کے منطقی ردِعمل نے مذموم سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ اگرچہ احتجاج کو جمہوری معاشروں میں اظہارِ رائے کی ایک صورت کے طور پر قبول کیا جاتا ہے مگر اس میں قانونی و اخلاقی حدود و قیود سے تجاوز کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ پُرتشدد احتجاج محض انارکی کو جنم دیتا ہے جس کی کسی معاشرے میں اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مستقبل میں اس قسم کے واقعات سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اس حوالے سے ایک مثال قائم کی جائے اور شرپسندی میں ملوث عناصر کے کیسز کو جلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔اس سلسلے میں امریکہ ‘ برطانیہ اور فرانس کی مثالیں موجود ہیں کہ دنگا فساد کرنے والوں سے وہاں کیسے نمٹا گیا۔ یہ اقدامات آنے والے وقت کے لیے قومی سلامتی کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں قومی تاریخ کے اس نہایت المناک دن کو فالس فلیگ آپریشن قرار دے کر شبہات پیدا کرنے کی جو کوششیں کی گئیں انہیں ہر گز کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے۔ 9مئی کے گھناؤنے واقعات کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانا قومی سلامتی کا تقاضا ہے اور آنے والے وقت میں ایسے واقعات کے اندیشے کا دفیعہ اسی صورت ہو سکتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے پروپیگنڈا اور برین واشنگ کے مسئلے کو بھی اجاگر کیا جو ہمارے سماج کا اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 19 میں اظہارِ رائے کی حدود واضح طور پر متعین ہیں مگر سماجی میڈیا پر آزادیٔ رائے کی حدود و قیود کو پامال کرتے ہوئے ریاست اور سکیورٹی اداروں پر جس طرح انگشت نمائی کی جاتی ہے‘ اس کی بھی قطعاً اجازت نہیں دی جا سکتی۔ قیام امن کیلئے پاکستان کے سکیورٹی اداروں کا کردار قابلِ رشک ہے۔پاک فوج نہ صرف ملک کی اندرونی و بیرونی سرحدوں کو محفوظ رکھے ہوئے ہے بلکہ معاشی طور پر ملک کو مضبوط بنانے کے لیے بھی پُر عزم ہے۔ یقینا پاکستان کی سکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گی اور خطے میں قیامِ امن کی کوششیں بار آور ثابت ہوں گی؛مگر یہ بھی ضروری ہے کہ اندرونی استحکام کے لیے سیاسی حلقے بھی گروہی مفادات و اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر‘ سر جوڑ کر بیٹھیں اور مشترکہ لائحہ عمل کے ذریعے درپیش چیلنجز کا مقابلہ کریں۔ ہماری اندرونی صفوں میں اتحاد پیدا ہو جائے تو ملک دشمن اپنی گھناؤنی سازشوں سے جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ سازشیں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement