ہر شخص کو اپنے محسنین کی قدر کرنی چاہیے اور ان کی نیکیوں اور احسانات کا بدلہ چکانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دنیا میں ہمارے والدین ہمارے بہت بڑے محسن ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کے متعدد مقامات پر ان سے حسنِ سلوک کی تلقین کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ بنی اسرائیل کی آیات 23 تا 24 میں تفصیل سے ارشاد فرماتے ہیں ''اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اُف تک نہ کہنا‘ نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چیت کرنا۔ اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسے انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے‘‘۔
ہمارے محسنین میں ہمیں تعلیم دینے والے اساتذہ بھی شامل ہیں چنانچہ ہمیں ان کے لیے بھی دعاگو رہنا چاہیے۔ وہ اہلِ علم جو اپنے علم کو پھیلاتے اور لوگوں کو درست سمت پر چلاتے ہیں‘ یقینا اُن کو بھی ہماری نیک تمنائوں اور دعائوں کا حصہ ہونا چاہیے۔
جب ہم اپنی زندگی پر غور وفکر کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہم پر اللہ کی مخلوقات میں سب سے زیادہ احسانات جس ہستی کے ہیں وہ نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس ہے۔ آپﷺ کی تعلیمات کی وجہ سے ہمیں جیون کا شعور حاصل ہوا اور آپ کے ارشاداتِ عالیہ کی وجہ سے ہم زندگی گزارنے کے قابل ہوئے۔ آپﷺ نے عقائد‘ عبادات اور معاملات میں انسانوں کی کامل رہنمائی کی۔ یقینا آپﷺ محسن انسانیت اور امتِ مسلمہ کی محبوب ترین ہستی ہیں۔ آپﷺ کے احسانات کا بدلہ اگر ہم چکانے کی کوشش بھی کریں تو چکا نہیں سکتے۔ آپﷺ کے اپنی امت پر متعدد حقوق ہیں جن میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ آپﷺکی ذاتِ اقدس پر کثرت سے درود بھیجا جائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 56 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو‘‘۔
نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس پردرود بھیجنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ درودِ ابراہیمی کو پڑھا جائے۔ نبی کریمﷺ پر درود بھیجنا یقینا اجر وثواب کا سبب ہے۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں۔
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا اللہ تعالیٰ اس پر دس بار رحمت نازل فرمائے گا‘‘۔ اسی طرح سنن نسائی میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا اور اس کی دس غلطیاں معاف کر دی جائیں گی اور اس کے دس درجے بلند کیے جائیں گے‘‘۔
کسی محسن کے احسانات کو فراموش کرنا بہت بڑی کوتاہی اور زیادتی کی بات ہے۔ احادیث مبارکہ میں ایسے شخص کی مذمت کی گئی ہے جو نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس پر درود نہیں بھیجتا‘ اس حوالے سے جامع ترمذی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''جس شخص کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے تو وہ بخیل ہے‘‘۔ مسند احمد میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''اس شخص کا ناک خاک آلود ہو جائے جس کے پاس میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا‘‘۔ مذکورہ احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ کا ذکر مبارک سن کر درود نہ بھیجنا بخیلی اور بدبختی کی علامت ہے۔ چنانچہ ہمیں اس سلسلے میں غفلت اور لاپروائی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔
ہم زندگی میں بہت سی مجالس میں شرکت کرتے ہیں جن میں معاشرتی‘ سیاسی اور باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کی جاتی ہے لیکن ایسی تمام مجالس جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر نہ ہو یا نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس پر درود نہ بھیجا جائے‘ قیامت کے دن انسان کے لیے باعثِ حسرت ہوں گی‘ خواہ وہ جنت میں داخل ہونے میں کامیاب ہی کیوں نہ ہو جائے۔ ا س حوالے سے مسند احمد میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں اور اس میں نہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں اور نہ نبی کریمﷺ پر درود بھیجتے ہیں تو وہ مجلس قیامت کے دن اُن کے لیے باعثِ حسرت ہو گی‘ اگرچہ وہ دوسرے اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل ہو جائیں‘‘۔ اس حدیث پاک سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ جس مجلس میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر نہ کیا جائے یا نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس پر درود نہ بھیجا جائے‘ اس مجلس کے حاضرین کو اللہ تبارک وتعالیٰ چاہے تو ان لوگوں کو بخش دے‘ چاہے تو ان پرعذاب نازل کرے۔ اس حوالے سے سلسلہ صحیحہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ ''جو قوم کسی مجلس میں بیٹھی اور اللہ کا ذکر نہیں کیا‘ نہ اپنے نبی پر درود پڑھا تو وہ مجلس ان پر حسرت کا باعث ہو گی‘ اللہ چاہے تو انہیں عذاب دے اور اگر چاہے تو بخش دے‘‘۔
ہر انسان زندگی میں مختلف مسائل سے دوچار رہتا ہے اور ان مسائل سے نجات حاصل کرنے کے لیے جہاں مادی ذرائع کو اختیار کرتا ہے‘ وہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعاگو بھی ہوتا ہے۔ کئی مرتبہ انسان اس وجہ سے بھی پریشان ہوتا ہے کہ نجانے اس کی دعائیں کیوں قبول نہیں ہو رہیں۔ دعائوں کی عدم قبولیت کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ دعا کرنے سے قبل اللہ تعالیٰ کی ثنا خوانی اور نبی کریمﷺ پر درود کو فراموش کر دیا جائے۔ اس حوالے سے جامع ترمذی میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان رکی رہتی ہے‘ اس میں سے ذرا سی بھی اوپر نہیں جاتی جب تک کہ اپنے نبی کریمﷺ پر صلاۃ (درود) نہیں بھیج لیتے۔ اسی طرح سنن نسائی میں حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کو نماز میں دعا کرتے سنا جس نے نہ اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی اور نہ نبیﷺ پر درود پڑھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ''اے نمازی! تُو نے جلدی کی ہے‘‘۔ پھر رسول اللہﷺ نے لوگوں کو دعا کا طریقہ سکھایا۔ پھر آپﷺ نے ایک آدمی کو دعا کرتے ہوئے سنا‘ اس نے پہلے اللہ تعالیٰ کی بزرگی اور تعریف بیان کی‘ پھر نبیﷺ پر درود پڑھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''اب تُو دعا کر‘ قبول ہو گی اور مانگ‘ تجھے دیا جائے گا‘‘۔
جنت میں جانا بہت بڑی کامیابی ہے اور قرآنِ مجید میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ جو شخص آگ سے بچ کر جنت میں داخل ہو گیا‘حقیقی کامیابی اسی کو حاصل ہو گی۔ جو شخص درود پاک کو پڑھنا چھوڑ دیتا ہے‘ حدیث پاک سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ جنت کے راستے کو بھول جاتا ہے۔ اس حوالے سے سلسلہ صحیحہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ ''جس شخص کے پاس میرا (نبیﷺ کا) ذکر کیا گیا اور وہ درود پڑھنا بھول گیا‘ اُس سے جنت کا راستہ بھٹک گیا‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس پر درود بھیجنے کی توفیق دے‘ آمین!