اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں بے پایاں ہیں اور اگر انسان اُن نعمتوں کو شمار کرنا چاہے بھی تو نہیں کر سکتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ ابراہیم کی آیت نمبر 34 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور اگر تم شمار کرنا چاہو اللہ کی نعمتوں کا‘ تو تم نہیں کر سکتے اُن کا احاطہ‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کوصحت‘ مال‘ بیوی بچے‘ گھر بار‘ اولاد‘ دوست احباب‘ رزق اور معاشی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ''وقت‘‘ جیسی عظیم نعمت سے بھی نواز رکھا ہے۔ جو شخص صحیح معنوں میں اپنے نظام الاوقات کو مرتب کرتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ اپنے گھر بار اور خاندان میں نمایاں مقام حاصل کر لیتا ہے بلکہ بتدریج معاشرے میں بھی اپنی منفرد پہچان بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ وقت کو ضائع کرتے ہیں اُن کی حیثیت گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ دھندلاتی رہتی ہے۔ ایسے لوگ نہ صرف معاشرے میں کوئی مثبت اور نمایاں کردار ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں بلکہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی زحمت کا سبب بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ خاندانی‘ سماجی اور معاشی اعتبار سے مفید کردار ادا نہیں کر پاتے۔ انسان علم وہنر اور کاروباری استعداد اور صلاحیتوں کو تبھی حاصل کر سکتا ہے جب وہ اپنے وقت کا درست استعمال کرے۔ جو لوگ اپنے وقت کا درست اور صحیح استعمال نہیں کرتے وہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ ہمارے معاشرے میں اس وقت بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ نوجوان اپنے فارغ وقت کو ضائع کر رہے ہیں حالانکہ یہ وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور ذمہ دار انسان اپنے فارغ وقت سے بہت کچھ حاصل کر کے اپنے مستقبل کو سنوار سکتا ہے۔
ہمارے ملک میں ہر سال سکولوں اور کالجوں کی سطح پر دو مرتبہ تعطیلات ہوتی ہیں۔ دسمبر میں سردیوں کی مختصر تعطیلات ہوتی ہیں جبکہ گرمیوں میں دو ماہ سے زائد عرصے کے لیے سکول اور کالج بند رہتے ہیں۔ ان تعطیلات میں طالب علموں کے پاس چھٹیوں کا کام کرنے کے علاوہ بہت سا فارغ وقت ہوتا ہے۔ اگر وہ اس وقت کو صحیح طریقے سے استعمال کریں تو مستقبل میں اپنے ہم جماعت افراد سے پیش قدمی کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے گھر بار اور معاشرے کو بھی سنوارنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ چھٹیاں کس طرح گزارنی چاہئیں‘ اس حوالے سے نہ صرف یہ کہ طلبہ کے پاس کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہوتا بلکہ والدین بھی اس حوالے سے اپنی اولاد کی درست رہنمائی کرنے سے بالعموم قاصر نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے بعض اہم امور پر توجہ دینا ضروری ہے جو درجہ ذیل ہیں:
1۔ عبادات میں پختگی: اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کی سورۃ الذاریات میں اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں اور جنات کو اپنی بندگی کے لیے بنایا ہے۔ چنانچہ سورۃ الذاریات کی آیت نمبر 56 میں ارشادہوا ''اور نہیں پیدا کیا ہے میں نے جن و انسان کو مگر محض اس غرض سے کہ میری عبادت کریں‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو فقط اپنی بندگی اور عبادات کے لیے پیدا کیا ہے۔ نمازِ پنجگانہ کا اہتمام کرنا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے۔ اس حوالے سے کئی مرتبہ سکول اور کالج میں حاضری کے دوران غفلت اور کوتاہی ہو جاتی ہے‘ اس غفلت اور کوتاہی کو سرے سے ختم کرنے کے لیے تعطیلات بہترین موقع ہوتی ہیں۔ اگر انسان اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو نمازِ پنجگانہ کا عادی بنا لے اور اس کے ساتھ ساتھ نوافل اور ذِکر اَذکار کا بھی اہتمام کرے تو اس سے یہ عادت خود بخود پختہ ہو جاتی ہے اور انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کرنے والے لوگوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ الم نشرح میں اس حوالے سے بہت ہی خوبصورت نصیحت کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ الم نشرح کی آیات 7 تا 8 میں ارشاد فرماتے ہیں ''چنانچہ جب فارغ ہو جائو تو (عبادات میں) محنت کرو۔ اور اپنے رب کی طرف دل لگائے رکھو‘‘۔
2۔ قرآنِ مجید کی تلاوت اور اس پر تدبر: قرآنِ مجید کی احسن طریقے سے تلاوت کرنا اور اس کے الفاظ کی درست ادائیگی پر توجہ دینا ایک اہم ذمہ داری ہے جس کو عام طور پر عصری تعلیم کے دوران نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ تعطیلات کے دوران قرآنِ مجید کی کسی ایک بڑی سورۃ کا انتخاب کر کے اس کی درست ادائیگی اور ترجمے کو مکمل کرنے کی کوشش کرنا نہایت مفید کام ہے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں سورۃ البقرہ اور سورۂ آلِ عمران جیسی کسی ایک سورۃ کے درست تلفظ کی ادائیگی اور اس کے ترجمے پر احسن طریقے سے غور وفکر کیا جا سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تلاوت بھی درست ہو جائے گی اور علم میں بھی اضافہ ہو گا۔
3۔ احادیث اور سیرت کی معرفت: اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو تمام انسانیت کا مقتدا اور رہنما بنا کے بھیجا اور آپﷺ کی ذاتِ بابرکات میں ہر طرح کے اوصافِ حمیدہ کو ودیعت فرما دیا۔ چھٹیوں میں نبی کریمﷺ کی احادیث اور آپﷺ کی سیرت کے بعض حصوں کی معرفت کو حاصل کرنا یقینا بہت سعادت والا کام ہے۔ اگر چھٹیوں میں''الرحیق المختوم‘‘جیسی سیرت النبیﷺ کی کوئی مستند کتاب اور احادیث طیبہ کے کسی مختصر مجموعے کو اچھے طریقے سے پڑھ لیا جائے تو انسان کے دینی علم اور نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کے بارے میں معلومات میں خاطرخواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ انسان اس طریقے سے باعمل مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزارنے کے بھی قابل ہو سکتا ہے۔
4۔کتب بینی: چھٹیوں میں کسی اچھی تاریخی یا جنرل نالج پر مبنی کتاب کے مطالعے سے بھی انسان کی علمی اور ذہنی سطح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ جو لوگ چھٹیوں میں مطالعہ کرتے ہیں وہ اس دوران تاریخی‘ ادبی اور سائنسی معلومات میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
5۔ والدین کا ہاتھ بٹانا: بچے چھٹیوں میں والدین کا ہاتھ بھی بٹا سکتے ہیں اور گھر کے چھوٹے بڑے کاموں میں ان کی اچھے طریقے سے معاونت کر کے ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے علاوہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو بھی راضی کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے اس بات کو ذہن نشین کرنا چاہیے کہ والدین کی خدمت کرنا اور ان کے ساتھ احسان والا سلوک کرنا ہر انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری میں کوتاہی کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔
6۔ اچھی مجالس میں جانے کی کوشش: چھٹیوں میں علمی مجالس میں شرکت کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے دوست احباب کے ہمراہ ایسے مقامات پر جمعہ کی ادائیگی کے لیے پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے جہاں سے علم‘ آگہی اور شعور کے حصول میں آسانی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے مقامات پر بھی جانا چاہیے جہاں کسی علمی شخصیت کے لیکچرز کا اہتمام کیا گیا ہو۔ ان لیکچرز کو سننے کے بعد ذہنی صلاحیتوں میں خاطرخواہ اضافہ ہوتا ہے اور انسان میں مطالعے اور محنت کی رغبت پیدا ہوتی ہے۔
7۔ اعزہ و اقارب سے ملاقات: چھٹیوں میں اپنے اُن اعزہ و اقارب سے ضرور ملاقات کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جو ضعیف ہو چکے ہوں۔ ان اعزہ و اقارب سے ملاقات کرنے کے بعد انسان ان کی نیک تمنائوں اور دعائوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ نتیجتاً اس کے مستقبل کے سنورنے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔
اگر مذکورہ بالا تدابیر پر عمل کر لیا جائے تو طلبہ کی چھٹیاں بہترین انداز سے گزر سکتی ہیں اور وہ چھٹیوں کے بعد سکول اور کالج میں نئی صلاحیتوں اور نئے عزم کے ساتھ داخل ہونے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے نوجوانوں کو کامیاب کرے اور ان کو اپنا وقت ضائع کرنے سے محفوظ رکھے تاکہ وہ صحیح معنوں میں مستقبل میں قوم کے معمار بن سکیں‘ آمین!