اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سانحہ 9مئی، بھلائے نہ بنے!

سانحہ نو مئی کو آج ایک برس مکمل ہو گیا ۔ آج یہ سوال پورے قومی منظرنامے پر چھایا ہوا ہے کہ اس ایک برس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اس حوالے سے کوئی دو آرا نہیں کہ نو مئی کا سانحہ ہماری قومی تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا جس نے ریاست و سماج سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی پر گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ پورا سال سیاسی پراگندی اور فکری انتشار کی نذر رہا‘ معیشت و معاشرت بھی اسکے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکے جس کا اظہار معاشی جمود کی صورت واضح ہے۔ قوم اس وقت جس ہیجانی صورتحال میں مبتلا ہے اسکا ایک حل تو شر پسندی کو کچلنے میں ہے اور دوسرا اقدام سیاسی بے چینی کو حل کرنا ہے۔ شرپسندی کا استیصال تو قانون کے نفاذ سے مؤثر طور پر ہو جائے گا مگر صورتحال کو نارمل کرنے کیلئے سیاسی عدم برداشت کو بھی دور کرنا ہوگا۔ سیاسی انتشار کا یہ ماحول سیاسی نظام کے ساتھ ساتھ ریاستی تشخص کو بھی متاثر کر رہا ہے‘ سانحہ نو مئی نے جسے خاصی زک پہنچائی ہے۔ اس سانحے نے ہمارے مجموعی قومی رویے اور انتظامی صلاحیت و استعداد پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کیے ہیں۔ یہ سوال ہنوز جواب طلب ہیں کہ اس سانحے کا پیشگی تدارک کیوں نہ کیا جا سکا اور عوام کو ہجوم میں تبدیل ہونے سے روکنے کیلئے کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ سانحہ نو مئی نے قانونی و عدالتی نظام سے متعلق ہمارے تجاہلِ عارفانہ کو بھی اجاگر کیا ہے۔ ایک سال بعد بھی اس سانحے میں ملوث مجرموں کو سزا نہ ہو پانا نظامِ قانون و انصاف کی سست روی کو نمایاں کرتا ہے۔ اس حوالے سے تمام سقم دور کرنے اور ان کیسز کو فاسٹ ٹریک چلانے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں امریکہ‘ برطانیہ اور فرانس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ جنہوں نے سماج میں انتشار پھیلانے والوں کو سزا سنانے میں کسی تساہل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ نیز یہ امر بھی غور و فکر کا متقاضی ہے کہ ہمارا نظامِ قانون کسی جرم کے بعد ہی کیوں فعال ہوتا ہے‘ جرائم کی روک تھام کیلئے پیشگی فعالیت میں کیا امر مانع ہے؟ ہمارے سماج میں‘ جہاں آبادی کا بیشتر حصہ معاشی مشکلات کا شکار ہے اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے سیاسی و سماجی شعور کی بھی کمی ہے‘ سیاسی اثر و رسوخ ‘ ذاتی مجبوری یا مالی مفادات کی خاطر ‘ افراد کے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال ہو جانے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا؛ چنانچہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے عناصر سے عوام کو بروقت خبردار کرے اور محتاط رہنے کی تلقین کرے تا کہ کوئی لاعلمی یا دھوکے کا شکار نہ رہے۔ اس سانحے نے سیاسی جماعتوں کے طریقہ کار اور نظامِ سیاست پر بھی انگشت نمائی کا موقع فراہم کیا۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت کا یہ اولین فرض ہے کہ لوگوں کو بہرطور محتاط رویہ اختیار کرنے اور قانون پسندی کا درس دیں۔ بدقسمتی سے بعض سیاسی رہنماؤں کی جانب سے لوگوں کو تحمل و بردباری کے بجائے قصداً اشتعال دلایا جاتا ہے تاکہ انہیں اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کیا جا سکے۔ سیاسی رہنمائوں کے اسی رویے نے عوام کو سیاسی جماعتوں سے متنفر کیا ہے اور آج سیاسی جماعتوں کی اپنی بقا خطرے سے دوچار ہے۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ہمیں اپنے اہداف اور منزل کا واضح تعین کرنا ہو گا۔ عسکری قیادت صراحت کے ساتھ اس عزم کا اظہار کر چکی کہ نو مئی کے واقعات کے تمام منصوبہ سازوں‘ مشتعل افراد اور اکسانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ یہ عزم مستقبل میں قومی استحکام کیلئے ناگزیر ہے کیونکہ گزشتہ سال نو مئی کو جو کچھ دیکھا گیا‘ ہماری قومی تاریخ اس کی کوئی بھی دوسری مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ان واقعات کے ذمہ داران اگر قانون کی گرفت اور انصاف کے تقاضوں سے بچ جاتے ہیں تو مستقبل میں ایسے واقعات کے اعادے کے اندیشوں کو رد کرنا ممکن نہیں۔ لہٰذا ان خطرات کی بیخ کنی ازبس ضروری ہے۔ یقینا نو مئی کے اندوہناک واقعات بھلائے نہیں جا سکتے مگر وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اس سانحے سے سبق سیکھ کر قومی سفر میں آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement