عصرِ حاضر میں لوگوں کی بڑی تعداد علم کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہے جبکہ اس کے مدمقابل مال ودولت‘ عہدہ اور شہرت کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علم غیر معمولی اہمیت کی حامل نعمت ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ طہٰ میں نبی کریمﷺ پر اس وحی کا نزول فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے علم میں اضافے کی دعا مانگنی چاہیے۔ سورۂ طہٰ کی آیت نمبر 114 میں ارشاد ہوا ''اور دعا کرو: اے میرے پروردگار! مجھے زیادہ علم عطا کر‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ زمر میں اس حقیقت کو واضح کر دیا کہ علم والے اور بے علم لوگ برابر نہیں ہو سکتے۔ سورۂ زمر کی آیت 9 میں ارشاد ہوا ''کہہ دیجیے‘ کیا برابر ہو سکتے ہیں وہ لوگ جو جاننے والے ہیں اور وہ جو کچھ نہیں جانتے؟‘‘۔ اسی طرح سورۃ المجادلہ میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں اور اہلِ علم کے درجات کو بلند فرما دیا ہے۔ سورۃ المجادلہ کی آیت 11 میں ارشاد ہوا ''بلند کرتا ہے اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں تم میں سے۔ اور ان کو جنہیں دیا گیا ہے علم‘ درجوں کے اعتبار سے‘ اور اللہ ان سب اعمال سے‘ جو تم کرتے ہو پوری طرح باخبر ہے‘‘۔
انسان کی تخلیق فرشتوں اور جنات کے بعد ہوئی تھی لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے درجات کو علم کی وجہ سے بلند فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعے کو سورۃ البقرہ کی آیات 30 تا 33 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں‘ تو انہوں نے کہا: ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے؟ اور ہم تیری تسبیح‘ حمد اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں۔ (اللہ نے) فرمایا: جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ اور (اللہ نے) آدم کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتائو۔ ان سب (فرشتوں) نے کہا: اے اللہ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تُو نے ہمیں سکھا رکھا ہے‘ پورے علم وحکمت والا تو تُو ہی ہے۔ (اللہ نے) آدم سے فرمایا: تم ان کے نام بتا دو۔ جب انہوں نے بتا دیے تو فرمایا کہ کیا میں نے تمہیں (پہلے ہی) نہ کہا تھا کہ زمین اور آسمانوں کا غیب میں ہی جانتا ہوں اور میرے علم میں ہے جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپاتے ہو‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہما السلام کو بہت سی نعمتوں سے نوازا۔ انہیں قوت اور سلطنت بھی دی اور لوگوں کو بھی ان کے تابع کر دیا لیکن اس کے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی نعمتِ علم کا علیحدہ سے بھی ذکر فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النمل کی آیت 15 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور ہم نے یقینا دائود اور سلیمان کو علم دے رکھا تھا۔ اور انہوں نے کہا: تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایمان دار بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے‘‘۔
علم کی اہمیت اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے نبی حضرت شموئیل علیہ السلام نے جب بنی اسرائیل کے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کے لیے ایک بادشاہ کا تقرر کیا تو اس کے مال کے بجائے اس کی علم اور طاقت کو دیکھا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیات 246 تا 247 میں اس واقعے کو یوں بیان فرماتے ہیں ''کیا آپ نے موسیٰ کے بعد والی بنی اسرائیل کی جماعت کو نہیں دیکھا کہ جب انہوں نے اپنے پیغمبر (شموئیل) سے کہا کہ کسی کو ہمارا بادشاہ بنا دیجئے تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ پیغمبر نے کہا کہ ممکن ہے جہاد فرض ہو جانے کے بعد تم جہاد نہ کرو‘ انہوں نے کہا: بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے؟ ہم تو اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں اور بچوں سے دور کر دیے گئے ہیں۔ پھر جب ان پر جہاد فرض ہوا تو سوائے تھوڑے سے لوگوں کے‘ سب پھر گئے اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اور انہیں ان کے نبی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا دیا ہے تو وہ کہنے لگے: بھلا اس کی ہم پر حکومت کیسے ہو سکتی ہے؟ اس سے تو بہت زیادہ بادشاہت کے ہم حقدار ہیں‘ اس کو تو مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی۔ نبی نے فرمایا: سنو! اللہ نے اسی کو تم پر برگزیدہ کیا ہے اور اسے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے۔ بات یہ ہے کہ اللہ جسے چاہے حکومت دے‘ اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے‘‘۔
''قرآن و سنت‘‘ ہمارے لیے علم کے دو بہت بڑے سرچشمے ہیں اور مسلمانوں نے قرونِ اولیٰ میں ترقی کی تو اس کی بہت بڑی وجہ قرآن و سنت میں مذکور علم کے ساتھ تمسک کو اختیار کرنا تھا۔ نبی کریمﷺ ساری زندگی علم کی نشر واشاعت کے لیے کوشاں رہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے۔ اس کی مثال زبردست بارش کی سی ہے جو زمین پر (خوب) برسے۔ بعض زمین‘ جو صاف ہوتی ہے‘ وہ پانی کو پی لیتی ہے اور بہت بہت سبزہ اور گھاس اُگاتی ہے اور بعض زمین جو سخت ہوتی ہے‘ وہ پانی کو روک لیتی ہے اس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ وہ اس سے سیراب ہوتے ہیں اور سیراب کرتے ہیں۔ اور زمین کے بعض خطوں پر پانی پڑتا ہے جو بالکل چٹیل میدان ہوتے ہیں۔ وہ نہ پانی روکتے ہیں اور نہ ہی سبزہ اگاتے ہیں۔ تو یہ اس شخص کی مثال ہے جو دین میں سمجھ پیدا کرے اور نفع دے اس کو وہ چیز‘ جس کے ساتھ میں مبعوث کیا گیا ہوں۔ اس نے علم دین سیکھا اور سکھایا اور اس شخص کی مثال جس نے سر نہیں اٹھایا (یعنی توجہ نہیں کی) اور جو ہدایت دے کر میں بھیجا گیا ہوں اسے قبول نہیں کیا۔
خلفائے راشدینؓ نے بھی علم کی نشر و اشاعت کے لیے مثالی کردار ادا کیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے علم کے بارے میں خود نبی کریمﷺ نے ایک بڑا خوبصورت خواب دیکھا۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں سو رہا تھا (اسی حالت میں) مجھے دودھ کا ایک پیالہ دیا گیا۔ میں نے (خوب اچھی طرح) پی لیا۔ حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ تازگی میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے۔ پھر میں نے اپنا بچا ہوا (دودھ) عمر بن خطاب کو دے دیا۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: اس کی کیا تعبیر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: علم۔
جب تک ہمارے حکمران اور رہنما علم کے ساتھ وابستہ تھے‘ اس وقت تک امت مسلمہ عروج پہ رہی اور جب علم کو پسِ پشت ڈال دیا گیا تو امت مسلمہ بتدریج زوال پذیر ہوتی چلی گئی۔ علم کا ضائع ہو جانا یا اٹھ جانا بہت بڑی آفت اور قیامت کی علامات میں سے ایک ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: علاماتِ قیامت میں سے یہ ہے کہ (دینی) علم اٹھ جائے گا اور جہل ہی جہل ظاہر ہو جائے گا۔ اور (علانیہ) شراب پی جائے گی اور زنا پھیل جائے گا۔
آج بھی اگر ہم اپنا کھویا ہوا عروج حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں علم کے میدان میں ترقی کرنا ہو گی۔ اگرعلم کو آج بھی اہمیت دی جائے تو ہمارا معاشرہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ریاستی طور پر علم کی مناسب انداز میں سرپرستی نہیں کی جاتی اور عصری علم کی تکمیل کے بعد بھی صاحبِ علم لوگوں کے لیے معاشی ترقی کے دروازے نہیں کھولے جاتے‘ جس کی وجہ سے وہ پسماندگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو کر علم کی نشر واشاعت کے بجائے کسی اور کام میں مصروف ہو جاتے ہیں یا مناسب روزگار کیلئے وطن کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔ ہماری ریاست اور معاشرے کو علم پروری کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ہم اقوام عالم میں ایک نمایاں مقام حاصل کر سکیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں علم پرور حکمران نصیب کرے اور ہم سب کو علم کے فروغ کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق دے‘ آمین!